مایہ ناز محقق , ادیب , مدیر , مترجم اور قاموس نگار : سیدقاسم محمود کی یاد میں

مایہ ناز محقق , ادیب , مدیر , مترجم اور قاموس نگار : سیدقاسم محمود کی یاد میں
8595_58384648.jpg

سیّدقاسم محمود علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا،31 مارچ کو اُن کی چوتھی برسی منائی گئی************مایۂ ناز محقق، ادیب،مدیر،مترجم اورقاموس نگار سیّدقاسم محمود کی31 مارچ کو چوتھی برسی نہایت احترام و اہتمام سے منائی گئی۔سیّد صاحب وطن ِ عزیز میں علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور اس مشن پہ اپنا تن،من دھن لگا دیا۔اسلامی انسائیکلوپیڈیا،انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا ، سستی کتب کا سلسلہ اور بطورِ نگران مینار ِپاکستان پر تختیوں کی تنصیب کے کارنامے یادگار چھوڑے۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کام بڑے بڑے اداروں کے کرنے کے تھے، وہ اُنھوں نے بطورِفرد ِواحد انجام دیئے۔اُنھوں نے اپنے بارے میں اپنی حیات میں ایک واقعہ تحریر کیا ،جس نے اُن کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میَں نے موپساں کے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کے ناشر مجھے ساتھ لے کرسعادت حسن منٹو کے گھر دیباچہ لکھوانے گئے۔ منٹو صاحب نے مسودے پر ایک اُچٹتی نظر ڈالی، پھر اُسے اُٹھا کر میرے منہ پر دے مارا، کہنے لگے: ’’ تم کبھی بھی ترجمہ یا افسانہ نہیں لکھ سکتے‘‘۔ سیّد قاسم محمود مزید لکھتے ہیں کہ اُس رات میَں واپس گھر نہیں آیا بل کہ ساری رات راوی کنارے گزاری۔ صبح مجلس ِزبان ِدفتری جاکر استعفیٰ پیش کردیا۔ ادارے کے سیکریٹری حکیم احمد شجاع نے بہت روکا، لیکن میَں نے ایک نہ مانی اور کہا کہ نہیں!میَں منٹو کی طرح آزاد انسان بنوں گا، کبھی سرکاری نوکری نہیں کروں گا اور اب بڑا ادیب بن کر دکھائوں گا۔سیّد صاحب کی یہاں ملازم ہونے کی بابت بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ بقول سیّدقاسم محمود ایک مرتبہ مجلس ِزبان ِدفتری والوں نے ملازمت کے لیے اشتہار جاری کیا،جس کی اہلیت ایم اے تھی۔وہ اُن دنوں میٹرک پاس تھے،مگر تحریری امتحان میں اوّل آنے پر اُس وقت کے گورنر سردار عبدالرب نشترنے اُن کی قابلیت و لیاقت کو دیکھتے ہوئے ملازمت کے احکامات فرما دیئے،لیکن ساتھ ہی نوجوان قاسم کو ایک نصیحت کی اور فرمایا ’’تم جیسے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی تقدیر ہے،مگر یاد رکھو ہمارے اُردو ادب میں شاعری اور جذبات نگاری تو بہت ہے،لیکن ٹھوس علمی مواد کا فقدان ہے،کوئی ڈھنگ کی لغت نہیں،کوئی انسائیکلو پیڈیا نہیں۔ضرورت ہے کہ ایسے کاموں کی جانب توجہ دی جائے‘‘۔ سیّد قاسم محمود کا لکھنا ہے کہ سردار نشتر کی نصیحت اُنھیں کبھی نہیں بھولی اور اُن سے کیا گیا عہد ہی اُن کوقاموس نگاری، لغات اور انسائیکلو پیڈیا جات کی تدوین و تالیف کی طرف لے گیا۔ اُنھوں نے ایک نہیں بل کہ بے شمار انسائیکلوپیڈیازمرتب کیے، جن میںشاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈ یا ، انسائیکلوپیڈ یا ایجادات، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا،علم القران(پانچ زبانوں میں)، انسائیکلو پیڈیا سیرت، انسائیکلو پیڈیا احیائے اسلام اور انسائیکلوپیڈیاقرانیات کی تصنیف و تدوین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ سیّد قاسم محمود نے تحقیق،تخلیق اور تدوین کے ساتھ اشاعت کے میدان میں بھی انقلاب آفریں کارنامے انجام دئیے۔ دفتری اصطلاحات ہوں یا اکنامکس کی لغات، اسلام، پاکستان، سائنس، بچوں پر انسائیکلو پیڈیا جات ہوںیاٹالسٹائی، موپساں، شیکسپیئر، دوستوفسکی، ڈکنز اور دیگر عالمی ادیبوں کے شہ پاروں کے تراجم یا پھر قاسم کی مہندی، رستم خان اور وصیت نامہ جیسے پرُ اثر افسانوں کی تخلیق، سیّد قاسم محمودعلم وادب کے ہر میدان میں کام یاب اور ہر کٹھن مرحلے سے سرخرو ہوکر گزرے۔اُن کا سب سے اہم اور بڑا کارنامہ پاکستان کی تاریخ ،جغرافیہ ،معاشرت وغیرہ کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا’’پاکستانیکا‘‘ کی تدوین ہے۔ اُنھوں نے ’’پاکستانیکا‘‘ لکھ کر پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا تحقیقی کام چھوڑا ہے، جو اُن کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

