حسان خان
لائبریرین
تم اب ہمارے درمیان نہیں رہے ہو مجاز! اور نہ جانے اس بستی کو تج کر کہاں چلے گئے ہو۔۔! اب تم کہیں نظر نہیں آؤ گے، کبھی تمہاری موہنی صورت دکھائی نہیں دے گی۔
تمہاری ناوقت موت ایک ایسا حادثہ ہے کہ اِسے عظیم ترین حادثہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ حادثہ عظیم ترین حوادث سے بھی کہیں زیادہ روح فرسا ہے۔
تمہاری موت نے میرے دل کی جو کیفیت کر دی ہے، اُسی کیفیت کو جب الفاظ کی پشت پر رکھنا چاہتا ہوں تو وہ حباب کی طرح معاً ٹوٹ جاتے ہیں۔
حیف اُن تاثرات پر جو فقدانِ الفاظ کی بنا پر سر پیٹتے اور گرجتے رہتے ہیں۔
موت ہم سب کا تعاقب کر ہی ہے مگر یہ دیکھ کر رشک آیا اور کلیجا پھٹ گیا کہ وہ تم تک کس قدر جلد پہنچ گئی۔
ایک مدت سے شکایت کر رہا ہوں کہ او کمبخت موت! تو مجھے کیوں نہیں پوچھتی۔ میں نے کیا بگاڑا تھا تیرا کہ تو نے مجھ سے بے اعتنائی برتی، اور مجاز نے کیا احسان کیا تھا تم پر، او روسیاہ، کہ تو نے اّسے بڑھ کر کلیجے سے لگا لیا۔
مجاز! میں نے تیرے والدین کو تیرا پرسہ نہیں دیا تھا۔ اس لیے کہ اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ تیرا پرسہ مجھے دے دیتے۔ تو اُن کا صرف بیٹا تھا، لیکن تو میرا کیا تھا، یہ اُن بدنصیبوں کو معلوم نہیں۔
میرا خیال تھا کہ یہ چراغ جو مجھ نامراد نے جلایا ہے، میرے بعد تو اِس چراغ کو روشن کرے گا اور مزید روغن ڈال کر اس کی لو کو اکسائے گا، اور اِس چراغ سے سیکڑوں نئے چراغ جلتے چلے جائیں گے۔ لیکن صد حیف! کہ تو ہی بجھ کر رہ گیا۔۔۔ میری امید کا چراغ شاید اب کبھی نہ جل سکے گا۔
یہ سچ ہے کہ یہ بھیڑیوں کی دنیا اس قابل نہیں کہ شاعر یہاں زندگی بسر کرے۔ یہ سود و زیاں کے گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے، ایک دوسرے کا خون پینے اور ایک دوسرے کا گوشت کھانے والے درندے اس قابل نہیں کہ اِن کی لاشوں سے اٹی ہوئی زمین پر شاعر چلے اور پھرے اور اِس منحوس و ناپاک سیاسی اصطبل میں شاعر قدم رکھے جہاں گدھوں کی گردنوں میں زریں طوق جگمگا رہے ہیں۔ اور یہی ایک ایسی بات ہے جس پر نگاہ کر کے میں، اے مجاز، تجھے مبارک باد دیتا ہوں کہ تو اس دنیا سے چلا گیا اور عین جوانی کے موسمِ بہار میں چلا گیا۔
لیکن تیری یہ جواں مرگی اور جواں بختی میرے واسطے ایک ایسا شعلۂ غم چھوڑ گئی ہے جو میرے سینے کے اندر اُس وقت تک جلتا رہے گا جب تک کہ سانس چلتی رہے گی۔
ایک تیرے سِدھار جانے سے میرے دل کی نگری اس طرح اجڑ کر رہ گئی ہے کہ اب دوبارہ آباد نہیں ہو سکے گی۔ مجاز! اب میرا بھی چل چلاؤ ہے، تیری موت کے قلق نے مجھے یہ بات بتا دی ہے کہ زیادہ جینا بہت بڑی بے غیرتی اور اپنے فن کی بہت بڑی توہین ہے۔
میری رات بھیگ چکی ہے۔ تارے سر پر ٹمٹما رہے ہیں۔ بستر تہہ کر لیا گیا ہے، کمر باندھ لی گئی ہے اور اب یہ مسافر بھی تیار ہو چکا ہے۔
مجاز! گھبرانا نہیں، جوش بھی آ رہا ہے، جلد آ رہا ہے۔ گھبرانا نہیں اے مجاز!
