محمد اجمل خان
محفلین
مبارکباد کیوں اور کیسے؟
’’ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں ۔ مجھے گالی دینا اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے‘‘۔( صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2211)
یہ ایک حدیث قدسی کا حصہ جس میں اللہ تعالٰی نے شکایت کا کیسا پیار بھرانداز اپنا یا ہے۔آقا اپنے بند ے سے، خالق اپنی مخلو ق سے اور مالک اپنے مملوک سے محبوبانہ شکوہ کر رہا ہے۔ جس میں دلائل سے مطمئن کرنے کا انداز بھی ہے اور جذبات کو ابھار کر عار دلانے اور شرم کا احساس پیدا کرنے کا اسلوب بھی ۔ ابن آد م کے لفظ سے انسان کو اس کی اصلیت یا د دلا ئی جا رہی ہے کہ تمہارے جد امجد کو میں نے مٹی سے پیدا کر کے شرف انسا نیت سے نوازا، عدم سے وجود بخشا، حسن و خوبصورتی کا اعلیٰ نمو نہ بنا یا اور مسجو دِ ملائکہ بنا کر رفعت و بلندی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ گو یا یہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے اسے سب کچھ بنا د یا۔ تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا،میں نے صدر نشین محفل بنا دیا۔
لیکن میرے اسی نمک خوار (آدم) کا بیٹا آج اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت سے تجاوز کرکے میر ے بارے میں کس قسم کی گفتگو کر رہا ہے؟ اگر یہ اپنے اوپر اور اپنے جدا مجد پر میرے احسانا ت ہی کو سوچ لے تو ایسی حرکت سے باز ر ہے ۔ آج یہ مجھے جھٹلاتا ہے، گالی دیتا ہے ۔
’’گالی دینے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ہے، بے مثل اور بے مثال ہے۔ نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ مگر انسان کی ناسمجھی دیکھئے کہ کوئی کہتا ہے کہ عزیر علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِ۔ُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾ سورة التوبة
’’ یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔‘‘
عزیر علیہ السلام بھی انسان تھے اورمسیح علیہ السلام بھی انسان تھے اور اﷲ تعالیٰ غیر انسان ہیں۔ بھلا غیر انسان کے ہاں انسان کا پیدا ہونا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ واجب الوجود ہیں، ان کی جنس کا کوئی دوسرافرد ہوہی نہیں سکتالیکن اگر بالفرض والتقدیر ان کی اولاد ہو بھی تو وہ انہی کی جنس سے ہونی چاہیے تھی۔ اﷲ کے گھر میں انسان یعنی غیر جنس کا پیدا ہونا بہت بڑا عیب ہے۔ جس طرح انسان کے گھر میں غیر انسان یعنی ’’بھیڑ ‘‘یا ’’بکری ‘‘کا پیدا ہو جانا بہت بڑا عیب ہے بلکہ اگر کہیں اس قسم کا واقعہ پیش آ جائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا اور اگر کسی انسان کو اس کے گھر میں کسی دوسرے جانور کا بچہ پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو وہ اسے انتہائی معیوب اور اپنے لئے باعث ہتک اور باعث ننگ و عار سمجھے گا۔تو انسان نے اﷲ تعالیٰ کے ہاں انسان کی پیدائش کو کیسے ممکن سمجھ کر باور کر لیا؟؟ یہ تو بہت بڑا عیب اور بہت بڑی گالی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۸﴾ لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا ﴿ۙ۸۹﴾ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾ سورة مريم
’’ وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سخت بے ہُودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ(اس بہتان سے) آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کےلیے اولاد ہونے کا دعوٰی کیا! رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔‘‘
(میں جب بھی ان آیتوں کو پڑھتا یا سنتا ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتی ہے ۔ آپ بھی اللہ کی بڑائی و کبریائی کا تصور اپنے ذہن میں لاکر ان آیتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ آپ کی بھی یہ کیفیت ہوتی ہے یا نہیں)۔
یہ اتنی بڑی گالی ہے‘ اللہ پر اتنا بڑا بہتاں اور اللہ کو اتنا زیادہ غصہ دلانے ولا ہے کہ ’’ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں‘‘