سیّد قاسم محمود17 نومبر 1928ء کو ضلع روہتک کے ایک چھوٹے سے گائوں کھر کھوہ میں پیدا ہوئے ،جو دلّی سے اٹھائیس میل دُور تھا۔والد سیّد ہاشم علی نے اُن کا نام سیّد قاسم علی رکھا۔ قاسم کے ساتھ محمود کالا حقہ اُنھوں نے برسوں بعد خود لگایا۔ تقسیم کے بعد قاسم محمود اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ ہجرت کے دوران اُن پر کیا گزری ، یہ الگ تفصیل ہے ،جو اُن کی کتابوں میں مطالعہ کی جا سکتی ہے۔9ستمبر 1996ء کواُن پر فالج کا حملہ ہوا ، دایاں ہاتھ مفلوج ہوگیا، تاہم جلد ہی اُنھوں نے بائیں ہاتھ سے کام شروع کردیا۔ ایک دن اللہ سے دعا کی کہ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا کا مکمل کرنے کی ہمت دے۔ دعا قبول ہوئی اور دایاں ہاتھ معجزاتی طور پر ٹھیک ہوگیا۔اُس کے بعد اُنھوں نے بے شمار کاموں کی تکمیل کی،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اورہی منظور تھا۔اسی لیے سیّد قاسم محمود کو 82 سال کی عمر میں 31مارچ 2010ء کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔اُن کے کئی تحقیقی کام ابھی بھی زیر تکمیل ہیں۔سیّد قاسم محمود کے صاحب زادے سیّد عاصم محمود کے بقول،اُن کا مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سیرتِ نبویﷺ زیرطبع ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-04-02/8595
 
سید قاسم محمود ۱۷ نومبر ۱۹۲۸ءکو ضلع روہتک(پنجاب) کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں کھر کھودہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد سید ہاشم علی نے اُن کا نام سید قاسم علی رکھا۔ قاسم کے ساتھ محمود کا لاحقہ انہوں نے بہت بعد میں خود لگایا۔
سیدقاسم محمود بچپن سے ہی اِسلامی ذہن رکھتے تھے۔ مرحوم کی طالب علمی کے ابتدائی دِنوں کا ایک واقعہ اُن کی دینی حمیت اور رسولِ کریم سے محبت کا ایک ثبوت ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب وہ ساتویں درجے میں پڑھ رہے تھے واضح رہے کہ اُس زمانے میں اُن کی کلاس میںمسلمان بچے اقلیت میں تھے۔ ایک غیر مسلم اُستاد نے مسلمانوں کی تاریخ پڑھاتے ہوئے حضور کریم کی شان میں گستاخی کی۔ سید قاسم محمود جو اپنی کلاس کے مانیٹر بھی تھے اور اگلی صف میں ہی بیٹھتے تھے۔ مدرس کی گستاخی پر فوراً اُٹھے اور اُنہوں نے اپنی تختی اُس گستاخ ٹیچر کے منہ پر دے ماری۔ جس پر کلاس کے بچوںنے قاسم محمود کو اتنا مارا کہ انھیں دواخانے میں داخل کیا گیا۔