(جوش ملیح آبادی)
تمہاری ناوقت موت ایک ایسا حادثہ ہے کہ اِسے عظیم ترین حادثہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ حادثہ عظیم ترین حوادث سے بھی کہیں زیادہ روح فرسا ہے۔
تمہاری موت نے میرے دل کی جو کیفیت کر دی ہے، اُسی کیفیت کو جب الفاظ کی پشت پر رکھنا چاہتا ہوں تو وہ حباب کی طرح معاً ٹوٹ جاتے ہیں۔
حیف اُن تاثرات پر جو فقدانِ الفاظ کی بنا پر سر پیٹتے اور گرجتے رہتے ہیں۔
موت ہم سب کا تعاقب کر ہی ہے مگر یہ دیکھ کر رشک آیا اور کلیجا پھٹ گیا کہ وہ تم تک کس قدر جلد پہنچ گئی۔
ایک مدت سے شکایت کر رہا ہوں کہ او کمبخت موت! تو مجھے کیوں نہیں پوچھتی۔ میں نے کیا بگاڑا تھا تیرا کہ تو نے مجھ سے بے اعتنائی برتی، اور مجاز نے کیا احسان کیا تھا تم پر، او روسیاہ، کہ تو نے اّسے بڑھ کر کلیجے سے لگا لیا۔
مجاز! میں نے تیرے والدین کو تیرا پرسہ نہیں دیا تھا۔ اس لیے کہ اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ تیرا پرسہ مجھے دے دیتے۔ تو اُن کا صرف بیٹا تھا، لیکن تو میرا کیا تھا، یہ اُن بدنصیبوں کو معلوم نہیں۔
میرا خیال تھا کہ یہ چراغ جو مجھ نامراد نے جلایا ہے، میرے بعد تو اِس چراغ کو روشن کرے گا اور مزید روغن ڈال کر اس کی لو کو اکسائے گا، اور اِس چراغ سے سیکڑوں نئے چراغ جلتے چلے جائیں گے۔ لیکن صد حیف! کہ تو ہی بجھ کر رہ گیا۔۔۔ میری امید کا چراغ شاید اب کبھی نہ جل سکے گا۔
یہ سچ ہے کہ یہ بھیڑیوں کی دنیا اس قابل نہیں کہ شاعر یہاں زندگی بسر کرے۔ یہ سود و زیاں کے گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے، ایک دوسرے کا خون پینے اور ایک دوسرے کا گوشت کھانے والے درندے اس قابل نہیں کہ اِن کی لاشوں سے اٹی ہوئی زمین پر شاعر چلے اور پھرے اور اِس منحوس و ناپاک سیاسی اصطبل میں شاعر قدم رکھے جہاں گدھوں کی گردنوں میں زریں طوق جگمگا رہے ہیں۔ اور یہی ایک ایسی بات ہے جس پر نگاہ کر کے میں، اے مجاز، تجھے مبارک باد دیتا ہوں کہ تو اس دنیا سے چلا گیا اور عین جوانی کے موسمِ بہار میں چلا گیا۔
لیکن تیری یہ جواں مرگی اور جواں بختی میرے واسطے ایک ایسا شعلۂ غم چھوڑ گئی ہے جو میرے سینے کے اندر اُس وقت تک جلتا رہے گا جب تک کہ سانس چلتی رہے گی۔
ایک تیرے سِدھار جانے سے میرے دل کی نگری اس طرح اجڑ کر رہ گئی ہے کہ اب دوبارہ آباد نہیں ہو سکے گی۔ مجاز! اب میرا بھی چل چلاؤ ہے، تیری موت کے قلق نے مجھے یہ بات بتا دی ہے کہ زیادہ جینا بہت بڑی بے غیرتی اور اپنے فن کی بہت بڑی توہین ہے۔
میری رات بھیگ چکی ہے۔ تارے سر پر ٹمٹما رہے ہیں۔ بستر تہہ کر لیا گیا ہے، کمر باندھ لی گئی ہے اور اب یہ مسافر بھی تیار ہو چکا ہے۔
مجاز! گھبرانا نہیں، جوش بھی آ رہا ہے، جلد آ رہا ہے۔ گھبرانا نہیں اے مجاز!
(جوش ملیح آبادی)