محمد اجمل خان
محفلین
دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے
میں نے خود اپنے ہی زخموں کا لہو چاٹا ہے
(شاعر مظفر وارثی)
حساس دل لوگ کبھی خوش نہیں رہتے۔ لوگوں کو دکھ درد اور پریشانیوں میں دیکھ کر وہ خود بھی دکھی ہو جاتے ہیں۔ حساس دل لوگوں میں کچھ شاعر ہوتے ہیں، کچھ مصنف اور کچھ میرے جیسے لکھاری۔ ایک حساس دل شاعر جب کسی کو پریشانیوں میں دیکھتا ہے تو شاعری شروع کر دیتا ہے، اسی طرح حساس دل مصنف کچھ تصنیف کرنے کی سوچتا ہے اور میرے جیسا لکھاری قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا تریاق تلاش کرنے کوشش کرتا ہے۔میں نے خود اپنے ہی زخموں کا لہو چاٹا ہے
(شاعر مظفر وارثی)
دوستو ۔ ۔ ۔ ! یقین جانئے، میں اللہ کی رضا کی خاظر آپ سب کے لئے لکھتا ہوں اور آپ سب کی تکالیف اور پریشانیوں کی وجہ سے آپ سب کے اذہان میں جو منفی سوچ پیدا ہوتی ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا کچھ مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تاکہ آپ میں پیدا ہونے والی منفی سوج مثبت سوچ میں بدل جائے اور آپ مسکرا کر ہر دکھ درد کا مقابلہ کرنے کے لئے تازہ دم ہوجائیں۔
دوستو ۔ ۔ ۔ ! آج ہمارے ملک میں ہر طرف مایوسی اور ناامیدی کی فضا ہے، ایسے میں میں بھی مایوس ہوں اور یقیناً آپ بھی مایوس ہوں گے۔ لیکن ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ لہذا مسلمان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت یقوب علہ السلام کا قول نکل کیا گیا ہے:
وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ سورہ یوسف
"اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں"۔ (87) سورہ یوسف
لیکن انسان کا مایوس ہونا تو اس کی فطرت میں شامل ہے، لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ کس حد تک مایوس ہونا کفر ہے تو مایوسی کے کفر ہونے کی حد یہ ہے کہ بندہ کی سوچ اس حد تک منفی ہوجائے کہ وہ دکھ درد اور پریشانیوں سے تنگ آکر یہ سمجھنے لگے کہ اس کی دکھ درد کا مداوا کرنا اللہ کی قدرت و اختیار میں نہیں ہے اور اس کی قدرت و طاقت محدود ہے۔ لہذا اللہ تعالٰی کے بارے میں ایسا سوچنا یا ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی منفی سوچ اس درجے پر پہنچ جاتی ہے وہ اس کفر کے ساتھ ساتھ مزید کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، مثلاً خودکشی کر لینا یا اپنی بیوی بچوں کو قتل کر دینا یا اپنے املاک کو آگ لگا دینا وغیرہ۔
جبکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان تنگدستی یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے اللہ تعالٰی کی رحمت سے اتنا مایوس ہو جاتا ہے کہ زبان سے کفریہ کلمات نکالنے لگتا ہے، تو مایوسی کا یہ درجہ بھی کفر ہے۔
لہذا وہ مایوسی یا ناامیدی جو انسان کو اللہ تعالٰی کی رحمت سے بالکل دور کردے وہ انتہا کی گمراہی اور کفر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قول قرآن مجید میں نقل فرمایا ہے:
قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ﴿٥٦﴾ سورة الحجر
"(ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہے "(56) سورة الحجر
اس لیے اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت کے ذریعے اپنے بندوں کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے اور مایوسی سے بچنے کا درس دیتا ہے، فرمایا:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ سورة الزمر
"آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے"۔ (53) سورة الزمر
لہذا دنیا کے حالات و وقعات اور ماحول کی وجہ سے متاثر ہوکر انسان کے اذہان میں جو منفی سوچ پیدا ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے جو مایوسی و ناامیدی جنم لیتی ہے وہ اس وقت تک کفر نہیں جب تک انسان اللہ تعالٰی کی رحمت سے مکمل ناامید ہوکر کفر کا ارتکاب نہ کر بیٹھے یا کفریہ کلمات نہ بکنے لگے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
اللہ تعالٰی مجھے اور آپ سب کو ہمیشہ مثبت سوچنے، مایوسی سے بچنے اور اللہ تعالٰی کی وسیع رحمت کا سہارا لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان۔
۔