اُردو کے وہ بزرگ قارئین جو ۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰ کا زمانہ دیکھ چکے ہیں وہ اُردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ کے نام کو نہ بھولے ہونگے۔ سید قاسم محمود اسی سیارہ ڈائجسٹ کی مدیر اعلےٰ رہ چکے ہیں۔ سید قاسم محمود ۱۹۷۵ ءتک اس مشہورِ زمانہ ڈائجسٹ سے وابستہ رہے۔ اسی زمانے میں اس ڈائجسٹ کا وقیع’ قذافی نمبر‘ بہت مقبول ہوا تھا نیز اس ڈائجسٹ کے رسول نمبر اور قرآن نمبر بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ سید قاسم محمود اپنے ادبی تراجم کے لئے بھی ادبی حلقوں میں معروف ہی نہیں مشہور بھی ہیں۔ شاید ہی مغرب کا کوئی ادیب ہو جس کے فن پاروں کا اُنہوں نے ترجمہ نہ کیا ہو۔ جن میں سے چند کے نام ذیل میں درج ہیں۔ شیکسپئیر، ٹالسٹائی، دوستو فسکی، موپاساں، فرائیڈ اور ڈاروِن وغیرہ۔ تاریخِ زمان و مکاں(اسٹیفن ہاکنگ کی مشہور کتاب’ اے بریف ہسٹری آف ٹائم) بھی اُن کا ایک یادگار ترجمہ ہے۔ سید قاسم محمود نے فیض احمد فیض کی اِدارت میں شائع ہونے والے مشہور جریدے’ لیل و نہار‘ میں بھی کام کیا تھا ۔ لیل و نہار کا سو سالہ جنگ ِآزادی نمبر اُنہی نے ہی ایڈٹ کیا اور عالمی ڈائجسٹ سے بھی وہ وابستہ رہے۔ اسلامی انسائیکلو پیڈیا بھی مرحوم کا مرتب کیا ہوا ہے بلکہ یہ اُن کا ایک اہم کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کے یعنی انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا ایجادات اور ۱۹۹۰ ءمیں علم القرآن کے تحت قرآن مجید کی(پانچ زبانوں عربی، انگریزی، اردو، ہندی، اور گجراتی) پارہ در پارہ تدوین کی۔

سید قاسم محمود ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنی ایک شناخت رکھتے تھے اُن کے افسانوں کے دو مجموعے’ دیوار پتھر کی اور قاسم کی مہندی نیزاُن کا ایک ناول’ چلے دن بہار کے‘ اور ناولٹ ’پنڈت جلال الدین نہرو‘ اسی طرح ’اصول سیاسیات‘ اور’ معاشیات کے جدید نظریے‘ جیسی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔سید قاسم محمود کی زندگی اور علم و ادب سے اُن کی گہری وابستگی اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور ایسی مثال کہ اُن کے بعد اس طرح کا کوئی شخص( شاید) اُردو دنیا کو نہیں ملا۔ کام سے اُن کا کمٹمنٹ یادگار ہی نہیں بلکہ قابلِ احترام بھی ہے وہ کہتے تھے” اگر انسان کسی نصب العین کے تحت جی رہا ہو تو اس پر موسم بھی مہربان ہو جاتے ہیں۔ اسے گرمی لگتی ہے نہ سردی۔“ مرحوم یہ بھی کہتے تھے کہ” میرے اوپر بجلی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اندھیرا ہوتو میں شمع روشن کر لیتا ہوں۔ میں کام اس لئے نہیں کرتا کہ گھر چلاناہے یا بِل وغیرادا کرنے ہیں، میں تو کام نصب العین کے تحت کرتا ہوں اس سے ملنے والا پیسہ تو میرے کام کا فضلہ ہے صرف فضلہ۔“ اچھے لوگ تیرگی سے بھی روشنی کشید کرنا جانتے ہیں اس کی ایک مثال سید قاسم محمود بھی تھے۔ وہ اسلامی تھیوری ہر عسر میں یسر کے قائل ہی نہیں اس پر ایقان رکھتے تھے وہ یاس کے نہیں آس کے حامی تھے۔۱۹۴۷ کی ایک مشہور فلم’محل ‘میں لتا منگیشکر کا گایا ہوا ایک گانا”آئے گا آئے گا آنے والا“ انھیں بہت پسند تھا۔ وہ کہتے تھے کہ” گزشتہ ۶۰ برسوں کے مصائب سے پُر زندگی میں اس گانے نے مجھے بڑا سہارا دِیا کہ اچھا وقت ضرور آئے گا۔“ اچھا وقت آیا اور اُن کے نام کے ساتھ لازوال ہوگیا۔ وابستگان و طالبانِ علم وادب کےلئے ان کا نام اور کام ایک مینارہ¿ نور بن گیا ہے۔ نور سے مستفید ہونے والے مستفید ہو تے رہیں گے۔
http://www.urdutimes.in/story.php?catId=1&ID=32965
 

قیصرانی

لائبریرین
سٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم" کا اردو ترجمہ سید قاسم محمود نے "وقت کا سفر" کے نام سے کیا ہے، نہ کہ تاریخِ زماں و مکاں
 
سٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم" کا اردو ترجمہ سید قاسم محمود نے "وقت کا سفر" کے نام سے کیا ہے، نہ کہ تاریخِ زماں و مکاں

وقت کا سفر, میڈیا فائر سے ڈاونلوڈ کریں
http://www.mediafire.com/view/?9j5mvm542136l5f

