نوید ناظم
محفلین
انسان پیدا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے، یہ اس کی مجبوری ہے۔ گویا انسان پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک مجبوری کے حصار میں ہے۔ بھوک لگنے کا عمل فطری ہے اور پھر بندہ کھانے کی تلاش میں لگ جاتا ہے، بالکل اس طرح جیسے کہ کوئی مشین آٹو پر لگی ہو۔ اسی طرح پیاس انسان کو مجبور کرتی ہے کہ یہ پانی کو تلاش کرے۔ نیند کا آنا مجبوری ہے اور صبح اٹھنا ایک اور مجبوری ۔ انسان کی ایک مجبوری یہ ہے کہ یہ زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا اور دوسری یہ کہ زیادہ دیر چل بھی نہیں سکتا۔ گرمی کی شدت اسے مجبور کرتی ہے کہ یہ سرد جگہ تلاش کرے اور سردی کی شدت اسے مجبور کرتی ہے کہ یہ گرم جگہ تلاش کرے۔ مجبوری ہر حال میں انسان کے ساتھ ہے بلکہ اس کے اندر ہے۔ خود کو آزاد سمجھنے والا انسان بھی اس خیال کا پابند ہے کہ وہ خود کو آزاد سمجھے۔ انسان کی زندگی میں آدھا کام قدرت کرتی ہے اور آدھا اس کی اپنی فطرت، یوں ان دونوں میں انسان کی اپنی مرضی ایک وہم سے زیادہ حثیت نہیں رکھتی۔ قدرت نے انسان کو یہ خیال دیا کہ یہ خود کو آزاد سمجھ کر سارے کام بخوبی انجام دیتا رہے تا کہ اس میں شوق کا جذبہ ہمیشہ برقرار رہے۔ کہتے ہیں کہ انسان اپنی مرضی سے شادی کرتا ہے مگر شادی اس کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتی۔
اصل میں یہ بات انسان ہی پر موقوف نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز مجبور ہے کہ وہ اسی طرح رہے جس طرح اسے تخلیق کیا گیا۔ درخت قیام میں کھڑے رہیں، پتھر سجدے میں پڑے رہیں، پرندے اڑتے رہیں، چوپائے پھرتے رہیں۔ در حقیقت کوئی شے بھی اپنے علاوہ دوسری کوئی شے بننے پر قادر نہیں ہے۔ غالب کے ذوق نے اسے غالب بنا دیا اور یہ ذوق اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ گانے والے کے گلے میں آواز پہلے ہی رکھ دی جاتی ہے اور وہ گلوکار بعد میں بنتا ہے۔
اس کے علاوہ انسان آزاد ہے کہ جو چاہے کرے مگر یہ آزادی بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ یہ اکثر غلطی کر جاتا ہے۔ آدم کو منع کیا گیا کہ ایک درخت کے پاس نہیں جانا مگر ساتھ آزادی بھی دی گئی اور پھر۔۔۔۔ مجبوری یہ بھی ہے کہ ایک آدمی کی غلطی کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بس کا ڈرائیور اگر غلطی کرے تو اس کی سزا سارے مسافروں کو ملتی ہے۔ بہرحال زندگی مجبوری کی داستان ہے جسے سنانے پر ہر انسان مجبور ہے، مگر یہ داستان حسین ہے۔۔۔۔۔۔ اتنی حسین کہ اسے سن کر آزادی کا گماں ہوتا ہے۔
اصل میں یہ بات انسان ہی پر موقوف نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز مجبور ہے کہ وہ اسی طرح رہے جس طرح اسے تخلیق کیا گیا۔ درخت قیام میں کھڑے رہیں، پتھر سجدے میں پڑے رہیں، پرندے اڑتے رہیں، چوپائے پھرتے رہیں۔ در حقیقت کوئی شے بھی اپنے علاوہ دوسری کوئی شے بننے پر قادر نہیں ہے۔ غالب کے ذوق نے اسے غالب بنا دیا اور یہ ذوق اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ گانے والے کے گلے میں آواز پہلے ہی رکھ دی جاتی ہے اور وہ گلوکار بعد میں بنتا ہے۔
اس کے علاوہ انسان آزاد ہے کہ جو چاہے کرے مگر یہ آزادی بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ یہ اکثر غلطی کر جاتا ہے۔ آدم کو منع کیا گیا کہ ایک درخت کے پاس نہیں جانا مگر ساتھ آزادی بھی دی گئی اور پھر۔۔۔۔ مجبوری یہ بھی ہے کہ ایک آدمی کی غلطی کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بس کا ڈرائیور اگر غلطی کرے تو اس کی سزا سارے مسافروں کو ملتی ہے۔ بہرحال زندگی مجبوری کی داستان ہے جسے سنانے پر ہر انسان مجبور ہے، مگر یہ داستان حسین ہے۔۔۔۔۔۔ اتنی حسین کہ اسے سن کر آزادی کا گماں ہوتا ہے۔