عائشہ عزیز
لائبریرین
چار کائناتی قوتیں
چار کائناتی ستون
دوستو! ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات، چار ایسے ستونوں پر قائم ہے جو ہمیں نظر نہیں آتے۔ جی ہاں! آج ہم آپ کو ان چار بنیادی قوتوں کے بارے میں بتائیں گے جو کائنات کو مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ستون، کسی عمارت کو سنبھالے ہوتے ہیں۔چار کائناتی ستون
تو سب سے پہلی قوت، جس کے بارے میں آپ سب کو بھی معلوم ہوگا، وہ ہے کشش ثقل۔ اسی کی وجہ سے ہم زمین پر چل پھر سکتے ہیں۔ اور تو اور، ہمارہ کرہ ہوائی، جس میں ہم سانس لیتے ہیں، اسی کشش ثقل کی وجہ سے قائم ہے۔ اگرچہ قوت ثقل چھوٹے بڑے، ہر طرح کے مادے میں ہوتی ہے، لیکن اسے واضح طور پر بڑے بڑے اجسام کے درمیان ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اسی قوت کی وجہ سے ہماری زمین، سورج کے گرد گھومتی ہے اور اسی کے باعث چاند ہماری زمین کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے نظام شمسی میں موجود تمام سیارے بھی اسی قوت کی وجہ سے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اگر ہم تھوڑے بڑے پیمانے پر دیکھیں تو ہماری کہکشاں بھی ( جو اربوں ستاروں اور سیاروں کا مجموعہ ہے) اسی قوت کے نتیجے میں اپنی موجودہ شکل (یعنی مرغولہ نما کہکشاں کے طور پر)متوازن ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ چھوٹے اجسام کے درمیان بھی یہ قوت پائی جاتی ہے؟ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ایسا ہے تو ہم اپنے آس پاس موجود اجسام کی کشش محسوس کیوں نہیں کر پاتے؟ تو جناب! اس کا جواب یہ ہے کہ کشش ثقل کی قوت کسی بھی جسم کی کمیت کے راست تناسب میں ہوتی ہے۔ یعنی کسی جسم کی کمیت جتنی زیادہ ہوگی، کشش ثقل کی قوت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اسی لیے نسبتا چھوٹے اجسام کی کشش ثقل کی قوت بہت ہی کم ہوتی ہے۔
یعنی قوت ثقل، باقی تمام کائناتی قوتوں کے مقابلے میں کمزور ترین ہے۔ لیکن دوستو! یہ قوت لامحدود فاصلے تک عمل کرتی ہے، اور بہت بہت دور اجسام پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ قوت ثقل ہمیشہ صرف اور صرف "کشش کرنے" یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف کھینچنے ہی کا کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے کمزور ہونے کے باوجود، اسے کائنات کی سب سے اہم قوت بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اب ہم جس دوسری قوت کی بات کریں گے، اس کا نام ہے "برقی مقناطیسی قوت۔" یہ بھی ایک لامحدود قوت ہے۔ یہ قوت باردار(چارجڈ) اجسام کے درمیان عمل کرتی ہے اور ہمارے ارد گرد پائے جانے والے تمام مادی اجسام اسی قوت کی وجہ سے اپنی شکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے کہ الیکٹرون پر منفی اور پروٹون پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ ان ہی سے مل کر ایٹم بنتا ہے۔ تو یہ برقی مقناطیسی قوت ہی ہے جو الیکٹرونوں اور پروٹونوں کو ایٹم کی شکل میں برقرار رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں، آپ شاید یہ بھی جانتے ہوں کہ ایک سے زیادہ ایٹموں کے آپس میں ملنے سے "سالمہ" (مالیکیول) بنتا ہے۔ سالمے کے بننے اور قائم رہنے میں بھی دو یا زیادہ ایٹموں کے درمیان برقی مقناطیسی قوت ہی عمل کرتی ہے۔ اسی طرح جب ہم مادے کی بات کرتے ہیں، جس سے ہمارا ہر وقت واسطہ پڑتا رہتا ہے، تو یہ مادہ بھی ایٹموں اور سالمات کے درمیان برقی مقناطیسی قوت کی وجہ سے اس صورت میں آتا ہے کہ جس میں ہم اسے دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مادے کو اس کی صورت دینے میں بھی برقی مقناطیسی قوت ہی کارفرما ہے۔
