عبدالرحمن سید
محفلین
ماں کی ممتا کی تڑپ کو میں نے کئی دفعہ اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھا، انکی اولاد کو جب بھی کوئی دکھ یا تکلیف میں دیکھتی تو وہ چیخ اٹھتی تھیں، بچپن میں جب سے میں نے ھوش سنبھالا، میں نے اپنے آپ کو ھمیشہ اپنی ماں سے ضد کرتے ھوئے پایا، میں کیونکہ پہلا اور بڑا بیٹا ھوں، اس لئے بچپن سے ھی کچھ زیادہ ھی والدین کا لاڈلا تھا، جس کا میں نے خاص کر اپنی اماں کو بہت تنگ کیا، مگر میں نے انہیں کبھی بھی مجھ سے ناراض ھوتے ھوئے نہیں دیکھا، ھاں سمجھاتی ضرور تھیں، کہ بیٹا اچھے بچے ایسا نہیں کرتے، دیکھا تمھارے ابا جان آتے ھونگے، کوئی شیطانی مت کرنا، یا کبھی والد صاحب آرام کررھے ھوتے تھے، مجھے شرارت کرتے ھوئے دیکھ کر خاموشی سے دوسرے کمرے میں لے جاکر بہت پیار سے سمجھاتی تھیں، مگر انہوں نے مجھ پر آج تک کبھی بھی ھاتھ تک نہیں اٹھایا، اور نہ ھی کبھی مجھ سے ناراض ھوئیں،!!!!!!!! مگر اباجان کا غصہ تو بہت ھی سخت تھا، مجھے ان سے بہت ڈر لگتا تھا، کئی دفعہ ان سے خوب مار بھی کھائی، لیکن وہ اندر سے بہت ھی زیادہ موم تھے، مجھ سے بہت پیار بھی کرتے تھے،!!!!!!
بچپن کے زمانے میں اکثر اوقات میں گھر میں اپنے ابا جان کے سامنے تو بالکل معصوم اور بھولا بھالا سا بنا رھتا تھا، اور ان کی غیر حاضری میں تو گھر میں طوفان برپا کر رکھتا تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو خوب تنگ کرتا تھا، والدہ بس زیادہ تر کچن میں یا تو کھانا پکا رھی ھوتی تھیں یا پھر گھر کی صفائی ستھرائی برتن وغیرہ دھوتیں یا پھر کپڑوں کا ڈھیر لے کر دھونے بیٹھی ھوتیں، وہ وہیں سے سب کو شور نہ کرنے کی ھدایتیں بھی دیتی رھتیں، مگر ان کی کون سنتا تھا، ھم سب بہن بھائی ایک ھنگامہ کھڑا کئے رھتے تھے، والدہ کبھی کبھی ڈرانے کیلئے فوراً ھی اعلان کرادیتی ارے چپ ھوجاؤ تمھارے ابا جی آرھے ھیں، اور ھم سب بہن بھائی بالکل خاموش ھو جاتے، اور بس ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ جاتے اور میں تو سب سے الگ ایک کونے میں اپنی اسکول کی کتابیں لے کر بیٹھ جاتا، جیسے میں تو بہت ھی زیادہ تابعدار اور پڑھاکو بچہ ھوں،!!!!!!!!
والد صاحب کا رعب بہت تھا، ایک تو ان کے ملٹری کے بھاری بھر کم جوتے دور سے ھی ان کے آنے کی خبر دے دیتے تھے، اور ان کی خاکی وردی اور ٹوپی کا ایک الگ ھی رعب تھا، وہ ایک پاکستانی فوجی تھے، ان کا چلنے کا انداز بھی بالکل فوج کے مارچ پاسٹ کی طرح تھا، والدہ بھی ان کے سامنے زیادہ تر خاموش ھی رھتی تھیں، وہ ھمیں گھمانے پھرانے بھی لے جاتے تھے، لیکن والدہ کو کبھی لے جاتے ھوئے نہیں دیکھا، ھاں کبھی کبھی کسی دوسری فیملی میں اگر کوئی دعوت یا تقریب ھوتی تو والدہ بھی ساتھ ھوتی تھیں،!!!!!!
