محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
مدرز ڈے کی مناسبت سے نعیم فراشری کی نظم کا جو منظوم ترجمہ ہم۔ ے کیا تھا ایک بار پھر پیشِ خدمت ہے۔
نظم اس قدر خوبصورت اور دل کو چھوجانے والی تھی،بھائی حسان خان آپ کا ترجمہ اس طور دلکش اور سادہ تھا کہ دل کے تار جھنجھنا اُٹھے۔ یہ ترجمہ آپ کی نذر ہے۔
استادِ محترم محمد وارث صاحب ، سید عاطف علی بھائی محمد ریحان قریشی بھائی سے خصوصی توجہ اور نظرِ ثانی کی درخواست کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔واضح رہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی بھی کی ہے۔ اپنے میلانِ طبعی کے لحاظ سے ماں کے نام ترجمہ کیا ہے۔
ماں کی لحد پر
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن
قبر پر تیری میں لوٹ آیا تو ہوں
با دلِ بیمار اور خوار و زبوں
میں یہاں پاتا نہیں کچھ یادگار
اے مری ماں! جُز تری خاکِ مزار
گرچہ دوری کے یہ گُزرے آٹھ سال
اس زیارت کو میں گنتا ہوں وصال
دور اور مہجور تجھ سے جوں ہوا
دور اِس خاکِ لحد سے بھی رہا
مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!
دِل شکستہ ہجر میں تیرے ہوا
اور تسلی کے لیے یاں آگیا
آہ ! گر اک لفظ ہی تمُ سے سنوں
ایک پل کے واسطے ہی دیکھ لوں
اِس جہاں میں رسم و راہِ دل کہاں
مردگاں اور زندگاں کے درمیاں
میرے اندر جل رہا ہے اشتیاق
اک غم و اندوہ کی صورت فراق
کاش! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں
تُم سے ملنے کے لیے میں آسکوں
اور تُم سے مل سکوں میں اک ذرا
درمیانِ نور، نزدیکِ خدا
۔۔۔۔۔