محترم قیصرانی صاحب ، یہاں تو مصنف کا نام ناظر محمود دیا گیا ہے ؟
 
’سید کام کرتا تھا‘

سید قاسم محمود کا یومِ وفات آیابھی اور گزر بھی گیا۔ کسی نے اُن کو یاد نہیں کیا۔ اُن لوگوں نے بھی نہیں جن سے اُن کا بے تکلفی کار شتہ تھا۔ پہلا تعارُف، سید قاسم محمود سے اُس کتاب کی بدولت ہوا تھا جو یحییٰ بن زکریا صدیقی نے تحفہ میں دی تھی۔نام تھا ’جمہوریہ‘۔مجلاتی تقطیع میں چھپی ہوئی اِس کتاب کی قیمت برائے نام تھی۔ اِتنی کم کہ اُس دورکا ایک غریب طالب علم اسے اپنے جیب خرچ سے بہ سہولت خرید سکتا تھا۔ اپنے لیے ہی نہیں اپنے دوست کو تحفہ دینے کے لیے بھی ۔مولانا ابوالکلام آزاد کی معرکہ آرا کتاب ’غبارِ خاطر‘ اور مُلاابنِ عرب مکی کی ’مسجد سے میخانے تک‘ جیسی شہکار کتاب بھی ہم نے پہلے پہل سید قاسم محمود کی شائع کردہ ’شاہکاربُک سیریز‘ کی بدولت ہی پڑھی۔پھر تو قیمتی نایاب کتابوں کا ایک انبار ہماری چھوٹی سی میز پر لگ گیا۔ جو مہنگی کتابیں خریدنے کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے،وہ سید قاسم محمود کی بدولت اب ہماری دسترس میں تھیں۔
رونے والوں نے اِس بات کا رونا بہت رویا کہ مغربی مصنفین کی کتابیں ہمہ وقت ہمارے نوجوانوں کی بغل میں دبی رہتی ہیں ۔۔۔ ’مگروہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی‘۔۔۔ ہماری نئی نسل اُن کے ناموں تک سے واقف نہیں۔کیسے واقف ہو؟ایسی تمام کتابیں نایاب و کم یاب ہیں۔جودستیاب ہیں اُن کی قیمت نئی نسل کے کتاب خواں طبقے کی استطاعتِ خرید سے باہر ہے۔ رونے والے روناہی روتے رہ گئے۔ سید قاسم محموداُٹھے اور کام کر دِکھایا۔ دیرپا اثرات کا حامل وہ قیمتی کام جو بہت بڑے پیمانے پر بہت بڑے بڑے اِداروں کے کرنے کاتھا۔ اِداروں نے تو نہیں کیا۔ ایک تنہافرد نے کردکھایا۔ سب کہتے ہیں یہ کام جاری رہنا چاہیے۔ مگر کرتا کوئی نہیں۔ کرے تو کون کرے؟اب سے چار برس پہلے کی بات ہے۔ ایک روز اخبار کا صفحہ کھولاتوایک دوکالمی خبر کی چار سُرخیاںیہ افسوسناک اطلاع دیتی نظر آئیں:
’’مایہ ناز ادیب، مصنف، مترجم اورناشر سید قاسم محمود 31مارچ 2010ء کو بہ عمر82سال انتقال کرگئے۔اِسلامی انسائیکلوپیڈیا، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا اورشاہکار سستی کتب کے خالق تھے۔ صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کیا۔مینارِ پاکستان پر نصب تختیوں کے مدیر رہے۔ مولانا ظفر علی خاں، امتیاز علی تاج اور عبدالمجید سالک کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے‘‘۔
دوسرا تعارُف اُس وقت ہوا جب ایک بار برادر سلیم مغل نے اپنی غیر حکومتی تنظیم کے تحت بچوں کے لیے لکھنے والوں کو ’بچوں کے ادب‘ سے متعلق متنوع موضوعات پرمنعقد ہونے والے ایک سہ روزہ سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی بُلایا۔ ایک قلم کار اِسلام آباد سے کراچی آیا اور پہلی باراپنے ہی شہر میں ایک ہوٹل میں قیام کرنے کامنفرد تجربہ حاصل کیا۔لاہور سے دیگر ادیبوں کے علاوہ سید قاسم محمود بھی بلائے گئے تھے۔اُس موقع پر اپنے اِس کتابی محسن سے بالمشافہ ملنے کا اعزازحاصل ہوا۔کراچی کی پہلی ملاقات کے بعد سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا۔کبھی لاہور میں توکبھی اِسلام آباد میں۔ اِسلام آباد تشریف لاتے تو ضرور ملتے۔ کبھی آکر کبھی بُلواکر۔ ایک بار اکادمی ادبیات کے ’رائٹرز ہاؤس‘ میں طویل قیام رہا۔اُن دِنوں وہ مشیر مطبوعات اکادمی ادبیات تھے۔ طویل نشستیں رہیں۔وہ دِلچسپ تفریحی سفر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا جب ایک بار ہم کھیوڑہ کی کانِ نمک میں بھی ایک ساتھ داخل ہوئے تھے۔ یہ کہتے ہوئے :’ہرکہ درکانِ نمک رفت نمک شُد‘۔
