طارق شاہ
محفلین
غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر صِلے تو مجھے اپنے نُکتہ چِیں سے مِلَیں
تمام عُمر کی نا مُعتبر رِفاقت سے !
کہِیں بَھلا ہوکہ، پَل بھر مِلَیں یقیں سے مِلَیں
یہی رہا ہے مُقدّر مِرے کِسانوں کا !
کہ چاند بَوئیں اور اُن کو گہن زمِیں سے مِلَیں
پرویؔن شاکر