محمد مبین امجد
محفلین
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں ہمارے اس وطن عزیز پہ شب خون مارا۔ اس کا ارادہ لاہور کو فتح کر کے جیم خانہ میں فتح کا جشن منانا تھا اور اس ارض پاک کو اپنے ناپاک قدموں سے آلودہ کرنا تھا۔ مگر ہماری بہادر افواج نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اور اس نیک کام میں پوری قوم نے اپنی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔
ان حالات میں کہ جب پورا ملک جس قدر ہو سکتا تھا اپنی فوج کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں بھی اپنے کالج کی طرف سے آنے والے گرل گائیڈز کے دستے میں شامل ہو کر یہاں چلی آئی تھی۔ ریڈیو پہ صبح شام ملکہ ترنم نور جہاں کی آوازیں گونجتیں اور سپاہیوں سمیت تمام قوم کو حوصلہ بہم پہنچاتیں۔ ہم بھی کبھی کبھار ریڈیو سن لیتے اور دلوں کو گرما لیتے تھے۔ اور پھر ہم نے یہاں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور اب ہم یہاں تھے۔ اب ہم یہاں تھے تاکہ اپنی قوم کے بہادر اور جری جوانوں کی مرہم پٹی کر سکیں۔
مجھے یہاں تقریبا دوسرا دن تھا۔ اور یہاں روزانہ ہی کئی لوگ لائے جاتے تھے۔ اکثر روتے اور چیختے چلاتے آتے اور چند دن یہاں رہ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتے، اور منوں مٹی تلے جا سوتے۔ اور بعض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوجاتے اور بہر صورت خاموشی ان کا مقدر ٹھہرتی۔
مجھے یاد ہے یہ جنگ کا تیسرا روز تھا کہ ایک انتہائی لمبا تڑنگا فوجی جوان اسٹریچر پر لایا گیا۔ وہ بار بار کچھ بڑبڑا رہا تھا، میں نے ذرا کان لگا کر سنا تو وہ افسوس کر رہا تھا کہ ماں سے کیا ہوا وعدہ نہیں پورا کر سکا۔ اس کی حالت بگڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر نیچے جا رہا تھا۔ اس کو ٹانگوں پہ گولیاں لگی تھیں اور جب ہم نے اسے بتایا کہ اس کی ٹانگیں ضائع ہو گئی ہیں تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
اس شاندار جوان کی ٹانگوں کا مجھے بھی بہت دکھ ہوا۔
مگر کیا کیا جاسکتا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ اگلے روز میں اس کے بیڈ پر گئی تو وہ آنکھوں میں آنسو بھر کہنے لگا کہ میں اب جنگ میں تو نہیں جاسکتا۔ میں نے اسے کافی تسلی و دلاسے دیے، مگر وہ شاکی نظروں سے مجھے دیکھے گیا۔ پھر اسے وارڈ میں بھیج دیا گیا۔
وارڈ میں جب بھی جانا ہوتا تو میں اس کے پاس جا کر چند لمحے ٹھہرتی۔ وہ بارڈر کی حالت پوچھتا، جنگ کے حالات جاننے کی کوشش کرتا اور دیر تک آہیں بھرتا۔ تنومند آفیسر تھا لیکن دن بدن اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ موت کی وادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مجھے جب بھی ذرا سی بھی فرصت ملتی میں اس کے پاس ضرور جاتی، اسے تسلی دیتی کہ تم ٹھیک ہو جاؤ گے اور پھر ان شاء اﷲ جنگ کے میدان میں جاؤ گے۔ ہاں یہ بتانا بھول گئی کہ جب اس کا آپریشن کرنے لگے تو وہ ہوش میں تھا، اور اس نے کہا کہ نہیں مجھے آپریشن نہیں کروانا۔ اس سے میں کون سا اپنی ماں کا وعدہ پورا کر پاؤں گا۔؟
میں سوچنے لگی کہ جانے اس نے کیا وعدہ کیا تھا اپنی ماں سے، شاید بخیریت لوٹنے کا کہ ایسے حالات میں مائیں ایسے ہی وعدے لیا کرتی ہیں، یا سر پہ سہرا سجانے کا، یا شاید کوئی اور؟ مگر یہ راز ہی رہا، اور اس نے مجھے نہیں بتایا کہ اس نے اپنی ماں سے کیا وعدہ کیا تھا۔اور
اور پھر ایک روز صبح صبح یہ خبر ملی کہ وہ شہید ہو گیا ہے، میں اس روز اس کی موت پر خوب روئی۔ وہ ایک جوان مجاہد اپنے ارمان پورے نہ کر سکا۔ نہ ماں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا، نہ بہنوں نے سر پر سہرا سجایا اور وہ فرشتوں کی مسکراہٹ والا سپاہی مجھے آج بھی کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ وطن اللہ کے نام پہ بنا تھا اور اس کی حفاظت اللہ ہی کر رہا ہے اور کوئی مائی کا لعل اس کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ اور جو اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا بھی، ہم اس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے ۔ جو اس کی طرف انگلی کرے گا، ہم اس انگلی کو توڑ دیں گے۔ پھر کہنا لگا، سسٹر! اس قوم کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔
اس کی شہادت کے بعد میں نے اس کے سامان پہ ایک نظر ڈالی تو ایک ڈائری نظر آئی، جس پہ وطن سے محبت پر مبنی اشعار اور چند دیگر چیزیں لکھی تھیں۔ اور یونہی اوراق پلٹتے پلٹتے ایک صفحے پہ میری نظر پڑی تو میں گنگ رہ گئی۔
اس صفحے پر اس نے اپنی ماں سے کیے گئے ایک وعدے کا تذکرہ کیا تھا۔ اور اس پر ماں سے کیا گیا وعدہ تحریر تھا کہ اے ماں! میں گولی سینے پر کھا کر آؤں گا۔
اور آج پھر ایک جوان اپنی ماں کو جھوٹے وعدے کے سہارے چھوڑ کر دھرتی ماں پہ اپنی جان وار گیا تھا۔