ایم اے جیسوال کے گھر ایک زبردست پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ آج اس کے بھائی آکاش کی سالگرہ کا دن تھا۔ پوراگھر روشی سے نہایا ہوا تھا۔ جگہ جگہ گھر کو پھولوں اور غباروں سے سجا دیا گیا تھا۔ ایم اے جیسوال نے بڑے بڑے وکیلوں کو بھی آج دعوت نامہ بھیجا تھا لیکن ایل ایل بی شہباز احمد کو اس نے دعوت نامہ بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں اپنی پارٹی میں بلایا جائے ۔ غرور اور تکبر کی چھاپ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ البتہ بڑے بڑے وکیل ضرور اس کے بھائی کے جنم دن میں شریک ہونے آگئے تھے ۔ ایم اے جیسوال کا صرف ایک ہی بھائی تھا ۔ قدرت نے اسے بہن جیسی دولت سے محروم رکھا تھا۔ یہ پورا گھرانا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے نام جیسوال اور آکاش یعنی ہندوں جیسے نام تھے البتہ ان کا تعلق اسی ملک سے تھا ۔ ایم اے جیسوال نے کچھ سالو ں پہلے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھ کر کیس حل کرنا شروع کئے تھے اور آج وہ قابل اور مشہوروکیلوں کی فہرست میں آتا تھا۔اس کا بھائی اس شعبے یعنی وکالت سے بہت دور تھا۔ اس نے ایک فیکٹری میں حساب کتاب کی نوکری کو پسند کیا تھا۔اپنے بھائی کے جنم دن پر جیسوال خوشی سے کھل اُٹھا تھا۔ پورا گھر جیسے دلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ جب سارے مہمان آگئے تو پھروہ سب سے مخاطب ہوا:۔
میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے میرے دعوت نامے کو قبول کرکے مجھے عزت بخشی ۔۔۔ جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج میرے بھائی کا جنم دن ہے ۔۔۔ اس لئے آج یہاں کیک کانٹے کے بعد ایک محفل لگے گی جس میں کچھ مقابلوں کا بندوبست کیا گیا ہے ۔۔۔آپ سب کو مقابلوں کی پوری تفصیل میں کیک کٹنے کے بعد ہی بتا ؤں گا ۔۔۔ مقابلے کے بعد آپ کے لئے کھانے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔۔۔ لہٰذا آپ سب کھانا کھا کر جائیے گا ۔ ایم اے جیسوال نے بلند آواز میں سب سے کہا جس پر سب کیک کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ تبھی ایک نوکر کیک کی میز لئے وہاں آیا۔ پھر سب اس میز کے اردگرد جمع ہوگئے ۔ایم اے جیسوال اور اس کا بھائی آکاش بھی کیک کی میز کی طرف بڑھے ۔ آکاش نے کیک کانٹے کے لئے ہاتھ آگئے بڑھایااور پھر کیک کے کٹتے ہی پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔اس کے ساتھ ہی سب آکاش کو جنم دن کی مبارک باد بھی پیش کر رہے تھے ۔ ایم اے جیسوال نے بھی اس موقع پر اپنے بھائی کو گلے سے لگا لیا۔پھر کیک سب کو کھلایا گیا۔کیک کی اس تقریب سے فارغ ہو کر سب اپنی اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئے ۔اب مقابلہ شروع ہونا تھا۔ایم اے جیسوال مقابلے کے بارے میں کچھ بتانے ہی والا تھا کہ اس کے والد کی آواز سنائی دی ۔
جیسوال بیٹا۔۔۔ میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم زرہ میرے ساتھ آؤ ۔ جیسوال کے والد پورب کمار نے اشارہ کرکے کہا۔
