محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام شعرائے کرام کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ کم از کم ایک ایک قصہ مثنوی کی شکل میں پیش کرکے اس دھاگے کو زینت بخشیں، اس سے ان شاء اللہ تعالیٰ اردو ادب کے ذخیرے میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
اس طفلِ مکتبِ اردو کی جانب سے جیسی تیسی ہوسکی ایک مثنوی حاضر ہے۔ پسند نہ آئے تو معذرت خواہ ہوں اور اگر پسند آجائے تو ذرہ نوازی پر متشکر ہوں۔
بڑے غور سے سب یہ قصہ پڑھیں
ہے یہ منظرِ ’’آ پڑوسن لڑیں‘‘
فضا خوشگوار اور پُرنور تھی
پڑوسن پڑوسن سے کچھ دور تھی
اچانک کسی گھر کی کھڑکی کھلی
نمودار کھڑکی پہ عورت ہوئی
کہا: ’’اے پڑوسن! ملاقات کر
اکیلی ہوں ، مجھ سے ذرا بات کر‘‘
پکاری پڑوسن کو اس زور سے
وہ جاگ اٹھی سوتے میں اس شور سے
کھلی سامنے کی بھی دو کھڑکیاں
چلی آئی اس کی پڑوسن وہاں
یہ بولی: ’’بتا تیرا کیا حال ہے‘‘
کہا اُس نے فوراً: ’’برا حال ہے‘‘
یہ بولی: ’’ارے کیا ہوا کچھ بتا‘‘
کہا اُس نے: ’’یہ پوچھ کیا نہ ہوا‘‘
یہ بولی: ’’بہن! خیریت تو ہے سب‘‘
کہا اُس نے: ’’شوہر ہے کرتا غضب‘‘
یہ بولی: ’’وہ کیا کچھ کماتا نہیں‘‘
کہا: ’’مجھ کو شاپنگ کراتا نہیں‘‘
یہ بولی: ’’بڑا بیٹا کیسا ہے اب‘‘
کہا اُس نے: ’’بالکل نکما ہے اب‘‘
یہ بولی: ’’ملے تجھ کو آسانیاں
کرے رب تِری دور محرومیاں‘‘
کہا اُس نے: ’’اپنی بھی تو کچھ سنا
بتا ٹوٹے صوفے کا اب کیا بنا‘‘
یہ بولی: ’’رکھوں گی اسے توڑ کر
کئی چیزیں بنواؤں گی جوڑ کر‘‘
کہا اس نے کب یہ خریدا ہے سوٹ
بہت جچ رہا، خوب عمدہ ہے سوٹ
یہ بولی: ’’پرے ہٹ ، نظر تو نہ مار
ترے پاس بھی سوٹ ہیں بے شمار‘‘
کہا اُس نے: ’’تو نے پکایا ہے کیا‘‘
یہ بولی: ’’مٹر کے علاوہ ہے کیا‘‘
کہا: ’’یہ دھواں تجھ کو جھٹلا رہا‘‘
مجھے آرہی خوشبوئے قورمہ‘‘
یہ بولی: ’’مجھے بھی مہک آرہی
ترے گھر ہے بریانی شاید پکی‘‘
کہا اُس نے: ’’کنجوس ہے تو بڑی
مجھے تو نے بھیجا نہیں کچھ کبھی‘‘
یہ بولی: ’’تو خود کو سمجھتی ہے کیا‘‘
کہا اُس نے: ’’منہ دیکھ اپنا ذرا‘‘
یہ بولی: ’’ترے منہ کوئی کیوں لگے‘‘
کہا: ’’تو نے خود ہی بلایا مجھے‘‘
یہ بولی: ’’ہوا کھا رہی تھی میں بس‘‘
کہا اُس نے: ’’لعنت مری تجھ پہ دس‘‘
یہ بولی: ’’ہوں تجھ پر تو لعنت ہزار‘‘
کہا اُس نے: ’’رب کی پڑے تجھ کو مار‘‘
یہ بولی: ’’تجھے مار ڈالوں گی میں‘‘
کہا اُس نے: ’’تجھ کو چبالوں گی میں‘‘
غضب اور غصے سے وہ پھٹ پڑیں
محلے کی سب عورتیں آگئیں
چھڑانے لگیں جب انھیں عورتیں
چھڑانے کی بس رہ گئیں حسرتیں
بنے عورتوں کے تبھی دو گروپ
جو رہتی ہیں اب تک بنی چھاؤں دھوپ
یہ قصہ بڑے غور سے سب پڑھیں
اسے کہتے ہیں: ’’آ پڑوسن! لڑیں‘‘