حمیرا عدنان
محفلین
پروفیسر ڈیوڈ روبن نے کہا کہ یہ صرف اچانک سے نہیں ہوجاتا ہے بلکہ ہماری سوچ کی یہ غلطی اس بارے میں انکشاف کرتی ہے کہ ہم غلط نام سے پکارے جانے والے لوگوں کو اپنے سماجی گروپ یا خود سے قریب سمجھتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین آپ کو پکارنے سے پہلے دوسرے تمام بہن بھائیوں کا نام لیتے ہیں اور سب سے آخری میں ان کی زبان پر آپ کا نام آتا ہے، جس سے بچے یہ فرض کر سکتے ہیں کہ یہ ان کے پسندیدہ لوگ ہیں لیکن، ایک نئے سائنسی ثبوتوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔
لہذا اگلی بار اگر ماں آپ کو بہن یا بھائی کے نام سے پکارے تو، آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ 'مس نیمنگ' یا کسی شخص کے لیے غلط نام کا انتخاب اچانک سے نہیں ہوتا ہے بلکہ، یہ دماغ کی ایک غلطی ہے، جو ہم سب کثرت سے کرتے ہیں۔
تحقیقی جریدہ 'میموری اور کوگنیشن' میں چھپنے والے سائنسی پرچے کے مطابق ہم لوگوں کو اس وقت ان کے نام کے بجائے کسی دوسرے شخص کے نام سے مخاطب کرتے ہیں جب وہ دونوں ایک ہی سماجی گروپ کا حصہ ہوتے ہیں، یا پھر ان کا نام صوتی لحاظ سے پکارنے میں ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی میں نفسیاتی اور عصبی سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ روبن نے کہا کہ یہ صرف اچانک سے نہیں ہوجاتا ہے بلکہ ہماری سوچ کی یہ غلطی اس بارے میں انکشاف کرتی ہے کہ ہم غلط نام سے پکارے جانے والے لوگوں کو اپنے سماجی گروپ یا خود سے قریب سمجھتے ہیں۔
پچھلے مطالعوں سے ظاہر ہوا تھا کہ اس طرح کی زبانی تخم اس وقت لوگوں کی بات چیت میں نظر آتے ہیں، جب ان کے دھیان سے یہ نکل جاتا ہے کہ وہ کس سے مخاطب ہیں لیکن، انھیں یہ یاد رہتا ہےکہ وہ کیسے بات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین میں زیادہ تر بچوں کے ناموں کو ملا کر پکارنے کا امکان ہوتا ہے اور یہ غلطی ایک شخص کو غلط نام سے پکارے جانے میں زیادہ عام ہے اس کے مقابلے میں کہ آپ ایک ای میل ایک غلط شخص کو بھیج دیں۔
پروفیسر روبن اور ان کے ساتھی تحقیق کاروں نے اس رجحان کی چھان بین کرنے کے لیے پانچ مطالعوں میں شامل 17 سو سے زائد افراد کے اعداوشمار کا جائزہ لیا ہے اور ان عوامل کو تلاش کیا ہے، جو یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطیاں کیوں ہوتی ہیں۔
تاہم محققین کا یہ مطالعہ انسانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ شرکاء کی طرف سے 42 واقعات میں یہ بتایا گیا تھا کہ انھوں نے اپ نے پالتو جانور کے نام سے گھر کے کسی فرد کو پکارا تھا۔
محققین نے مطالعے کے شرکاء سے سوالات پوچھے جن میں وہ لوگ شامل تھے جن کو ان کے نام کے بجائے کسی دوسرے شخص کے نام سے بلایا گیا تھا اور جنھوں نے دوسروں کو پکارنے کے لیے ان کے نام کے بجائے کسی غلط نام کا استعمال کیا تھا۔