پوری عیسائی دنیا اس گناہ ِعظیم میں تو ملوث ہے ہی لیکن افسوس اور تعجب ہے اُن مسلمانوں پر جو صرف اغیار کو خوش کرنے کیلئے انہیں کرسمس کی مبارکباد دیتے ہیں‘ ان کے ساتھ کرسمس مناتے ہیں ‘ اپنی حلال کی کمائی سے کرسمس کیک بھی لے کر جاتے ہیں اور کیک کاتٹے بھی ہیں۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے‘ جو غیر مسلموں کی عید میں خوشی مناتا ہے‘ اگر کو ئی ایک انڈا بھی وہاں لے کر چلا جائے تو وہ بھی اُتنا ہی کفر کا مرتکب ہوتا ہے جتنا کافر ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالٰی کے بندے اور پیغمبر ہیں۔جس طرح اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا ۔
اب ذرا عیسائیوں کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ایک طرف ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں تو دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یوسف النجار کی ناجائز اولاد کہتے ہیں ۔ یوسف النجار کی دوستی ہوئی حضرت مریم ؑ سے ہوئی جس کی پاداش میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی (نعوذ باللہ من ذالک ) ۔ یہ کتنا بڑا بہتان ہے حضرت مریم ؑ پر جن کی عبادت‘ ریاضت اور پاکدامنی کے قصے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کئے ہیں۔
اللہ کے ایک جلیل القدر نبی کے بارے میں جو لوگ یہ تصور پیش کریں کہ یہ حلال کی اولاد نہیں‘ اُن کی خوشی میں اللہ کو محبوب رکھنے والاکوئی مسلمان کیسے شریک ہو سکتا ہے یا انہیں خوشی کی مبارکباد کیوں اور کیسے دے سکتا ہے؟
لیکن مسلمان نہ صرف مبارکباد دیتا ہے بلکہ کرسمس کیک بھی کاٹتا ہے‘ کرسمس کی محافل میں شرکت بھی کرتا ہے‘ نیو ایر بھی مناتا ہے ‘ ویلنٹائین ڈے بھی مناتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے لیکن اللہ کو خوش کرنے کی نہیں سوچتا۔
ہر سال ایسے نام نہاد مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کرسمس اور اس جیسی دیگر تہواروں کو مسلمانوں کیلئے جائز قرار دینےکیلئے میڈیا پر چھائے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہی کی راہ پر لگا کر اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ہر بڑے شہر میں کرسمس ‘ نیو ایر‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ بڑی دھوم دھام سےمنائی جاتی ہے اور مسلمان خاص کر نوجوان لڑکے لڑکیاں خوب رنگ ریلیاں منا کر اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں۔
ایسے نوجوانوں سے کیا کوئی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کیا ان میں کوئی صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کر سکتا ہے ؟
بلکہ یہ تو میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے کیلئے ہیں یا ابو عبد اللہ کی طرح آنسو بہانے کیلئے۔
لیکن اس امت کی اگر یہی روش رہی تو اب جب دشمن یلغار کرے گا تو انہیں آنسو بہانے کا موقع بھی نہیں دے گا ۔
کاش ! امت کے یہ نوجوان لہو و لعب سے نکل کر اللہ کو راضی کرنے کیلئے آج تھوڑی آنسو بہاتے‘ امت کی حالت پر کڑھتے‘ سسکتے اور امت کو اس کا کھویا ہو مقام دلانے کی کوشش کرتے تو ان کا دنیا اور آخرت دونوں سدھر جاتا لیکن انہیں تو کرسمس‘ نیو ایر ‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانے سے ہی فرصت نہیں۔
اے اﷲ تعالیٰ تو ہر عیب سے پاک ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ تیرا کوئی باپ ہو یا تو کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔ تو صمد اور بے نیاز ہے۔ تو بے مثل اور بے مثال ہے۔ ہم صرف تجھے راضی رکھنے اور تجھے خوش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ پس ہم سے راضی ہو جا ۔ ہم سے خوش ہو جا ۔ ہمیں ھدایت دے ۔ ہمارے اہل و عیال‘ دوست احباب اور تمام مسلمانوں کو ھدایت دے اور نیک توفیق دے کہ ہم تجھے ناراض کرنے والوں‘ تجھ پر بہتان باندھنے والوں اور تجھے گالی دینے والوں سے دور رہ سکیں ۔ اے اللہ اس امت کے نوجوانوں کو ھدایت دے‘ انہین دین کی سمجھ عطا فرما اور انہیں اغیار کا ہتھیار بننے سے بچا لے اور دین اسلام کی سربلندی کیلئے کام کرنے کی توفیق دے۔ اے اللہ خاص کر میرے اپنے بیٹوں کو ایسی توفیق دے کہ وہ دین سیکھیں‘ دین پر چلیں ‘ تجھے راضی کریں اور دین اسلام کی سربلندی کیلئے کام کریں۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : محمد اجمل خان۔۔۔۔۔
برائے مہربانی میری ذیل کی پیج کو لائیک اور شیئر کیجئے ۔ ان شاء اللہ یہ آپ کیلئے صدقائے جاریہ ہوگا۔
https://m.facebook.com/apnitejarat
۔۔
