محمود احمد غزنوی
محفلین
غزل
ایسی اک لے سُنی ہے کہ مت پوچھئیے
جان پر وہ بنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔ ۔
ڈھل گئی خامشی سرمدی صوت میں
وہ چھڑی راگنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔
ہے یہ خاکی سا پتلا ظلوم و جہول۔ ۔ ۔ ۔
پر وہ صورت بنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔
سب عبادت عزازیل کی پل میں غارت۔ ۔
کچھ وہ ایسا غنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔
ملّا تپتی ہوئی دھوپ ہے اور صوفی ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی چھاؤں گھنی ہے کہ مت پوچھئیے
آگئی ہے بسنت اور گلے کٹ رہے ہین
ایسی ڈوری تنی ہے کہ مت پوچھئیے
سانس گھٹنے لگی دم نکلنے لگا ہے
وہ نصیحت سنی ہے کہ مت پوچھئیے
اک غزل ہی سنائی تھی محمود صاحب
پھر وہ درگت بنی ہے کہ مت پوچھئیے
جان پر وہ بنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔ ۔
ڈھل گئی خامشی سرمدی صوت میں
وہ چھڑی راگنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔
ہے یہ خاکی سا پتلا ظلوم و جہول۔ ۔ ۔ ۔
پر وہ صورت بنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔ ۔
سب عبادت عزازیل کی پل میں غارت۔ ۔
کچھ وہ ایسا غنی ہے کہ مت پوچھئیے۔ ۔
ملّا تپتی ہوئی دھوپ ہے اور صوفی ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی چھاؤں گھنی ہے کہ مت پوچھئیے
آگئی ہے بسنت اور گلے کٹ رہے ہین
ایسی ڈوری تنی ہے کہ مت پوچھئیے
سانس گھٹنے لگی دم نکلنے لگا ہے
وہ نصیحت سنی ہے کہ مت پوچھئیے
اک غزل ہی سنائی تھی محمود صاحب
پھر وہ درگت بنی ہے کہ مت پوچھئیے