اچھا ڈیڈ۔۔۔ چلئے ۔ جیسوال نے مسکرا کر کہا۔ وہ اپنے والدکو ڈیڈ کہہ کر مخاطب کر تا تھا۔پھر جیسوال اور اس کے والد پورب کمار ہال سے باہر نکل کر ایک کمرے میں آگئے ۔ جیسوال نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
مہمان بہت زیادہ آ گئے ہیں جس کی وجہ سے کھانا کم پڑ جائے گا ۔۔۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم باہر سے ایک دیگ اور منگوالو۔اس کے والد پورب کمار پریشان ہو کر بولے۔
ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔ میں ابھی فون کرکے ریسٹورنٹ سے ایک دیگ اور منگوا لیتا ہوں۔ جیسوال نے پرسکون لہجے میں کہا۔
ریسٹورنٹ والوں کا نمبر نہیں لگ رہا۔۔۔ میرا خیال ہے تمہیں خود ہی جاکر دیگ لانی ہوگی۔۔۔ نوکروں کو میں یہ کام کہہ سکتا تھا لیکن وہ کھانے کی دیگ میں مرغی کی رانیں کم دلوائیں گے ۔۔۔ تم ذرہ مرغی اضافی بھی دلوا لو گے۔پورب کمار مسکرا کر بولے۔
اچھا ۔۔۔ میں خود چلا جاتا ہوں ۔۔۔ خوش۔جیسوال نے بھی مسکرا کر کہااور کمرے سے باہر نکل گیا۔ باہر نکل کر وہ مہمانوں سے مخاطب ہوا:۔
مجھے کچھ ضروری کام سے باہر جانا پڑ رہا ہے ۔۔۔ میں بہت جلد آپ کے پاس موجود ہونگا۔ جیسوال نے بلند آواز میں کہا جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر وہ گھر کے اندرونی دروازے سے باہر نکل گیا۔اس نے گھر کے گیراج سے اپنی گاڑی نکالی اورگاڑی کو صدر دروازے سے باہر لے آیا۔پھر اُس نے گاڑی کی ریس دبائی۔ گاڑی فراٹے بھرتی وہاں سے نکلنے کے لئے تیار ہوگئی۔ تبھی وہ چونک اُٹھا۔ کوئی شخص بدحواسی کے عالم میں اس کے گھر کے صدر دروازے کی دیوار پھلانگ کر باہر نکل رہا تھا۔ ایم اے جیسوال کے چہرے پر حیر ت کا سمندر نظر آنے لگا۔ابھی وہ حیرت کا بت بنے اس آدمی کو اپنے گھر سے باہر نکلتے دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک کان پھاڑ دینے والا زبردست دھماکا ہوا۔ جیسوا ل کا گھر آگ کے شعلوں میں ڈوب کر رہ گیا۔خود اس کی گاڑی بارود کے اثر کی وجہ سے اُلٹ گئی۔ جیسوال کا سر گاڑی کے سٹرینگ ویل سے ٹکرایا اورخون کا ایک فوارہ اس کے سر سے نکلا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے ہوش کی واد ی سے نکل کر بے ہوشی کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ دوسری طرف اس کا گھر دھماکے کے بعد آگ کی لپیٹ میں تھا ۔ شعلوں سے بھری آگ چند منٹ میں اس کے گھر کو جلا کر راکھ کر سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد اپنے دفتر میں بیٹھے کچھ ضروری فائلوں کی ورق گردانی کر رہے تھے ۔ اُن کے ساتھ اُن کے بیٹے عرفان برادرز بیٹھے اُونگھ رہے تھے ۔ کافی دنوں سے اُنہیں کوئی نیا کیس بھی نہیں ملا تھا۔ گزشتہ کیس بھی مکمل طور پر ایل ایل بی شہبازاحمد نے ہی حل کیا تھا۔ عرفان برادرز کو کچھ بھی کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس وجہ سے وہ کافی پریشان تھے ۔ ابھی کچھ ہی مہینوں پہلے اُنہوں نے اپنے والد کے دفتر میں اپنا پرائیوٹ جاسوسی کا ادارہ کھولا تھا لیکن اب تک کوئی بھی اُن سے کسی قسم کا کیس حل کرانے نہیں آیا تھا۔
ایک سوال ذہن میں کھلبلی مچا رہا ہے ۔سلطان معمول کے مطابق شوخ تھا۔
وہ کون سا ۔ عدنان نے تجسس سے پوچھا۔