اور تمام صورتوں میں شرکاء جس کو غلط نام سے پکار رہے تھے، اسے اچھی طرح سے جانتے تھے، اور جس کو غلط نام دیا جارہا تھا وہ بھی اچھی طریقے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ بھی پتا چلا کہ پکارنا یا غلط نام سے پکارے جانے کا رجحان اکثر ایک ہی سماجی گروپ کے لوگوں کے اندر اندر دیکھنے کو ملتا ہے مثال کے طور پر خاندان کے ارکان نے ایک دوسرے رشتے دار کو غلط نام سے مخاطب کیا تھا جس کا خاندان کے کسی فرد کے ساتھ تعلق تھا۔
ٹھیک اسی طرح ایک ہی سماجی گروپ سے تعلق رکھنے والے دوست ایک دوسرے کو ایک ایسے دوست کے نام سے پکارنے کی غلطی کرتے ہیں جو انھی کے گروپ کا حصہ ہوتا ہے۔
مزید برآں ناموں کے درمیان صوتی مماثلت کی وجہ سے بھی اکثر ہم لوگوں کے ناموں کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر دیتے ہیں، خاص طور پر ایسے نام جن کی ابتداء اور ختم ہونے والے الفاظ کی آواز ایک جیسی ہو مثلا مائیکل اور مچل تو ایسے ناموں کے تبدیل کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ لوگوں میں پائے جانے والے اس رجحان پر ایک شخص کی ظاہری شکل و صورت اور عمر کا کم اثر ہوتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی طالبہ اور تحقیق کی سربراہ پروفیسر سامنتھا ڈیفلر نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ خاندان کے لوگوں کو گھر کے پالتو جانور کے نام سے بھی پکارا گیا تھا تاہم یہ صرف اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب ان کے گھر میں پالتو جانور کتا تھا جبکہ بلیوں کے مالک اور دوسرے پالتو جانوروں کے مالکوں کی طرف سے اس غلطی کا امکان نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر قریبی لوگوں کے ناموں میں غلطی کر نے کی وجہ ہمارے وہ تعلقات ہیں جو تینوں لوگوں مثلاً غلط نام دینے والے، غلط نام سے پکارے جانے والے اور جس کا نام دیا گیا ہے کے درمیان ہوتے ہیں
ماخذ
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین آپ کو پکارنے سے پہلے دوسرے تمام بہن بھائیوں کا نام لیتے ہیں اور سب سے آخری میں ان کی زبان پر آپ کا نام آتا ہے، جس سے بچے یہ فرض کر سکتے ہیں کہ یہ ان کے پسندیدہ لوگ ہیں لیکن، ایک نئے سائنسی ثبوتوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔
لہذا اگلی بار اگر ماں آپ کو بہن یا بھائی کے نام سے پکارے تو، آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ 'مس نیمنگ' یا کسی شخص کے لیے غلط نام کا انتخاب اچانک سے نہیں ہوتا ہے بلکہ، یہ دماغ کی ایک غلطی ہے، جو ہم سب کثرت سے کرتے ہیں۔
تحقیقی جریدہ 'میموری اور کوگنیشن' میں چھپنے والے سائنسی پرچے کے مطابق ہم لوگوں کو اس وقت ان کے نام کے بجائے کسی دوسرے شخص کے نام سے مخاطب کرتے ہیں جب وہ دونوں ایک ہی سماجی گروپ کا حصہ ہوتے ہیں، یا پھر ان کا نام صوتی لحاظ سے پکارنے میں ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی میں نفسیاتی اور عصبی سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ روبن نے کہا کہ یہ صرف اچانک سے نہیں ہوجاتا ہے بلکہ ہماری سوچ کی یہ غلطی اس بارے میں انکشاف کرتی ہے کہ ہم غلط نام سے پکارے جانے والے لوگوں کو اپنے سماجی گروپ یا خود سے قریب سمجھتے ہیں۔