بعض اتفاقات بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ اُسی دن کی بات ہے۔ ابھی یہ کالم نگار اخبار میں اُن کے انتقال کی خبر پڑھ کرسناٹے میں تھا کہ سب سے چھوٹی بیٹی ایک لفظ کامطلب پوچھنے آگئی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ کتاب کا نام تھا’پاکستانی بچوں کا انسائیکلو پیڈیا‘۔جلد نمبر 1۔ مدیرِ اعلیٰ سید قاسم محمود۔یکے ازمبطوعات اکادمی ادبیات پاکستان۔یہ جلد الف مد ’آ‘ سے شروع ہوتی ہے۔’کسی کو بلانے اور پُکارنے کی آواز۔کبوتروں، مرغیوں اور پالتو جانوروں کو بُلانے کے لیے پُکارتے ہیں ’آ آ‘۔موسیقار کوئی نغمہ، ترانہ یا گیت شروع کرنے کے لیے سُر اُٹھاتاہے یا تان لیتاہے تو اس کا آغاز’آ‘ سے کرتاہے۔کہاجاتاہے کہ کوئی بھی زندہ چیز، جانور یا خود انسان کا بچہ جو آواز سب سے پہلے اپنے مُنھ سے نکالتاہے، وہ یہی آواز ہے’آ‘۔پہلی جلد کا اختتام’آبی فوٹوگرافی(Underwater Photography) کی توضیح، تاریخ اور تیکنیکی تفصیل پر ہوتاہے۔یمنیٰ کے ہاتھ سے کتاب لے کر سرورق پلٹا۔ سرورقِ دوم کے سرنامے پر نہایت خوب صورت حروف میں،خوش خط قلم سے ایک چھوٹا سا فقرہ درج ہے:
’’جناب ابونثرکے لیے پیار کے ساتھ۔(دستخط) سید قاسم محمود۔24اگست 1999ء‘‘
یہی تاریخ اُن سے ملاقات کی آخری تاریخ تھی۔ اب وہ بیمار رہنے لگے تھے۔غالباً 1996ء کے اواخر میں اُن پر فالج کا حملہ ہوا، دایاں ہاتھ شل ہوگیا۔لکھنے لکھانے کاکام بائیں ہاتھ سے شروع کردیا۔لیکن ظاہر ہے کہ بائیں ہاتھ سے لکھنے کی رفتار اُن کے سوچنے کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکی۔ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا کے ساتھ ساتھ قرآن انسائیکلو پیڈیا اور انسائیکلو پیڈیا احیائے اِسلام بھی رہا جاتا تھا۔ اﷲ سے اِس معذوری کو دُور کرنے کی دُعا کی۔ دُعابارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی۔دائیں ہاتھ نے کام کرنا شروع کردیا۔
کام کرنے کی دُھن اُنھیں ایسی تھی کہ ایک بار کراچی کے ایک دُور اُفتادہ اور پسماندہ علاقے منگھوپیر میں ایک مکان کرائے پر لیا۔ کسی کو اپنا یہ ٹھکانہ نہیں بتایا۔وہیں گوشۂ عزلت میں چھپ کر اپنا کام مکمل کیا۔ یہ مردِ مروّت شعار اپنے ملاقاتیوں پر اپنادر بند کرسکتا تھا نہ اُن کو اپنے کام میں حارج ہونے کی ممانعت کرسکتا تھا۔
اُن کے کام کرنے کی بابت ایک بار رئیس امروہوی نے کہا تھا:
’’میں پچپن سال سے کاغذپر قلم گھس رہاہوں۔لیکن اگر مجھ سے فرمائش کی جائے کہ سید قاسم محمودکی طرح تن تنہا،وسائل کی کم مائیگی کے باوجودمحدودمدت میں ڈیڑھ ہزار صفحے کی انسائیکلو پیڈیا قلم بند کرکے چھاپ دو۔تومیں بے ہوش نہیں تو حواس باختہ ضرور ہوجاؤں گا۔ الف سے لے کر ’ی‘تک اشیاء، افراد،یادگارواقعات،تاریخی حوادث،مذہب،مکاتیب،فلسفہ ومعاشرت، جغرافیائی مقامات،شہر، ملک، سمندر، دریا غرض اِ ن تمام چیزوں کا ذکر اختصارکے ساتھ کہ جن کاجانناہر شخص کے لیے ضروری ہے‘‘۔
سید قاسم محمود کی زندگی کی کہانی کاجاننا بھی ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ہجرت کادرد انگیز سفر، جس میں وہ اپنے والدین اور دیگر اہلِ خاندان سے بچھڑ گئے تھے۔بقرعید کے دِن لاہور کی آسٹریلیشیا مسجد کی سیڑھیوں پر نمازیوں کے جوتے سنبھال کر بس اتنی آمدنی کے خواہاں تھے کہ کپڑوں کا نیا جوڑا خرید سکیں۔عیدکی نماز ختم ہوئی تو پہلے ہی ریلے میں اُن کے والد سید ہاشم علی اور چھوٹے بھائی نکل آئے۔ یوں بچھڑا بیٹا اپنے باپ سے مل گیا۔اہلِ خاندان ایک خیمہ میں رہ رہے تھے۔دریائے راوی کے کنارے سے لکڑیاں چن چن کر اچھرہ بازار میں فروخت کرنے سے لے کر ہمارے ممدوح ’سید قاسم محمود‘ بننے تک کی داستان دلخراش ودِل فگارہونے کے ساتھ ساتھ ولولہ انگیز بھی ہے۔
ولولہ حاصل کرنے کے لیے بس ایک ہی بات کافی ہے۔ہمارے مغرب خواں دانشوروں کی طرح سیدقاسم محمود نے اپنی قومی زبان کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ اُردو تو ایک کم مایہ زبان ہے۔ اِس میں فلاں فلاں معرکہ آرا مغربی کتب کے تراجم بھی موجود نہیں۔کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ فلاں پہلو سے کوئی دائرۂ معارف نہیں پایا جاتا۔ کسی کو فکر ہی نہیں۔ فلاں فلاں موضوعات پر انسائیکلو پیڈیا کا فقدان ہے۔ ہمارے قومی اِدارے آخر کیا کررہے ہیں؟ فلاں فلاں کتابیں بڑی مہنگی ہیں، خدارا کم ازکم قوم کے نوجوانوں کو کتابیں توسستی قیمتوں پر فراہم کرو۔وغیرہ وغیرہ۔ دوسروں کوطعن وتشنیع کے بجائے خود اُٹھے اور بیسیوں غیرملکی کتابوں کے تراجم کرڈالے۔ پانچ عدد انسائیکلوپیڈیا تن تنہا تیار کردیے۔ قرآن انسائیکلو پیڈیا۔ اِسلامی انسائیکلو پیڈیا۔ انسائیکلوپیڈیا احیائے اِسلام۔ انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا۔ اورپاکستانی بچوں کا انسائیکلو پیڈیا۔