’’ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں ۔ مجھے گالی دینا اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے‘‘۔( صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2211)
یہ ایک حدیث قدسی کا حصہ جس میں اللہ تعالٰی نے شکایت کا کیسا پیار بھرانداز اپنا یا ہے۔آقا اپنے بند ے سے، خالق اپنی مخلو ق سے اور مالک اپنے مملوک سے محبوبانہ شکوہ کر رہا ہے۔ جس میں دلائل سے مطمئن کرنے کا انداز بھی ہے اور جذبات کو ابھار کر عار دلانے اور شرم کا احساس پیدا کرنے کا اسلوب بھی ۔ ابن آد م کے لفظ سے انسان کو اس کی اصلیت یا د دلا ئی جا رہی ہے کہ تمہارے جد امجد کو میں نے مٹی سے پیدا کر کے شرف انسا نیت سے نوازا، عدم سے وجود بخشا، حسن و خوبصورتی کا اعلیٰ نمو نہ بنا یا اور مسجو دِ ملائکہ بنا کر رفعت و بلندی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ گو یا یہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے اسے سب کچھ بنا د یا۔ تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا،میں نے صدر نشین محفل بنا دیا۔
لیکن میرے اسی نمک خوار (آدم) کا بیٹا آج اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت سے تجاوز کرکے میر ے بارے میں کس قسم کی گفتگو کر رہا ہے؟ اگر یہ اپنے اوپر اور اپنے جدا مجد پر میرے احسانا ت ہی کو سوچ لے تو ایسی حرکت سے باز ر ہے ۔ آج یہ مجھے جھٹلاتا ہے، گالی دیتا ہے ۔
’’گالی دینے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ہے، بے مثل اور بے مثال ہے۔ نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ مگر انسان کی ناسمجھی دیکھئے کہ کوئی کہتا ہے کہ عزیر علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ﷲ کے بیٹے ہیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِ۔ُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾ سورة التوبة
’’ یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔‘‘
عزیر علیہ السلام بھی انسان تھے اورمسیح علیہ السلام بھی انسان تھے اور اﷲ تعالیٰ غیر انسان ہیں۔ بھلا غیر انسان کے ہاں انسان کا پیدا ہونا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ واجب الوجود ہیں، ان کی جنس کا کوئی دوسرافرد ہوہی نہیں سکتالیکن اگر بالفرض والتقدیر ان کی اولاد ہو بھی تو وہ انہی کی جنس سے ہونی چاہیے تھی۔ اﷲ کے گھر میں انسان یعنی غیر جنس کا پیدا ہونا بہت بڑا عیب ہے۔ جس طرح انسان کے گھر میں غیر انسان یعنی ’’بھیڑ ‘‘یا ’’بکری ‘‘کا پیدا ہو جانا بہت بڑا عیب ہے بلکہ اگر کہیں اس قسم کا واقعہ پیش آ جائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا اور اگر کسی انسان کو اس کے گھر میں کسی دوسرے جانور کا بچہ پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو وہ اسے انتہائی معیوب اور اپنے لئے باعث ہتک اور باعث ننگ و عار سمجھے گا۔تو انسان نے اﷲ تعالیٰ کے ہاں انسان کی پیدائش کو کیسے ممکن سمجھ کر باور کر لیا؟؟ یہ تو بہت بڑا عیب اور بہت بڑی گالی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۸﴾ لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا ﴿ۙ۸۹﴾ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾ سورة مريم
’’ وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سخت بے ہُودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ(اس بہتان سے) آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کےلیے اولاد ہونے کا دعوٰی کیا! رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔‘‘
(میں جب بھی ان آیتوں کو پڑھتا یا سنتا ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتی ہے ۔ آپ بھی اللہ کی بڑائی و کبریائی کا تصور اپنے ذہن میں لاکر ان آیتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ آپ کی بھی یہ کیفیت ہوتی ہے یا نہیں)۔
یہ اتنی بڑی گالی ہے‘ اللہ پر اتنا بڑا بہتاں اور اللہ کو اتنا زیادہ غصہ دلانے ولا ہے کہ ’’ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں‘‘
