محمد عظیم الدین
محفلین
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
نگاہِ مست اور پھر اف چشمِ سرمگیں ساقی
مے دو آتشہ ہے یہ شرابِ آتشیں ساقی
ٹلوں گا میں نہ ہرگز لاکھ ہوتو خشمگیں ساقی
کہ جو مے سب سے بہتر ہے وہ ملتی ہے یہیں ساقی
یہ کس بھٹی کی دی تونے شرابِ آتشیں ساقی
کہ پیتے ہی رگوں میں بجلیاں سی بھر گئیں ساقی
دمِ آخر تو اٹھ جائے یہ چشمِ شرمگیں ساقی
نگاہِ مست ملتے ہی نگاہِ واپسیں ساقی
میں ہوں اب تک محروم گوہے وقتِ واپسیں ساقی
مری قسمت کی تیرے میکدہ میں کیا نہیں ساقی
مجھے سارے مزے جنت کے حاصل ہیں یہیں ساقی
کہ کوثر مے ہے غلماں مغبچے، تو حور عیں ساقی
دبانے پڑ رہے ہیں ولولے مستی کے رندوں کو
غضب ہے دیکھنا تیرا بچشمِ سرمگیں ساقی
جو تر دامن ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے
گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہےآستیں ساقی
نظر میں جانچ لیتا ہے کہ کس کا ظرف کتنا ہے
دکھائے کوئی ایسا نکتہ رس اور دور بیں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
نگاہِ مست اور پھر اف چشمِ سرمگیں ساقی
مے دو آتشہ ہے یہ شرابِ آتشیں ساقی
ٹلوں گا میں نہ ہرگز لاکھ ہوتو خشمگیں ساقی
کہ جو مے سب سے بہتر ہے وہ ملتی ہے یہیں ساقی
یہ کس بھٹی کی دی تونے شرابِ آتشیں ساقی
کہ پیتے ہی رگوں میں بجلیاں سی بھر گئیں ساقی
دمِ آخر تو اٹھ جائے یہ چشمِ شرمگیں ساقی
نگاہِ مست ملتے ہی نگاہِ واپسیں ساقی
میں ہوں اب تک محروم گوہے وقتِ واپسیں ساقی
مری قسمت کی تیرے میکدہ میں کیا نہیں ساقی
مجھے سارے مزے جنت کے حاصل ہیں یہیں ساقی
کہ کوثر مے ہے غلماں مغبچے، تو حور عیں ساقی
دبانے پڑ رہے ہیں ولولے مستی کے رندوں کو
غضب ہے دیکھنا تیرا بچشمِ سرمگیں ساقی
جو تر دامن ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے
گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہےآستیں ساقی
نظر میں جانچ لیتا ہے کہ کس کا ظرف کتنا ہے
دکھائے کوئی ایسا نکتہ رس اور دور بیں ساقی