پچھلے مطالعوں سے ظاہر ہوا تھا کہ اس طرح کی زبانی تخم اس وقت لوگوں کی بات چیت میں نظر آتے ہیں، جب ان کے دھیان سے یہ نکل جاتا ہے کہ وہ کس سے مخاطب ہیں لیکن، انھیں یہ یاد رہتا ہےکہ وہ کیسے بات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین میں زیادہ تر بچوں کے ناموں کو ملا کر پکارنے کا امکان ہوتا ہے اور یہ غلطی ایک شخص کو غلط نام سے پکارے جانے میں زیادہ عام ہے اس کے مقابلے میں کہ آپ ایک ای میل ایک غلط شخص کو بھیج دیں۔
پروفیسر روبن اور ان کے ساتھی تحقیق کاروں نے اس رجحان کی چھان بین کرنے کے لیے پانچ مطالعوں میں شامل 17 سو سے زائد افراد کے اعداوشمار کا جائزہ لیا ہے اور ان عوامل کو تلاش کیا ہے، جو یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطیاں کیوں ہوتی ہیں۔
تاہم محققین کا یہ مطالعہ انسانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ شرکاء کی طرف سے 42 واقعات میں یہ بتایا گیا تھا کہ انھوں نے اپ نے پالتو جانور کے نام سے گھر کے کسی فرد کو پکارا تھا۔
محققین نے مطالعے کے شرکاء سے سوالات پوچھے جن میں وہ لوگ شامل تھے جن کو ان کے نام کے بجائے کسی دوسرے شخص کے نام سے بلایا گیا تھا اور جنھوں نے دوسروں کو پکارنے کے لیے ان کے نام کے بجائے کسی غلط نام کا استعمال کیا تھا۔
اور تمام صورتوں میں شرکاء جس کو غلط نام سے پکار رہے تھے، اسے اچھی طرح سے جانتے تھے، اور جس کو غلط نام دیا جارہا تھا وہ بھی اچھی طریقے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ بھی پتا چلا کہ پکارنا یا غلط نام سے پکارے جانے کا رجحان اکثر ایک ہی سماجی گروپ کے لوگوں کے اندر اندر دیکھنے کو ملتا ہے مثال کے طور پر خاندان کے ارکان نے ایک دوسرے رشتے دار کو غلط نام سے مخاطب کیا تھا جس کا خاندان کے کسی فرد کے ساتھ تعلق تھا۔
ٹھیک اسی طرح ایک ہی سماجی گروپ سے تعلق رکھنے والے دوست ایک دوسرے کو ایک ایسے دوست کے نام سے پکارنے کی غلطی کرتے ہیں جو انھی کے گروپ کا حصہ ہوتا ہے۔
مزید برآں ناموں کے درمیان صوتی مماثلت کی وجہ سے بھی اکثر ہم لوگوں کے ناموں کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر دیتے ہیں، خاص طور پر ایسے نام جن کی ابتداء اور ختم ہونے والے الفاظ کی آواز ایک جیسی ہو مثلا مائیکل اور مچل تو ایسے ناموں کے تبدیل کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ لوگوں میں پائے جانے والے اس رجحان پر ایک شخص کی ظاہری شکل و صورت اور عمر کا کم اثر ہوتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی طالبہ اور تحقیق کی سربراہ پروفیسر سامنتھا ڈیفلر نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ خاندان کے لوگوں کو گھر کے پالتو جانور کے نام سے بھی پکارا گیا تھا تاہم یہ صرف اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب ان کے گھر میں پالتو جانور کتا تھا جبکہ بلیوں کے مالک اور دوسرے پالتو جانوروں کے مالکوں کی طرف سے اس غلطی کا امکان نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر قریبی لوگوں کے ناموں میں غلطی کر نے کی وجہ ہمارے وہ تعلقات ہیں جو تینوں لوگوں مثلاً غلط نام دینے والے، غلط نام سے پکارے جانے والے اور جس کا نام دیا گیا ہے کے درمیان ہوتے ہیں
ماخذ