اب آیئے تیسری قوت کی طرف۔ ویسے تو یہ بھی "کائناتی قوت" کے طور پر شمار کی جاتی ہے لیکن یہ بہت ہی مختصر فاصلے پر عمل کرتی ہے، جو ایٹمی مرکزے (اٹامک نیوکلیئس) سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔یہ وقت تابکار (ریڈیو ایکٹیو) عناصر میں مرکزوں کے ٹوٹنے اور ان کے ہلکے مرکزوں (یعنی ہلکے عناصر) میں تبدیل ہوتے دوران عمل میں آتی ہے۔ ۔ اور اس کا نام کمزور نیوکلیائی قوت ہے۔ یہ کشش ثقل سے زیادہ طاقتور لیکن برقی مقناطیسی قوت کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ پڑھ کر حیران ہو رہے ہیں کہ ایٹمی مرکزے جتنے کم فاصلے تک عمل کرنے والی ، اس کمزور نیوکلیائی قوت کو کائناتی قوتوں میں کیوں شامل کیا گیا ہے، تو جناب! بات دراصل یہ ہے کہ ایٹم تو ساری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں، اور یہ قوت ہر ایٹم کے اندر عمل کر رہی ہوتی ہے۔ اور تو اور، جب کوئی نیوٹرون ٹوٹ کر الیکٹرون اور پروٹون میں تبدیل ہوتا ہے، اس وقت بھی یہی قوت اپنا جلوہ دکھا رہی ہوتی ہے۔ جہاں تک تابکار عناصر کا تعلق ہے، تو ہر تابکار ایٹم ( جو دوسرے ایٹموں کے مقابلے میں غیر مستحکم ہوتا ہے)، اپنے سے چھوتے اور نسبتا مستحکم عنصر (ہلکے ایٹم) میں تبدیل ہونا چاہتا ہے، اس لیے یہ وقت کائنات کے استحکام کی ضامن بھی ہے۔
چوتھی اور آخری قوت کا نام "مضبوط نیوکلیائی قوت" ہے جو ایٹمی مرکزے میں موجود پروٹونوں اور نیوٹرونوں کے درمیان عمل کرتی ہے اور کائنات کی سب سے طاقتور قوت بھی ہے۔ چونکہ ایک جیسا چارج رکھنے والے اجسام ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں، تو ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ضرور آنا چاہیے کہ جب کسی ایٹم کے مرکزے میں مثبت چارج والے کئی پروٹون ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں تو پھر وہ (پروٹونوں کی درمیان دفع یعنی ایک دوسرے کو دور دھکیلنے والی قوت کے نتیجے میں) ٹوٹ کر بکھر کیوں نہیں جاتا؟ اس سوال کا جواب ہمیں "مضبوط نیوکلیائی قوت" کی صورت میں ملتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب وہ پروٹون آپس میں اتنے قریب آ جائیں کہ ان کا درمیانی فاصلہ ایک میٹر کے دس لاکھ ارب ویں حصے ( یعنی 15-^10 میٹر) سے بھی کم رہ جائے تو وہاں مضبوط نیوکلیائی قوت عمل میں آ جاتی ہے۔ یہ پروٹونوں کے درمیان دفع کی قوت پر (جو دراصل برقی مقناطیسی قوت ہی ہوتی ہے) غالب آ جاتی ہے اور ایٹمی مرکزے میں پروٹونوں کی جکڑ کر رکھتی ہے۔
اسی کی وجہ سے صرف ایٹمی مرکزے (نیوکلیئس) ہی کا نہیں، بلکہ ہر اس چیز کا وجود قائم ہے جو ایٹموں سے مل کر بنی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر ایٹم کا مرکزہ سلامت نہیں ہوتا تو پھر کہاں کا ایٹم اور کیسا ایٹم! کیسے عناصر اور کیسا مادہ! البتہ، اگر ہم اس قوت کی "حد" پر بات کریں تو وہ باقی تینوں قوتوں کے مقابلے سب سے کم ہے جہاں مرکزے کی حدود ختم ہوتی ہیں، وہیں اس قوت کی حدیں بھی "مُک" جاتی (ختم ہو جاتی ) ہیں۔
ارے ہاں !مضبوط نیوکلیائی قوت کے بارے میں ایک اور بات تو ہم آپ کو بتانا بھول ہی گئے۔ پروٹون اور نیوٹرون بھی "کوارک" کہلانے والے مزید مختصر ذرات سے مل کر بنتے ہیں۔ مضبوط نیوکلیائی قوت انہیں بھی سختی سے جکڑ کر رکھتی ہے تاکہ پروٹون اور نیوٹرون اپنا وجود قائم رکھ سکیں۔
آپ نے دیکھا دوستو! اللہ تعالیٰ نے ہر قوت کو ضرورت کے اعتبار سے محدود اور لا محدود کے علاوہ مضبوط اور کمزور بھی بنا دیا ہے، جہاں بڑے بڑے اجسام ہیں وہاں وہاں کشش ثقل رکھ دی تاکہ کائنات میں موجود ستارے اور سیارے ایسے ہی بے ترتیب گھومتے نہ پھریں، جبکہ جہاں چھوٹے اجسام ہیں وہاں اس قوت کو اتنا کمزور کر دیا کہ کسی کو محسوس نہ ہو۔ اسی طرح جن قوتوں کی ضرورت مرکزہ بنانے یا تبدیل کرنے کے لیے تھی، ان کی حدود بھی صرف ایٹمی مرکزے (نیوکلیئس) تک رکھ دیں۔ اور جس قوت کی ضرورت ایٹموں اور سالمات کے لیے تھے، اسے تھوڑا سا طاقتور بناتے ہوئے اس کی حدود میں بھی اضافہ کر دیا۔
بس اب جلدی سے ایک بات اور جانتے چلئے: سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کی یہ چار قوتیں اصل میں ایک ہی ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ایک ہی قوت کی چار الگ الگ شکلیں ہیں۔ لہٰذا، وہ تقریبا پچھلے سو سال سے اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی ایسی مساوات، کوئی ایسا نظریہ دریافت کر لیا جائے جو ان چاروں قوتوں کو ایک ساتھ بیان کر سکے۔ یقین کیجئے کہ یہ کام جتنا آسان محسوس ہوتا ہے، اصل میں اتنا ہی مشکل ہے۔ سائنسدان آج تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ البتہ، جس دن ایسا ہوگیا، تو وہ دن غالبا سائنس کی تاریخ میں سب سے یاد گار دن ہوگا، کیونکہ اس روز ہم کائنات کے پہلے مکمل ترین نظریے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
آخری تدوین: