ناصر علی مرزا
معطل
مایہ ناز محقق , ادیب , مدیر , مترجم اور قاموس نگار : سیدقاسم محمود کی یاد میں
سیّدقاسم محمود علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا،31 مارچ کو اُن کی چوتھی برسی منائی گئی************مایۂ ناز محقق، ادیب،مدیر،مترجم اورقاموس نگار سیّدقاسم محمود کی31 مارچ کو چوتھی برسی نہایت احترام و اہتمام سے منائی گئی۔سیّد صاحب وطن ِ عزیز میں علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا۔اسلامی انسائیکلوپیڈیا،انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا ، سستی کتب کا سلسلہ اور بطورِ نگران مینار ِپاکستان پر تختیوں کی تنصیب کے کارنامے یادگار چھوڑے۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کام بڑے بڑے اداروں کے کرنے کے تھے، وہ اُنھوں نے بطورِفرد ِواحد انجام دیئے۔اُنھوں نے اپنے بارے میں اپنی حیات میں ایک واقعہ تحریر کیا ،جس نے اُن کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میَں نے موپساں کے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کے ناشر مجھے ساتھ لے کرسعادت حسن منٹو کے گھر دیباچہ لکھوانے گئے۔ منٹو صاحب نے مسودے پر ایک اُچٹتی نظر ڈالی، پھر اُسے اُٹھا کر میرے منہ پر دے مارا، کہنے لگے: ’’ تم کبھی بھی ترجمہ یا افسانہ نہیں لکھ سکتے‘‘۔ سیّد قاسم محمود مزید لکھتے ہیں کہ اُس رات میَں واپس گھر نہیں آیا بل کہ ساری رات راوی کنارے گزاری۔ صبح مجلس ِزبان ِدفتری جاکر استعفیٰ پیش کردیا۔ ادارے کے سیکریٹری حکیم احمد شجاع نے بہت روکا، لیکن میَں نے ایک نہ مانی اور کہا کہ نہیں!میَں منٹو کی طرح آزاد انسان بنوں گا، کبھی سرکاری نوکری نہیں کروں گا اور اب بڑا ادیب بن کر دکھائوں گا۔سیّد صاحب کی یہاں ملازم ہونے کی بابت بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ بقول سیّدقاسم محمود ایک مرتبہ مجلس ِزبان ِدفتری والوں نے ملازمت کے لیے اشتہار جاری کیا،جس کی اہلیت ایم اے تھی۔وہ اُن دنوں میٹرک پاس تھے،مگر تحریری امتحان میں اوّل آنے پر اُس وقت کے گورنر سردار عبدالرب نشترنے اُن کی قابلیت و لیاقت کو دیکھتے ہوئے ملازمت کے احکامات فرما دیئے،لیکن ساتھ ہی نوجوان قاسم کو ایک نصیحت کی اور فرمایا ’’تم جیسے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی تقدیر ہے،مگر یاد رکھو ہمارے اُردو ادب میں شاعری اور جذبات نگاری تو بہت ہے،لیکن ٹھوس علمی مواد کا فقدان ہے،کوئی ڈھنگ کی لغت نہیں،کوئی انسائیکلو پیڈیا نہیں۔ضرورت ہے کہ ایسے کاموں کی جانب توجہ دی جائے‘‘۔ سیّد قاسم محمود کا لکھنا ہے کہ سردار نشتر کی نصیحت اُنھیں کبھی نہیں بھولی اور اُن سے کیا گیا عہد ہی اُن کوقاموس نگاری، لغات اور انسائیکلو پیڈیا جات کی تدوین و تالیف کی طرف لے گیا۔ اُنھوں نے ایک نہیں بل کہ بے شمار انسائیکلوپیڈیازمرتب کیے، جن میںشاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈ یا ، انسائیکلوپیڈ یا ایجادات، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا،علم القران(پانچ زبانوں میں)، انسائیکلو پیڈیا سیرت، انسائیکلو پیڈیا احیائے اسلام اور انسائیکلوپیڈیاقرانیات کی تصنیف و تدوین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ سیّد قاسم محمود نے تحقیق،تخلیق اور تدوین کے ساتھ اشاعت کے میدان میں بھی انقلاب آفریں کارنامے انجام دئیے۔ دفتری اصطلاحات ہوں یا اکنامکس کی لغات، اسلام، پاکستان، سائنس، بچوں پر انسائیکلو پیڈیا جات ہوںیاٹالسٹائی، موپساں، شیکسپیئر، دوستوفسکی، ڈکنز اور دیگر عالمی ادیبوں کے شہ پاروں کے تراجم یا پھر قاسم کی مہندی، رستم خان اور وصیت نامہ جیسے پرُ اثر افسانوں کی تخلیق، سیّد قاسم محمودعلم وادب کے ہر میدان میں کام یاب اور ہر کٹھن مرحلے سے سرخرو ہوکر گزرے۔اُن کا سب سے اہم اور بڑا کارنامہ پاکستان کی تاریخ ،جغرافیہ ،معاشرت وغیرہ کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا’’پاکستانیکا‘‘ کی تدوین ہے۔ اُنھوں نے ’’پاکستانیکا‘‘ لکھ کر پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحقیقی کام چھوڑا ہے، جو اُن کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
سیّد قاسم محمود17 نومبر 1928ء کو ضلع روہتک کے ایک چھوٹے سے گائوں کھر کھوہ میں پیدا ہوئے ،جو دلّی سے اٹھائیس میل دُور تھا۔والد سیّد ہاشم علی نے اُن کا نام سیّد قاسم علی رکھا۔ قاسم کے ساتھ محمود کالا حقہ اُنھوں نے برسوں بعد خود لگایا۔ تقسیم کے بعد قاسم محمود اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ ہجرت کے دوران اُن پر کیا گزری ، یہ الگ تفصیل ہے ،جو اُن کی کتابوں میں مطالعہ کی جا سکتی ہے۔9ستمبر 1996ء کواُن پر فالج کا حملہ ہوا ، دایاں ہاتھ مفلوج ہوگیا، تاہم جلد ہی اُنھوں نے بائیں ہاتھ سے کام شروع کردیا۔ ایک دن اللہ سے دعا کی کہ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا کا مکمل کرنے کی ہمت دے۔ دعا قبول ہوئی اور دایاں ہاتھ معجزاتی طور پر ٹھیک ہوگیا۔اُس کے بعد اُنھوں نے بے شمار کاموں کی تکمیل کی،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اورہی منظور تھا۔اسی لیے سیّد قاسم محمود کو 82 سال کی عمر میں 31مارچ 2010ء کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔اُن کے کئی تحقیقی کام ابھی بھی زیر تکمیل ہیں۔سیّد قاسم محمود کے صاحب زادے سیّد عاصم محمود کے بقول،اُن کا مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سیرتِ نبویﷺ زیرطبع ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-04-02/8595
سیّدقاسم محمود علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا،31 مارچ کو اُن کی چوتھی برسی منائی گئی************مایۂ ناز محقق، ادیب،مدیر،مترجم اورقاموس نگار سیّدقاسم محمود کی31 مارچ کو چوتھی برسی نہایت احترام و اہتمام سے منائی گئی۔سیّد صاحب وطن ِ عزیز میں علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا۔اسلامی انسائیکلوپیڈیا،انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا ، سستی کتب کا سلسلہ اور بطورِ نگران مینار ِپاکستان پر تختیوں کی تنصیب کے کارنامے یادگار چھوڑے۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کام بڑے بڑے اداروں کے کرنے کے تھے، وہ اُنھوں نے بطورِفرد ِواحد انجام دیئے۔اُنھوں نے اپنے بارے میں اپنی حیات میں ایک واقعہ تحریر کیا ،جس نے اُن کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میَں نے موپساں کے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کے ناشر مجھے ساتھ لے کرسعادت حسن منٹو کے گھر دیباچہ لکھوانے گئے۔ منٹو صاحب نے مسودے پر ایک اُچٹتی نظر ڈالی، پھر اُسے اُٹھا کر میرے منہ پر دے مارا، کہنے لگے: ’’ تم کبھی بھی ترجمہ یا افسانہ نہیں لکھ سکتے‘‘۔ سیّد قاسم محمود مزید لکھتے ہیں کہ اُس رات میَں واپس گھر نہیں آیا بل کہ ساری رات راوی کنارے گزاری۔ صبح مجلس ِزبان ِدفتری جاکر استعفیٰ پیش کردیا۔ ادارے کے سیکریٹری حکیم احمد شجاع نے بہت روکا، لیکن میَں نے ایک نہ مانی اور کہا کہ نہیں!میَں منٹو کی طرح آزاد انسان بنوں گا، کبھی سرکاری نوکری نہیں کروں گا اور اب بڑا ادیب بن کر دکھائوں گا۔سیّد صاحب کی یہاں ملازم ہونے کی بابت بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ بقول سیّدقاسم محمود ایک مرتبہ مجلس ِزبان ِدفتری والوں نے ملازمت کے لیے اشتہار جاری کیا،جس کی اہلیت ایم اے تھی۔