میں نے تو والدہ کو ھمیشہ گھر میں مصروف ھی دیکھا، اس وقت تو ھمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، لالٹین کی روشنی میں ھی رات کو ھم پڑھا کرتے تھے، والدہ اتنی پڑھی لکھی نہیں ھیں، لیکن اس وقت وہ ھم سب بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ھماری کتابوں کو الٹ پلٹ ضرور کرتی رھتیں تھیں، اور پرائمری اسکول کی حد تک تو کچھ نہ کچھ میں سلیٹ اور تختی پر لکھائی کی مشق کراتی رھتیں، ان کا سارے گھر کا کام کرنا، اور اس کے باوجود ھمارے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ وقت دیتی رھتی تھیں، کبھی کبھی ھم بھی اپنی والدہ کو زبردستی اپنے ساتھ کھیلنے کیلئے مجبور کردیتے تھے،!!!!!!!!
اس وقت کے بارے میں جب سوچتا ھوں تو حیران ھوتا ھوں کہ وہ کس طرح دن رات ھر وقت ھم سب کیلئے اتنی زیادہ محنت مشقت کرتی رھتی تھیں، آج کل تو شاید ھی کوئی ایسا کرتا ھو گا، مگر ھماری اماں تو اب تک سارا کام اپنے ھاتھوں سے ھی کرتی ھیں، ھمارے بچے حیران ھوتے ھیں کہ وہ اب بھی کپڑے اپنے ھاتھوں سے دھوتی ھیں، خود کھانا پکاتیں ھیں، بازار جانا اور سارا سودا سلف لانا انکی روزمرہ زندگی کا معمول ھے، ھمیشہ سادہ رھتی ھیں، میں نے بچپن سے لیکر آج تک انہیں کبھی بھی میک اپ میں نہیں دیکھا، بالکل سادہ سے کپڑے پہنتی ھیں، زرق برق لباس انہیں پسند نہیں ھیں، لیکن اپنی بیٹیوں، بہوؤں، نواسیوں، اور پوتیوں، کو اچھے لباس میں دیکھ کر بہت خوش ھوتی ھیں، اور شروع سے انہیں میں نے برقعے میں ھی دیکھا، آج بھی وہ مصالہ سل بٹے پر اپنے ھاتھ سے ھی پیستی ھیں، جبکہ گھر میں گرائنڈر بھی موجود ھیں لیکن وہ کہتی ھیں کہ ھاتھ سے پسے ھوئے مصالوں کی وجہ سے ھی کھانوں میں ایک عمدہ ذائقہ آتا ھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بنایا ھوا پکوان بہت ھی لذیذ اور خوش ذائقہ ھوتا ھے، خاص کر ان کے ھاتھ کے بنے ھوئے کباب اور بھنا ھوا قیمہ تو مجھے بہت پسند ھے، بچپن میں تو وہ اپنے ھاتھوں سے بنے ھوئے پراٹھے اپنے ھاتھ سے کھلاتی تھیں، لکڑی کے چولہے پر دھواں دیتی ھوئی لکڑیاں اور ان کا پھوکنی سے بار بار پھوک مار کر چولہے کی آگ کو تیز کرنا، اسی دھویں میں کھانا پکانا روٹیاں پکانا، اس کے علاوہ پورے گھر میں ھاتھوں سے بیٹھ کر جھاڑو لگانا، پوچھا لگانا، اس وقت کچی دیوریں ھوا کرتی تھیں، اس پر مٹی سے لپائی کرنا، اپنے ھاتھوں سے گھر کے ھم سب کے سارے میلے کپڑے، چادریں تولئے اپنے ھاتھوں سے ایک بڑے سے تھال میں دھوتی تھیں، اور اب بھی ایسا ھی کرتی ھیں، وہ اب کہتی ھیں کہ مشینوں سے کپڑوں کا ستیاناس ھو جاتا ھے، !!!!!!!!
