ماں کی ایک آنکھ تھی۔۔۔۔۔۔ ایک انگریز کی ڈائری سے

السلام علیکم! فیس بک سے ایک دوست کی پوسٹ شئیر کر رہا ہوں۔
میری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ [cook] تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایا کہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔
اگلے روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماںکے ردِ عمل کا احساس کیے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔
میں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کےرہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے ۔
میں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو ڈرانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سےے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔​
ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سےجھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتایا کہ میری ماں مر چکی ھے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرےلیے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا
“میرے پیارے بیٹے۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھےافسوس ھے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ھ۔۔۔ے ۔
کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا ۔
اتھاہ محبتوں کے ساتھ
تمہاری ماں
 
آخری تدوین:
واللہ ماں سے بڑھ کر کوئی ہمدرد نہیں ہو سکتا اولاد کے لیے ۔۔۔۔اک لاجواب تحریر ماں کی عظمت کے بیاں میں اسکی خدمت کے بیاں میں۔۔۔

کچھ گزارشات حاضر ہیں۔۔۔

تمہاری ۔۔۔
تھوڑا سا فاصلہ دیں۔۔۔۔ماں کے ۔۔
گزارہ۔۔۔
ن کی جگہ ں استعمال کریں۔۔۔۔(میں)۔۔

جاتا ہے ۔۔۔۔
 
واللہ ماں سے بڑھ کر کوئی ہمدرد نہیں ہو سکتا اولاد کے لیے ۔۔۔۔اک لاجواب تحریر ماں کی عظمت کے بیاں میں اسکی خدمت کے بیاں میں۔۔۔

کچھ گزارشات حاضر ہیں۔۔۔


تمہاری ۔۔۔

تھوڑا سا فاصلہ دیں۔۔۔۔ماں کے ۔۔

گزارہ۔۔۔

ن کی جگہ ں استعمال کریں۔۔۔۔(میں)۔۔


جاتا ہے ۔۔۔۔
شکریہ، جزاک اللہ، اب قابلِ تدوین نہیں رہی یہ پوسٹ۔ معذرت خواہ ہوں۔
 
Top