اگر کوئی شخص13اگست کی رات گیارہ بج کر اُنسٹھ(59) منٹ پر پیدا ہوا ہے ۔۔۔ تو پھر اُس کی سالگرہ 13اگست کو منائی جائے گی یا 14 اگست کو ۔ سلطان مصنوعی پریشانی سے بولا۔
ایسا بے تکا اور بے معنی سوال تمہارے ہی ذہن میں آسکتا ہے۔ عرفان بیزار ہو کر بولا۔
وہ کیوں بھلا۔ سلطان حیران ہو کر بولا۔
کیونکہ تمہارے دماغ میں جو کیڑے ہیں وہ بہت فرسودہ اور بے کار ہیں۔ عرفان جھلا اُٹھا۔
تو کیا تمہارے دماغ کے کیڑے کارآمدا ور قیمتی ہیں ۔سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
لڑکو۔۔۔ تم لوگ کچھ کام کے بھی ہو یا بالکل ہی نکمے ہو ۔۔۔تمہاری بہن سادیہ اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔۔اُسے وہاں گئے دو گھنٹے ہوگئے ہیں ۔۔۔ تم لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ اُسے وہاں سے لے کر آنا ہے ۔بیگم شہباز کی تیز آواز اُن کے کانوں سے ٹکرائی۔
اچھا امی جان۔۔۔ چلو بھئی ۔۔۔ اُس مہارانی صاحبہ کو لینے چلتے ہیں ۔عمران نے جلے کٹے لہجے میں کہااور وہ سب غصیلے انداز میں اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اُنہیں تو کسی کیس کا انتظار تھا اور یہاں کیس کی بجائے اُنہیں سادیہ کو لینے جانا پڑ رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سب جلے بھنے انداز میں اُٹھے تھے ۔ دفتر نے باہر نکل کر اُنہیں نے ایک ٹیکسی پکڑی اور اوراُسے سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر کا پتا بتایا ۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی فراٹے بھرتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔
میں پوچھتا ہوں اگر سادیہ دوپہر کو تنہا اپنی سہیلی کے گھر جا سکتی ہے تو پھر شام کو واپس تنہا اپنے گھر کیوں نہیں آسکتی ۔عرفان نے بھڑک کر کہا۔
کیونکہ سہیلی کے گھر کا راستہ زرہ آسان ہے ۔۔۔ اپنے گھر کا راستہ اُسے یاد نہیں رہتا ہو گا۔ سلطان نے شوخ لہجے میں کہا۔
میں پہلے ہی بہت غصے میں ہوں ۔۔۔ اگر ابھی مذاق کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ عرفان نے اُسے کھاجانے والے انداز میں دیکھا۔
اچھا بڑے بھائی۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ سب سے زیادہ برے بن جاؤ ۔سلطان منمنایا جس پر اُن سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔آخر وہ سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر پہنچ گئے ۔گھر کے دروازے پر دستک دے کر اُنہوں نے کچھ دیر انتظار کیا ۔ آخر دروازہ کھول دیاگیا۔ سامنے کائنات کھڑی تھی۔
ارے آپ لوگ یہاں ۔۔۔ سب خیریت تو ہے نہ ۔کائنات نے چونک کر کہا جس پر وہ حیران ہو کر اُسے دیکھنے لگے۔
کیا مطلب !۔۔۔ ہم لوگ تو یہاں سادیہ کو لینے آئیں ہیں ۔۔۔ پھر تم ہمیں دیکھ کر چونک کیوں رہی ہو ۔سلطان حیرت زدہ تھا۔
سادیہ !۔۔۔ سادیہ تو یہاں نہیں آئی ۔۔۔ آپ لوگوں کو کس نے کہا کہ وہ یہاں آئی ہے ۔کائنات نے نفی میں سر ہلایا جس پر وہ سب دھک سے رہ گئے۔حیرت کے ساتھ خوف بھی اُن کی آنکھوں میں شامل ہوگیا۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔ ابھی دوپہر ٹھیک دو بجے سادیہ تمہارے گھرکے لئے نکلی تھی۔۔۔ اب چار بج چکے ہیں ۔۔۔ وہ تمہارے گھر تو دو بجے ہی پہنچ گئی ہوگی ۔۔۔ تم ضرور مذاق کر رہی ہو نہ۔ سلطان نے آخری جملہ مسکرا کر کہا۔