پوری عیسائی دنیا اس گناہ ِعظیم میں تو ملوث ہے ہی لیکن افسوس اور تعجب ہے اُن مسلمانوں پر جو صرف اغیار کو خوش کرنے کیلئے انہیں کرسمس کی مبارکباد دیتے ہیں‘ ان کے ساتھ کرسمس مناتے ہیں ‘ اپنی حلال کی کمائی سے کرسمس کیک بھی لے کر جاتے ہیں اور کیک کاتٹے بھی ہیں۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے‘ جو غیر مسلموں کی عید میں خوشی مناتا ہے‘ اگر کو ئی ایک انڈا بھی وہاں لے کر چلا جائے تو وہ بھی اُتنا ہی کفر کا مرتکب ہوتا ہے جتنا کافر ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالٰی کے بندے اور پیغمبر ہیں۔جس طرح اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا ۔
اب ذرا عیسائیوں کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ایک طرف ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں تو دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یوسف النجار کی ناجائز اولاد کہتے ہیں ۔ یوسف النجار کی دوستی ہوئی حضرت مریم ؑ سے ہوئی جس کی پاداش میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی (نعوذ باللہ من ذالک ) ۔ یہ کتنا بڑا بہتان ہے حضرت مریم ؑ پر جن کی عبادت‘ ریاضت اور پاکدامنی کے قصے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کئے ہیں۔
اللہ کے ایک جلیل القدر نبی کے بارے میں جو لوگ یہ تصور پیش کریں کہ یہ حلال کی اولاد نہیں‘ اُن کی خوشی میں اللہ کو محبوب رکھنے والاکوئی مسلمان کیسے شریک ہو سکتا ہے یا انہیں خوشی کی مبارکباد کیوں اور کیسے دے سکتا ہے؟
لیکن مسلمان نہ صرف مبارکباد دیتا ہے بلکہ کرسمس کیک بھی کاٹتا ہے‘ کرسمس کی محافل میں شرکت بھی کرتا ہے‘ نیو ایر بھی مناتا ہے ‘ ویلنٹائین ڈے بھی مناتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے لیکن اللہ کو خوش کرنے کی نہیں سوچتا۔
ہر سال ایسے نام نہاد مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کرسمس اور اس جیسی دیگر تہواروں کو مسلمانوں کیلئے جائز قرار دینےکیلئے میڈیا پر چھائے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہی کی راہ پر لگا کر اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ہر بڑے شہر میں کرسمس ‘ نیو ایر‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ بڑی دھوم دھام سےمنائی جاتی ہے اور مسلمان خاص کر نوجوان لڑکے لڑکیاں خوب رنگ ریلیاں منا کر اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں۔
ایسے نوجوانوں سے کیا کوئی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کیا ان میں کوئی صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کر سکتا ہے ؟
بلکہ یہ تو میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے کیلئے ہیں یا ابو عبد اللہ کی طرح آنسو بہانے کیلئے۔
لیکن اس امت کی اگر یہی روش رہی تو اب جب دشمن یلغار کرے گا تو انہیں آنسو بہانے کا موقع بھی نہیں دے گا ۔
کاش ! امت کے یہ نوجوان لہو و لعب سے نکل کر اللہ کو راضی کرنے کیلئے آج تھوڑی آنسو بہاتے‘ امت کی حالت پر کڑھتے‘ سسکتے اور امت کو اس کا کھویا ہو مقام دلانے کی کوشش کرتے تو ان کا دنیا اور آخرت دونوں سدھر جاتا لیکن انہیں تو کرسمس‘ نیو ایر ‘ ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانے سے ہی فرصت نہیں۔
اے اﷲ تعالیٰ تو ہر عیب سے پاک ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ تیرا کوئی باپ ہو یا تو کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔ تو صمد اور بے نیاز ہے۔ تو بے مثل اور بے مثال ہے۔ ہم صرف تجھے راضی رکھنے اور تجھے خوش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ پس ہم سے راضی ہو جا ۔ ہم سے خوش ہو جا ۔ ہمیں ھدایت دے ۔ ہمارے اہل و عیال‘ دوست احباب اور تمام مسلمانوں کو ھدایت دے اور نیک توفیق دے کہ ہم تجھے ناراض کرنے والوں‘ تجھ پر بہتان باندھنے والوں اور تجھے گالی دینے والوں سے دور رہ سکیں ۔ اے اللہ اس امت کے نوجوانوں کو ھدایت دے‘ انہین دین کی سمجھ عطا فرما اور انہیں اغیار کا ہتھیار بننے سے بچا لے اور دین اسلام کی سربلندی کیلئے کام کرنے کی توفیق دے۔ اے اللہ خاص کر میرے اپنے بیٹوں کو ایسی توفیق دے کہ وہ دین سیکھیں‘ دین پر چلیں ‘ تجھے راضی کریں اور دین اسلام کی سربلندی کیلئے کام کریں۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : محمد اجمل خان۔۔۔۔۔
برائے مہربانی میری ذیل کی پیج کو لائیک اور شیئر کیجئے ۔ ان شاء اللہ یہ آپ کیلئے صدقائے جاریہ ہوگا۔
https://m.facebook.com/apnitejarat
۔۔