یازر
محفلین
مثل ِ گلاب
ہر شخص دوسرے کی عزت کچل رہا ہے
یہ کاروبار دنیا ایسے ہی چل رہا ہے
کہتا تھا مجھ سے ہر پل مثل ِگلاب ہے تو
مثل ِ گلاب ہی اب ، مجھ کو مسل رہا ہے
توڑا تھا میں نے رشتہ اس بے وفا سے لیکن
دیکھی جو اس کی صورت، دل پھر مچل رہا ہے
کس کو کہوں میں اپنا ، کس کو کہوں شناسا
پل پل میں ابن ِآدم چہرے بدل رہا ہے
وعدہ کیا تھا تونے ، اب کے نہ دیر ہوگی
اب آ بھی جا تو یاؔزر کہ حسن ڈھل رہا ہے
ک م یازر