نہیں !۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہی ۔۔۔ وہ سچی میں یہاں نہیں آئی۔ کائنات نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔
کائنات تمہاری طرح نہیں ہے جو اس سنجیدہ ماحول میں مذاق کرئے۔عدنان نے چوٹ کی۔
میرا خیال ہے سادیہ سہیلی کا بہانہ بنا کر کہیں اور چلی گئی ہے ۔۔۔ آؤ ۔۔۔ اباجان کو اُس کی شکایت لگائیں۔سلطان نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔
سلطان سنجیدہ ہو جاؤ۔۔۔ یہ معاملہ اتنا سلجھاہوا نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہے ہو ۔۔۔ اباجان کے ہزاروں دشمن ہیں ۔۔۔کئی بار اباجان نے مجرموں کو عمر قید اور پھانسی کی سزا دلوائی ہے ۔۔۔لہٰذا اُن مجرموں کے رشتہ دار یا بھائی یا دوست اباجان سے بدلہ لینے کے لئے کوئی بھی گھناؤنا کام کر سکتے ہیں ۔۔۔ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔ کہیں سادیہ کو اغوا نہ کر لیا گیا ہو ۔عرفان نے ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر کہا جس پر اُن سب کے چہروں کا رنگ اُڑ گیا۔اُنہیں لگا جیسے کسی نے اُن کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال لی ہو ۔ خوف ہی خوف اُن کی آنکھوں میں نظر آنے لگا۔سادیہ کے اغوا کا سن کر اُن کی حالت بالکل ردی ہو چکی تھی۔
سادیہ کے اغوا کا سن کر اُن سب کی حالت بالکل ردی ہو چکی تھی۔وہ کچھ دیر تک خالی خالی نظروں سے کائنات کو دیکھتے رہے۔کسی کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ سب کی زبانوں کو جیسے تالا لگ گیا تھا۔آخر سلطان نے ہی سب سے پہلے زبان کھولی:۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ ایک خواب ہے اور اب تھوڑی دیر بعد مجھے پانی ڈال کر اُٹھادیا جائے گا ۔ سلطان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ ان حالات میں بھی ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
کاش یہ خواب ہی ہوتا لیکن افسوس !۔۔۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔ سادیہ کو اغوا کیا جا چکا ہے ۔ عرفان نے سردآہ بھری۔
تم اتنے یقین سے کس طرح کہہ سکتے ہو ۔ سلطا ن جھلا اُٹھا۔
پتا نہیں ۔۔۔ لیکن غالب گمان یہی ہے کہ سادیہ کو اغوا کیا گیا ہے ۔ عرفان نے سوچ کر کہا۔
اب یہاں مشہور شاعر غالب کہاں سے آگیا ۔ سلطا ن نے جل کر کہا جس پر ان سب کے چہروں پر ایک بار پھر مسکراہٹیں رینگ گئیں۔
سنجیدہ ہوجاؤ بھئی ۔۔۔ ہمیں اب کچھ نہ کچھ تو کرناہی ہوگا۔۔۔ امی جان نے ہماری ذمہ داری لگائی ہے کہ ہم سادیہ کو واپس گھر لے کر آئیں اور اب ہم اس ذمہ داری کو نبھائے بغیر واپس گھر نہیں جائیں گے ۔ عدنان پر جوش لہجے میں بولا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔کائنات اب ہم چلتے ہیں ۔۔۔ ہماری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوئی ۔ عمران نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ میری دعا ہے کہ تم لوگ سادیہ کو لے کر ہی واپس گھر جاؤ ۔ کائنات نے اداس انداز میں کہا۔