سستی کتابوں کی داستان تو اب ہرکوئی بیان کرتاہے۔ ’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتاتھا‘۔ وہ جتنے بڑے ادیب اور افسانہ نگار تھے اُس کا ذکر تو رہا ہی جاتاہے۔مختصر یہ کہ اگر وہ اُردو ادب کا شاہکار افسانہ ’’قاسم کی مہندی‘‘ لکھ کر ہی مرجاتے تو یہ افسانہ اُردوادب میں اُن کا نام اوراُن کامقام زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔
http://www.naibaat.pk/?p=84379
 

قیصرانی

لائبریرین
وقت کا سفر, میڈیا فائر سے ڈاونلوڈ کریں
http://www.mediafire.com/view/?9j5mvm542136l5f

محترم قیصرانی صاحب ، یہاں تو مصنف کا نام ناظر محمود دیا گیا ہے ؟
بشکریہ محمد علی مکی، یہ کتاب میرے پاس سیل، ٹیبلٹ، کمپیوٹر، ہر جگہ محفوظ ہے، چند ہفتے قبل ہی میں نے اسے ایک بار پھر پڑھا تھا :)
شیئرنگ کا شکریہ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
وقت کا سفر, میڈیا فائر سے ڈاونلوڈ کریں
http://www.mediafire.com/view/?9j5mvm542136l5f

محترم قیصرانی صاحب ، یہاں تو مصنف کا نام ناظر محمود دیا گیا ہے ؟
اس بارے میں خود سوچ رہا ہوں کہ میرے خیال میں اس کتاب کا اردو میں صرف ایک ہی ترجمہ ہوا ہے۔ خیر میں کچھ تحقیق کرتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے :)
 

