مدثر علی شہپر
محفلین
یار۔۔۔۔تیری یاری کو سلام۔۔۔۔۔۔!
یار ، مددگار، دلدار،غم گسار، مزیدار،،، یہ سب ایک ہی شخص کے نام ہیں۔ مندرجہ بالا عنوان خواجہ غلام فریدؒ کی کافی سے لئے ہیں، جو اسوقت ناصرف میری آنکھوں سے آنسوئوں کے پیالے کشید کر رہے ہیں بلکہ میری کیفیت ِ دگر گوں کو بھی بیا ن کر رہے ہیں ۔
پہلی بار میرا یار مجھے ، نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر 7 کی مسجد میں ملا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر صرف 10 سال تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ اسی وارڈ کے ایک بستر پر میری والدہ ِ محترمہ زیرِ علاج تھیں، انکی کامیاب جراحت کے بعد آج انہیں گھر لے جانا تھا، کہ اچانک ایک انجیکشن دیے جانے سے انکی طبیعت بہت خراب ہو گئی، اور وہ لمحہ مجھ پر بہت بھاری تھا، میرے سامنے میری امیدوں، چاہتوں اور محبتوں کا محور تڑپ رہا تھا، میری ماں ۔۔۔! ایک آہ نکلی میر ے دل سے اور ایک ادراک ملا کہ اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں چل ، اور اس سے مانگ بے شک وہی خالق و مختار ہے، میں دیوانا وار، وارڈ سے ملحقہ مسجد میں پہنچا اور سجدے میں گر پڑا، مجھے یاد نہیں کن ٹوٹے پھوٹے انداز میں میں گڑگڑا کے اپنے رب سے اپنی ماں کی زندگی مانگ رہا تھا، اور نہ جانے کتنی دیر اسی طرح پڑا رہا، کہ ایک شفقت والا ہاتھ میر ے سر پہ آیا، میں نے دیکھا کہ والدہ کے ساتھ والے بستر سے ایک ہمسائی مجھے دلاسا دے رہی ہے، بیٹا اب آپ کی امی ٹھیک ہیں ، ،، وہ دن اور اس سےجڑے کئی سال مجھے میرے یار سے ملانے کا پیش خیمہ ثاپت ہوئے۔مجھے یا د ہے کہ مجھے میرا یار مل گیا تھا، اور مجھے اپنے اس یار پہ بہت فخر بھی تھا، وہ میری کوئی بات نہیں ٹالتا تھا، بدلہ میں میں بھی اس کی یاری خوب نبھانا جانتا تھا۔۔۔!
آپ نہیں جاننا چاہیں گے میرے یار کو، ہا ں وہی تو ہے میرا ، آپکا اور ہم سب کا بلکہ پوری کائنات کا یا ر دلدار،،،، میرا رب تعالیٰ بزرگ و برتر ، وہی تو ہے، جسکی یا د نے آج مجھے بہت رلایا ہے، وہ مجھ سے روٹھ گیا ہے، کافی عرصہ ہوا وہ مجھ نہں ملا، ہا ں شا ئد مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے،مگر میں ناامید نہیں ہوں۔۔۔۔ اور آپ سب سے بھی دعا کا طلبگار ہوں، کہ میرے حق میں دعا کر کے میرے بچھڑ ے یار سے مجھے ملانے کا سبب بن جائیں ۔۔۔۔!
متاں یار ملیم کہیں سانگ سبب ۔۔۔۔۔۔!
یار ، مددگار، دلدار،غم گسار، مزیدار،،، یہ سب ایک ہی شخص کے نام ہیں۔ مندرجہ بالا عنوان خواجہ غلام فریدؒ کی کافی سے لئے ہیں، جو اسوقت ناصرف میری آنکھوں سے آنسوئوں کے پیالے کشید کر رہے ہیں بلکہ میری کیفیت ِ دگر گوں کو بھی بیا ن کر رہے ہیں ۔
پہلی بار میرا یار مجھے ، نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر 7 کی مسجد میں ملا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر صرف 10 سال تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ اسی وارڈ کے ایک بستر پر میری والدہ ِ محترمہ زیرِ علاج تھیں، انکی کامیاب جراحت کے بعد آج انہیں گھر لے جانا تھا، کہ اچانک ایک انجیکشن دیے جانے سے انکی طبیعت بہت خراب ہو گئی، اور وہ لمحہ مجھ پر بہت بھاری تھا، میرے سامنے میری امیدوں، چاہتوں اور محبتوں کا محور تڑپ رہا تھا، میری ماں ۔۔۔! ایک آہ نکلی میر ے دل سے اور ایک ادراک ملا کہ اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں چل ، اور اس سے مانگ بے شک وہی خالق و مختار ہے، میں دیوانا وار، وارڈ سے ملحقہ مسجد میں پہنچا اور سجدے میں گر پڑا، مجھے یاد نہیں کن ٹوٹے پھوٹے انداز میں میں گڑگڑا کے اپنے رب سے اپنی ماں کی زندگی مانگ رہا تھا، اور نہ جانے کتنی دیر اسی طرح پڑا رہا، کہ ایک شفقت والا ہاتھ میر ے سر پہ آیا، میں نے دیکھا کہ والدہ کے ساتھ والے بستر سے ایک ہمسائی مجھے دلاسا دے رہی ہے، بیٹا اب آپ کی امی ٹھیک ہیں ، ،، وہ دن اور اس سےجڑے کئی سال مجھے میرے یار سے ملانے کا پیش خیمہ ثاپت ہوئے۔مجھے یا د ہے کہ مجھے میرا یار مل گیا تھا، اور مجھے اپنے اس یار پہ بہت فخر بھی تھا، وہ میری کوئی بات نہیں ٹالتا تھا، بدلہ میں میں بھی اس کی یاری خوب نبھانا جانتا تھا۔۔۔!
آپ نہیں جاننا چاہیں گے میرے یار کو، ہا ں وہی تو ہے میرا ، آپکا اور ہم سب کا بلکہ پوری کائنات کا یا ر دلدار،،،، میرا رب تعالیٰ بزرگ و برتر ، وہی تو ہے، جسکی یا د نے آج مجھے بہت رلایا ہے، وہ مجھ سے روٹھ گیا ہے، کافی عرصہ ہوا وہ مجھ نہں ملا، ہا ں شا ئد مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے،مگر میں ناامید نہیں ہوں۔۔۔۔ اور آپ سب سے بھی دعا کا طلبگار ہوں، کہ میرے حق میں دعا کر کے میرے بچھڑ ے یار سے مجھے ملانے کا سبب بن جائیں ۔۔۔۔!
متاں یار ملیم کہیں سانگ سبب ۔۔۔۔۔۔!