کاشفی
محفلین
غزل
(ماہرالقادری)
مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں
وہ ہیں کہ سارے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
عجیب شان سے جلوے دکھائے جاتے ہیں
مجھ ہی سے چھپ کے، مجھ ہی میں سمائے جاتے ہیں
مشاہدات کی دُنیا بسائے جاتے ہیں
تحیّرات کے سکّے بٹھائے جاتے ہیں
تجلیوں کے فسانے سنائے جاتے ہیں
خموش ہیں وہ، مگر مُسکرائے جاتے ہیں
وہ دُور رہ کے مرے پاس آئے جاتے ہیں
نہ جانے کون سا عالم دکھائے جاتے ہیں
طرح طرح سے مجھے آزمائے جاتے ہیں
وہ روز ایک نیا گل کھلائے جاتے ہیں
نہیں ہیں دامنِ گل پر یہ اوس کے قطرے
سحر کا وقت ہے موتی لٹائے جاتے ہیں
رکھا گیا ہے انہی کا لقب مہ و خورشید
تری نگاہ کے کچھ نقش پائے جاتے ہیں
خدا کرے کہ نہ کم ہو بہارِ میخانہ
یہ بزم وہ ہے جہاں بِن بلائے جاتے ہیں
فسانہ اُن کی نگاہوں کا کیا کہوں ماہر
ابھی وہ تیر کلیجے میں پائے جاتے ہیں
(ماہرالقادری)
مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں
وہ ہیں کہ سارے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
عجیب شان سے جلوے دکھائے جاتے ہیں
مجھ ہی سے چھپ کے، مجھ ہی میں سمائے جاتے ہیں
مشاہدات کی دُنیا بسائے جاتے ہیں
تحیّرات کے سکّے بٹھائے جاتے ہیں
تجلیوں کے فسانے سنائے جاتے ہیں
خموش ہیں وہ، مگر مُسکرائے جاتے ہیں
وہ دُور رہ کے مرے پاس آئے جاتے ہیں
نہ جانے کون سا عالم دکھائے جاتے ہیں
طرح طرح سے مجھے آزمائے جاتے ہیں
وہ روز ایک نیا گل کھلائے جاتے ہیں
نہیں ہیں دامنِ گل پر یہ اوس کے قطرے
سحر کا وقت ہے موتی لٹائے جاتے ہیں
رکھا گیا ہے انہی کا لقب مہ و خورشید
تری نگاہ کے کچھ نقش پائے جاتے ہیں
خدا کرے کہ نہ کم ہو بہارِ میخانہ
یہ بزم وہ ہے جہاں بِن بلائے جاتے ہیں
فسانہ اُن کی نگاہوں کا کیا کہوں ماہر
ابھی وہ تیر کلیجے میں پائے جاتے ہیں