ابن عادل

محفلین
محترم ناصر محمود
سید صاحب کے تذکرہ خیر پر آپ کا شکریہ لازم ہے ۔ راقم کی ان سے ایک ہی ملاقات ہے اور وہ بھی فقط صحبت کی حد تک ، کم عمری اور کم علمی کے ساتھ اجنبیت بھی شامل ہو تو خاموشی کے سوا چارہ کیا ہے ۔ میں تب بھی اور اب بھی حیران ہوتا ہوں کہ یہ سارا کام ایک فرد نے کیسے کیا ؟ اور پھر صرف اتنا ہی نہیں ان کی خاص بات یہ بھی کہ وہ منفرد کام کرتے تھے ۔ سب سے جدا ، نیا تصور دیتے تھے ۔ مثلا قرآنیات پر ان کا کام ۔
 
پروفیسر فرزانہ خان
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
محقق ، ادیب ، صحافی ، مترجم اور دانشور سید قاسم محمود
بھارتی پنجاب کے ضلع روہتک کے قصبہ کھر کھودہ کے مکین سید ہاشم علی کے گھر ۱۷ نومبر ۱۹۲۸ء کو جنم لینے والے بچے کا نام سید قاسم علی رکھا گیا جسے عالم علم میں سید قاسم محمود ، بے بدل کے نام سے سب جانتے ہیں ۔ دلی سے شمال مغرب میں ۲۸ میل کے فاصلے پر کھر کھودہ سادات کی ایک شریف و شائستہ بستی تھی جو پرانی اسلامی تہذیبی اقدارکی آبرو لیے ہوئے تھی اور یہاں تقریباً ڈھائی ہزار مسلمان اور تین ہزار ہندو آباد تھے ۔ قصبے کے گر دفصیل تھی لیکن وہ جگہ جگہ سے شکستہ اور چار اطراف چار دروازے بھی منہدم ہوچکے تھے صرف نشان باقی تھے ۔ ہجرت کا کرب اور آزادی کا لمس کیا ہوتا ہے یہ تو وہی بتا سکتا ہے جس نے اپنوں کا لہو بہتے اور اپنے قدموں کو آزاد سرزمین پر رکھنے کے ساتھ ہی اپنی جبیں کو اس کی مٹی پر رکھ کر، رب کریم کے حضور سجدۂ صبر و شکر کیا ہو ۔
۲۲ اگست ۱۹۴۷ء کی شب آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی موسلا دھار بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی لگتا تھا کہ قیامت آگئی ہے۔ گلیوںمیں گھٹنوں گھٹنوں پانی ، دفاع کے لیے موجود اسلحہ جس میں غرق ہوچکا تھا۔ اہل بستی پر مرگ کا سناٹا طاری تھا ، اکابرین میں باہمی صلاح مشورے کے بعد ، قافلہ دہلی کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ۔۔۔ بستی سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر جب قافلہ بارش میں بھگتا ہوا ، کیچڑ میں لت پت ، نہر گوپال پور کے پل سے گزرنے لگا تو جاٹوں اور سکھوں کے گھڑ سوار دستوں نے انہیں گھیر لیا ۔ باپردہ سید زادیوں ، معصوم سید زادوں اور بے گناہ سیدوں کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا سب کو آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم صادر ہوا ، اور پھر ایک سرے سے فائرنگ شروع ہوگئی جب آخری گولی چلی تو تمام سفید برقعے لال ہوچکے تھے ، تمام زبانیں دانتوں تلے کٹ چکی تھیں ، تمام گردنیں ڈھلک چکی تھیں اور تمام وجود نعشیں بن چکے تھے۔ اگلے روز سورج جب ان معصوم شہیدوں کی قدم بوسی کے لیے میدان میں اترا تو وہاں صرف ایک انیس سالہ سید زادہ زخموں سے چور ، جسے حملہ آور مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے زندہ بچا اور وہ ہمارے سید قاسم محمود تھے۔
غیر معمولی اور باصلاحیت انسانوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جسے انگریزی میں "UNSUNG HEROES" کہا جاتا ہے یہ لوگ ان ہیروز سے مختلف ہوتے ہیں جنہیں قدرے دیر سے بعد از مرگ شہرت ملتی ہے اور جن کے بارے میں اردو شاعری اس طرح کے مصرعوں اور شعروں سے بھری پڑی ہے کہ
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
یا
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