یہ تو حقیقت کہ اس وقت کی عورتیں جو گھر کے سارے کام اپنے ھاتھوں سے کرتی تھیں، اور اب بھی ان کا وہی حال ھے، وہ کسی بھی مشینوں کو ھاتھ تک نہیں لگاتی ھیں، روز کا بازار جاکر سودا سلف وغیرا لانا، دعوتوں کا اھتمام کرنا، مہمانوں کی خوب خاطر مدارات کرنا، ان کا روزمرہ کا معمول اب تک ویسے کا ویسا ھی ھے، اور یہی وجہ ھے کہ انکی کافی عمر ھونے کے باوجود بھی چاق و چوبند، اور صحتمند نظر آتی ھیں، جو کہ اب نئی نسل کی لڑکیوں میں نہیں ھے، اگر آج کل کی لڑکیاں ھیلتھ کلب میں جانے کے بجائے اگر گھر کے کام کو پرانے طریقوں سے انجام دیں تو وہ ھیلتھ کلب کے بغیر بھی اپنی صحت کو بہت ھی بہتر اور چاق وچوبند رکھ سکیں گی،!!!!!!
آج میں بہت اداس ھوں کیونکہ میری ماں جو اب تک ھم سب کیلئے خوب محنت مشقت کرتی رھیں ھیں آج ایک اسپتال میں زیر علاج ھیں، وہاں پر بھی لیٹے لیٹے ھر آنے جانے والوں کو اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں اور بیٹے بیٹیوں دامادوں بہووں کو دعائیں اور ساتھ حوصلہ بھی دے رھی ھیں، میں ان کے پاس نہیں ھوں لیکن فون پر مجھ سے خوب پیار سے بات کرتیں ھیں مجھے ھمت دیتی ھیں، مگر مجھے معلوم ھے کہ وہ کس درد اور کرب کے عالم میں مجھ سے فون پر باتیں کرتی ھیں، میری آنکھوں میں ایک آنسوؤں کا سیلاب بہتا رھتا ھے، مگر میں اسے اپنے بچوں سے چھپاتا پھرتا ھوں، میرا دل چاھتا ھے کہ میں خوب چیخ چیخ کر روؤں، میرے بچے بھی میری حالت دیکھ کر کچھ خاموش اور سنجیدہ سے ھوگئے ھیں، میری بیگم بھی مجھے سمجھتی ھیں، اور وہ بھی سب میرے بہن بھائیوں کو فون پر دلاسہ اور ھمت کرے کیلئے کہتی رھتی ھیں، مجھ سے تو فون پر بہت ھی مشکل سے بات ھوتی ھے، اور اپنے آنسوؤں کو بہت ھی مشکل سے روک پاتا ھوں،!!!!
سب بھائی بہن بھی اپنی اماں کی خدمت میں لگے ھوئے ھیں، اور ساتھ ھی تمام رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کی ھمدردیاں بھی ھماری اماں کے ساتھ ھیں، جو ناراض تھے وہ بھی اماں کے پاس خیریت معلوم کرنے آپہنچے ھیں،!!!!!!!!!
میری بس دعاء یہی ھے کہ اللٌہ تعالیٰ انہیں اپنے حبیب (ص) کے صدقے جلد سے جلد صحت و تندرستی عطا فرمائے،!!! آمین،!!!!! اور اللٌہ تعالیٰ ھم سب کے سروں پر اپنے والدین کا سایہ سلامت رکھے، آمین،!!!!!
بچپن کے زمانے میں اکثر اوقات میں گھر میں اپنے ابا جان کے سامنے تو بالکل معصوم اور بھولا بھالا سا بنا رھتا تھا، اور ان کی غیر حاضری میں تو گھر میں طوفان برپا کر رکھتا تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو خوب تنگ کرتا تھا، والدہ بس زیادہ تر کچن میں یا تو کھانا پکا رھی ھوتی تھیں یا پھر گھر کی صفائی ستھرائی برتن وغیرہ دھوتیں یا پھر کپڑوں کا ڈھیر لے کر دھونے بیٹھی ھوتیں، وہ وہیں سے سب کو شور نہ کرنے کی ھدایتیں بھی دیتی رھتیں، مگر ان کی کون سنتا تھا، ھم سب بہن بھائی ایک ھنگامہ کھڑا کئے رھتے تھے، والدہ کبھی کبھی ڈرانے کیلئے فوراً ھی اعلان کرادیتی ارے چپ ھوجاؤ تمھارے ابا جی آرھے ھیں، اور ھم سب بہن بھائی بالکل خاموش ھو جاتے، اور بس ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ جاتے اور میں تو سب سے الگ ایک کونے میں اپنی اسکول کی کتابیں لے کر بیٹھ جاتا، جیسے میں تو بہت ھی زیادہ تابعدار اور پڑھاکو بچہ ھوں،!!!!!!!!
