طارق شاہ
محفلین
غزلِ
خواجہ میر درد
مثلِ نگِیں جو ہم سے ہُوا کام رہ گیا
ہم رُو سیاہ جاتے رہے نام رہ گیا
یارب یہ دل ہے یا کوئی مہماں سرائے ہے
غم رہ گیا کبھو، کبھو آرام رہ گیا
ساقی مِرے بھی دل کی طرف ٹک نِگاہ کر
لب تشنہ تیری بزْم میں یہ جام رہ گیا
سو بار سوزِ عشق نے دی آگ، پر ہنوز
دل وہ کباب ہے کہ جِگر خام رہ گیا
ہم کب کے چل بسے تھے پر اے مژدۂ وصال
کچھ آج ہوتے ہوتے سرانجام رہ گیا
مدت سے وہ تپاک تو موقوف ہو گئے
اب گاہ گاہ بوسہ بہ پیغام رہ گیا
اب گاہ گاہ بوسہ بہ پیغام رہ گیا
ازبس کہ ہم نے حرف دُوئی کا اُٹھا دیا
اے درد اپنے وقت میں ایہام رہ گیا
خواجہ میر درد