محقق ، اخبار نویس ، افسانہ نگار ، قاموس نگار ، ڈرامہ نگار ، مصنف و مؤلف ، تدوین کار اور ناشر کتنی ہی جہتیں اس ایک شخص سے وابستہ ہیں ۔ ان کے علمی اور ادبی سرمایہ کا حق ادا کرنا بحیثیت قوم بھی مشکل ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سید قاسم محمود کا ، علمی و ادبی مقام اگر مینار پاکستان جتنا بلند اور پر شکوہ نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے ۔ ان کے چہرے مہرے ، چال ڈھال اور بات چیت سے یہ اندازہ کرنا بہت ہی مشکل تھا کہ یہ شخص اس قدر محنتی ، بہادر ، مستقل مزاج اور کمیٹڈ ہے کہ تن تنہا اردو زبان و ادب میں وہ کچھ کردکھایا جس کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہزاروں افراد پر مشتمل ادارے ہوتے ہیں جن میں ہر سہولت مسیر اور آسودگی معاش کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا ۔ لیکن قاسم محمود کا حال یہ رہا کہ کبھی گھر کا کُل سامان بیچ کر قرض اتارا اور پھر رزق کی تلاش میں نوکری کی۔ جو وقت بچ نکلا اس میں علمی کام کیا ، کبھی بجلی ہے تو کبھی لالٹین یا موم بتی ، لیکن قلم اور کاغذ کا رشتہ بدستور قائم رکھا ۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ پاکستان کے ہر فرد کو اعلیٰ کتابوں کے مطالعہ کا رسیابنادیں جن لوگوں نے ان کی جاری کردہ ''شاہکار ''جریدی کتب کے ضمن میں شائع ہونے والی دنیا کی عظیم کتابیں انتہائی سستی قیمت میں خرید کر پڑھی ہیں ، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اعلیٰ ادب کی اردو زبان میں اشاعت کے حوالے سے یہ سلسلہ اپنی مثال آپ تھا اور ان کتابوں نے ایک پوری نسل کے ذہن اور دل کے دریچوں کو کھولنے کا کام جس خوش اسلوبی سے انجام دیا اس کا سارا سہرا صرف ایک خاموش اور انتھک رضاکار ِ اردو زبان سید قاسم محمود کے بلند سر پر ہی بنتا ہے ۔ اس اشاعتی سلسلے میں کتب کے انتخاب ، ترجمے کے معیارات ، طباعتی نفاست اور انتہائی ارزاں قیمت میں علم کی مسلسل فراہمی وہ سنگ میل ہے جنہیں آج تک کوئی دوسرا فردتو کیا ، ادارہ بھی پار نہیں کرسکا۔
ان کے مرتب کردہ معرکۃ آراء تحقیقی و علمی ''انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا '' ۔ ''اسلامی انسائیکلو پیڈیا '' اور ''قرآنیات کا انسائیکلو پیڈیا '' کا تعلق ہے ، ان کے موضوعات کے تنوع اور پھیلائو کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سارا کام کسی فرد واحد کا ہے۔ تحقیق و تدوین کے ساتھ ہی دیگر تخلیقات اور تراجم کی فہرست اس قدر طویل اور بھاری بھرکم ہے کہ بے شمار لوگو ں نے تو شاید پوری زندگی میں اس قدر لفظ پڑھے بھی نہ ہوں جتنے اکیلے اس درویش زبان و ادب کے قلم سے تخلیق یا تدوین کے حوالے سے نکلے یا شائع ہوئے ۔ ان کی نثر نگاری درجہ کمال کی تھی جن کی زندہ تصویریں ان کے افسانوی مجموعے (۱) دیوار پتھر کی (۲)قاسم کی مہندی اور (۳)قاسم محمود کے افسانے ۔ اسی طرح ناول ''چلے دن بہار کے '' اور ناولٹ ''پنڈت جلال الدین نہرو'' اور اس کے علاوہ بے شمار مغربی قلم کاروں کے رواں اور معیار ی تراجم ان کی نثر نگاری کی صورت میں موجود ہیں ۔
۳۱ مارچ ۲۰۱۰ء بروز ِ بدھ ، عظیم محسن اردو ادب ، میدان تحقیق و تدوین کے سکندر نے جب اس فانی عالم سے کوچ کیا تو ہاتھ خالی اور نہ سینے پر کوئی درباری تمغہ اور نہ عیال کے لیے کوئی سرکاری مراعات و پلاٹ ، البتہ اپنے ترکہ کو قوم میں بانٹ چلا۔ پڑھے جائو بڑھے جائو کہ تم زندہ قوم ہو اوریا مقبول جان نے سچ ہی لکھا تھا ''منوں مٹی تلے اس ملک کا ایک محسن دفن ہوچکا '' وہ جس عشق سے سرشار تھا ، اس کی منزل اسے مل ہی چکی ہوگی ۔ لیکن ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ان سولہ کروڑ لوگوں ، ان کے حکمرانوں ، ادباء اور ذرائع ابلاغ کے سرخیلوں کو اس کے جانے کے غم سے بھی محروم کردیا گیا جو قومیں اپنے صاحبانِ علم کے اٹھ جانے پر افسردہ نہیں ہوتیں جنھیں اپنے محسنوں کے چلے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ان پر مستقبل کی خوشیاں کبھی دستک نہیں دیا کرتیں
٭٭٭
 
Top