والد صاحب کا رعب بہت تھا، ایک تو ان کے ملٹری کے بھاری بھر کم جوتے دور سے ھی ان کے آنے کی خبر دے دیتے تھے، اور ان کی خاکی وردی اور ٹوپی کا ایک الگ ھی رعب تھا، وہ ایک پاکستانی فوجی تھے، ان کا چلنے کا انداز بھی بالکل فوج کے مارچ پاسٹ کی طرح تھا، والدہ بھی ان کے سامنے زیادہ تر خاموش ھی رھتی تھیں، وہ ھمیں گھمانے پھرانے بھی لے جاتے تھے، لیکن والدہ کو کبھی لے جاتے ھوئے نہیں دیکھا، ھاں کبھی کبھی کسی دوسری فیملی میں اگر کوئی دعوت یا تقریب ھوتی تو والدہ بھی ساتھ ھوتی تھیں،!!!!!!
میں نے تو والدہ کو ھمیشہ گھر میں مصروف ھی دیکھا، اس وقت تو ھمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، لالٹین کی روشنی میں ھی رات کو ھم پڑھا کرتے تھے، والدہ اتنی پڑھی لکھی نہیں ھیں، لیکن اس وقت وہ ھم سب بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ھماری کتابوں کو الٹ پلٹ ضرور کرتی رھتیں تھیں، اور پرائمری اسکول کی حد تک تو کچھ نہ کچھ میں سلیٹ اور تختی پر لکھائی کی مشق کراتی رھتیں، ان کا سارے گھر کا کام کرنا، اور اس کے باوجود ھمارے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ وقت دیتی رھتی تھیں، کبھی کبھی ھم بھی اپنی والدہ کو زبردستی اپنے ساتھ کھیلنے کیلئے مجبور کردیتے تھے،!!!!!!!!
اس وقت کے بارے میں جب سوچتا ھوں تو حیران ھوتا ھوں کہ وہ کس طرح دن رات ھر وقت ھم سب کیلئے اتنی زیادہ محنت مشقت کرتی رھتی تھیں، آج کل تو شاید ھی کوئی ایسا کرتا ھو گا، مگر ھماری اماں تو اب تک سارا کام اپنے ھاتھوں سے ھی کرتی ھیں، ھمارے بچے حیران ھوتے ھیں کہ وہ اب بھی کپڑے اپنے ھاتھوں سے دھوتی ھیں، خود کھانا پکاتیں ھیں، بازار جانا اور سارا سودا سلف لانا انکی روزمرہ زندگی کا معمول ھے، ھمیشہ سادہ رھتی ھیں، میں نے بچپن سے لیکر آج تک انہیں کبھی بھی میک اپ میں نہیں دیکھا، بالکل سادہ سے کپڑے پہنتی ھیں، زرق برق لباس انہیں پسند نہیں ھیں، لیکن اپنی بیٹیوں، بہوؤں، نواسیوں، اور پوتیوں، کو اچھے لباس میں دیکھ کر بہت خوش ھوتی ھیں، اور شروع سے انہیں میں نے برقعے میں ھی دیکھا، آج بھی وہ مصالہ سل بٹے پر اپنے ھاتھ سے ھی پیستی ھیں، جبکہ گھر میں گرائنڈر بھی موجود ھیں لیکن وہ کہتی ھیں کہ ھاتھ سے پسے ھوئے مصالوں کی وجہ سے ھی کھانوں میں ایک عمدہ ذائقہ آتا ھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بنایا ھوا پکوان بہت ھی لذیذ اور خوش ذائقہ ھوتا ھے، خاص کر ان کے ھاتھ کے بنے ھوئے کباب اور بھنا ھوا قیمہ تو مجھے بہت پسند ھے، بچپن میں تو وہ اپنے ھاتھوں سے بنے ھوئے پراٹھے اپنے ھاتھ سے کھلاتی تھیں، لکڑی کے چولہے پر دھواں دیتی ھوئی لکڑیاں اور ان کا پھوکنی سے بار بار پھوک مار کر چولہے کی آگ کو تیز کرنا، اسی دھویں میں کھانا پکانا روٹیاں پکانا، اس کے علاوہ پورے گھر میں ھاتھوں سے بیٹھ کر جھاڑو لگانا، پوچھا لگانا، اس وقت کچی دیوریں ھوا کرتی تھیں، اس پر مٹی سے لپائی کرنا، اپنے ھاتھوں سے گھر کے ھم سب کے سارے میلے کپڑے، چادریں تولئے اپنے ھاتھوں سے ایک بڑے سے تھال میں دھوتی تھیں، اور اب بھی ایسا ھی کرتی ھیں، وہ اب کہتی ھیں کہ مشینوں سے کپڑوں کا ستیاناس ھو جاتا ھے، !!!!!!!!