وہ اُن دنوں میٹرک پاس تھے،مگر تحریری امتحان میں اوّل آنے پر اُس وقت کے گورنر سردار عبدالرب نشترنے اُن کی قابلیت و لیاقت کو دیکھتے ہوئے ملازمت کے احکامات فرما دیئے،لیکن ساتھ ہی نوجوان قاسم کو ایک نصیحت کی اور فرمایا ’’تم جیسے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی تقدیر ہے،مگر یاد رکھو ہمارے اُردو ادب میں شاعری اور جذبات نگاری تو بہت ہے،لیکن ٹھوس علمی مواد کا فقدان ہے،کوئی ڈھنگ کی لغت نہیں،کوئی انسائیکلو پیڈیا نہیں۔ضرورت ہے کہ ایسے کاموں کی جانب توجہ دی جائے‘‘۔ سیّد قاسم محمود کا لکھنا ہے کہ سردار نشتر کی نصیحت اُنھیں کبھی نہیں بھولی اور اُن سے کیا گیا عہد ہی اُن کوقاموس نگاری، لغات اور انسائیکلو پیڈیا جات کی تدوین و تالیف کی طرف لے گیا۔ اُنھوں نے ایک نہیں بل کہ بے شمار انسائیکلوپیڈیازمرتب کیے، جن میںشاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈ یا ، انسائیکلوپیڈ یا ایجادات، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا،علم القران(پانچ زبانوں میں)، انسائیکلو پیڈیا سیرت، انسائیکلو پیڈیا احیائے اسلام اور انسائیکلوپیڈیاقرانیات کی تصنیف و تدوین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ سیّد قاسم محمود نے تحقیق،تخلیق اور تدوین کے ساتھ اشاعت کے میدان میں بھی انقلاب آفریں کارنامے انجام دئیے۔ دفتری اصطلاحات ہوں یا اکنامکس کی لغات، اسلام، پاکستان، سائنس، بچوں پر انسائیکلو پیڈیا جات ہوںیاٹالسٹائی، موپساں، شیکسپیئر، دوستوفسکی، ڈکنز اور دیگر عالمی ادیبوں کے شہ پاروں کے تراجم یا پھر قاسم کی مہندی، رستم خان اور وصیت نامہ جیسے پرُ اثر افسانوں کی تخلیق، سیّد قاسم محمودعلم وادب کے ہر میدان میں کام یاب اور ہر کٹھن مرحلے سے سرخرو ہوکر گزرے۔اُن کا سب سے اہم اور بڑا کارنامہ پاکستان کی تاریخ ،جغرافیہ ،معاشرت وغیرہ کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا’’پاکستانیکا‘‘ کی تدوین ہے۔ اُنھوں نے ’’پاکستانیکا‘‘ لکھ کر پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحقیقی کام چھوڑا ہے، جو اُن کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
سیّد قاسم محمود17 نومبر 1928ء کو ضلع روہتک کے ایک چھوٹے سے گائوں کھر کھوہ میں پیدا ہوئے ،جو دلّی سے اٹھائیس میل دُور تھا۔والد سیّد ہاشم علی نے اُن کا نام سیّد قاسم علی رکھا۔ قاسم کے ساتھ محمود کالا حقہ اُنھوں نے برسوں بعد خود لگایا۔ تقسیم کے بعد قاسم محمود اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ ہجرت کے دوران اُن پر کیا گزری ، یہ الگ تفصیل ہے ،جو اُن کی کتابوں میں مطالعہ کی جا سکتی ہے۔9ستمبر 1996ء کواُن پر فالج کا حملہ ہوا ، دایاں ہاتھ مفلوج ہوگیا، تاہم جلد ہی اُنھوں نے بائیں ہاتھ سے کام شروع کردیا۔ ایک دن اللہ سے دعا کی کہ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا کا مکمل کرنے کی ہمت دے۔ دعا قبول ہوئی اور دایاں ہاتھ معجزاتی طور پر ٹھیک ہوگیا۔اُس کے بعد اُنھوں نے بے شمار کاموں کی تکمیل کی،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اورہی منظور تھا۔اسی لیے سیّد قاسم محمود کو 82 سال کی عمر میں 31مارچ 2010ء کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔اُن کے کئی تحقیقی کام ابھی بھی زیر تکمیل ہیں۔سیّد قاسم محمود کے صاحب زادے سیّد عاصم محمود کے بقول،اُن کا مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سیرتِ نبویﷺ زیرطبع ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-04-02/8595