یہ تو حقیقت کہ اس وقت کی عورتیں جو گھر کے سارے کام اپنے ھاتھوں سے کرتی تھیں، اور اب بھی ان کا وہی حال ھے، وہ کسی بھی مشینوں کو ھاتھ تک نہیں لگاتی ھیں، روز کا بازار جاکر سودا سلف وغیرا لانا، دعوتوں کا اھتمام کرنا، مہمانوں کی خوب خاطر مدارات کرنا، ان کا روزمرہ کا معمول اب تک ویسے کا ویسا ھی ھے، اور یہی وجہ ھے کہ انکی کافی عمر ھونے کے باوجود بھی چاق و چوبند، اور صحتمند نظر آتی ھیں، جو کہ اب نئی نسل کی لڑکیوں میں نہیں ھے، اگر آج کل کی لڑکیاں ھیلتھ کلب میں جانے کے بجائے اگر گھر کے کام کو پرانے طریقوں سے انجام دیں تو وہ ھیلتھ کلب کے بغیر بھی اپنی صحت کو بہت ھی بہتر اور چاق وچوبند رکھ سکیں گی،!!!!!!
آج میں بہت اداس ھوں کیونکہ میری ماں جو اب تک ھم سب کیلئے خوب محنت مشقت کرتی رھیں ھیں آج ایک اسپتال میں زیر علاج ھیں، وہاں پر بھی لیٹے لیٹے ھر آنے جانے والوں کو اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں اور بیٹے بیٹیوں دامادوں بہووں کو دعائیں اور ساتھ حوصلہ بھی دے رھی ھیں، میں ان کے پاس نہیں ھوں لیکن فون پر مجھ سے خوب پیار سے بات کرتیں ھیں مجھے ھمت دیتی ھیں، مگر مجھے معلوم ھے کہ وہ کس درد اور کرب کے عالم میں مجھ سے فون پر باتیں کرتی ھیں، میری آنکھوں میں ایک آنسوؤں کا سیلاب بہتا رھتا ھے، مگر میں اسے اپنے بچوں سے چھپاتا پھرتا ھوں، میرا دل چاھتا ھے کہ میں خوب چیخ چیخ کر روؤں، میرے بچے بھی میری حالت دیکھ کر کچھ خاموش اور سنجیدہ سے ھوگئے ھیں، میری بیگم بھی مجھے سمجھتی ھیں، اور وہ بھی سب میرے بہن بھائیوں کو فون پر دلاسہ اور ھمت کرے کیلئے کہتی رھتی ھیں، مجھ سے تو فون پر بہت ھی مشکل سے بات ھوتی ھے، اور اپنے آنسوؤں کو بہت ھی مشکل سے روک پاتا ھوں،!!!!
سب بھائی بہن بھی اپنی اماں کی خدمت میں لگے ھوئے ھیں، اور ساتھ ھی تمام رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کی ھمدردیاں بھی ھماری اماں کے ساتھ ھیں، جو ناراض تھے وہ بھی اماں کے پاس خیریت معلوم کرنے آپہنچے ھیں،!!!!!!!!!
میری بس دعاء یہی ھے کہ اللٌہ تعالیٰ انہیں اپنے حبیب (ص) کے صدقے جلد سے جلد صحت و تندرستی عطا فرمائے،!!! آمین،!!!!! اور اللٌہ تعالیٰ ھم سب کے سروں پر اپنے والدین کا سایہ سلامت رکھے، آمین،!!!!!