آمین ۔ ان سب کی زبان سے ایک ساتھ نکلا۔پھر وہ کائنات کے گھر کے دروازے سے ہٹ آئے اور ایک ٹیکسی روکی ۔ ٹیکسی والے کو انہیں نے سیدھاسیدھا سڑک پر چلنے کو کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ٹیکسی میں بیٹھے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ یہاں کائنات نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا اور وہ اپنے کمرے میں آکر ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کر رہی تھی۔ دوسری طرف جب کافی دیر ہوگئی اور ٹیکسی والے کو کسی بھی جگہ کا پتا نہ بتایا گیا تو وہ ٹیکسی چلا چلا کر تنگ آگیا۔
آخر آپ لوگوں کو کہاں جانا ہے ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے اکتا کر کہا۔
کسی ایسی جگہ لے جاؤ بھائی جہاں دور دور تک نہ کوئی ہنگامہ ہو نہ کوئی شور ہو۔۔۔ ہر طرف سکون کا عالم ہو ۔۔۔ بڑے سے باغ میں چھوٹے سے بستر پر ایک نرم سا تکیہ ہو اور اس پر میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوں ۔۔۔ سکون ہی سکون ہو۔۔۔ نہ کوئی شور نہ کوئی ہنگ۔۔۔۔ سلطان کے الفاظ ادھورے رہ گئے کیونکہ اسی وقت ایک کان پھاڑدینے والا دھماکا ہوا تھا۔ ان کی ٹیکسی دھماکے کی جگہ سے ابھی بہت دور تھی اس لئے ٹیکسی الٹتے الٹتے بال بال بچ گئی البتہ جس گھر میں دھماکا ہوا تھا وہ صاف طور پر نظر آرہا تھا۔شعلوں سے بھری آگ نے گھر کو ڈھانپ لیا تھا۔اس گھر کے بالکل سامنے ایک کار الٹ چکی تھی ۔ تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ گھر کے دروازے کی پلیٹ پر ایم اے جیسوال کانام لکھا تھا اور گھر سے کچھ دور فاصلے پر ایک شخص سرپٹ دوڑا جا رہا تھا۔ جیسے اس کی موت اس کے پیچھے لگی ہو۔بھاگنے والے شخص کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ دھک سے رہ گئے ۔ بھاگنا والا شخص اُن کے والدایل ایل بی شہباز احمد کا اسسٹنٹ منظور تھا۔دوسری طرف جو گاڑی اس دھماکا کے اثر کی وجہ سے اُلٹ گئی تھی اس کے اندر جھاکنے پر ایک اور حیرت سے بھرا منظر اُن کا انتظار کر رہا تھا۔گاڑی کے اندر جیسوال زخمی حالت میں بے ہوش پڑا تھا۔حیرت ہی حیرت ان کے چہروں پر نظر آرہی تھی اور وہ زخمی حالت میں بے ہوش جیسوال کو اور آگ میں چھپے ہوئے اس کے گھرکو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد اپنے دفتر میں ضروری فائلوں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ وہ اپنے کام میں پوری طرح ڈوبے ہوئے تھے۔اُن کانام اعلیٰ پائے کے وکیلوں میں لیا جاتا تھا۔وہ آج تک ایک کیس بھی نہیں ہارے تھے۔اُن کے بچے عرفان،عمران ، عدنان ، سلطان اور سادیہ عرفان برادرز کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ ابھی کچھ ہی مہینوں پہلے انہیں نے ایل ایل بی شہباز احمد کے دفتر میں اپنی پرائیوٹ جاسوسی کا ادارہ قائم کیا تھاالبتہ ایل ایل بی شہباز احمد پندرہ سال سے وکالت کر رہے تھے۔بے گناہوں کو بچانا اُن کا پیشہ تھا اورگناہ گاروں کو سزا دینے میں وہ بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔اُن کی خاص بات یہ تھی کہ غریبوں کا کیس مفت لڑتے تھے۔اُن کے ہر کیس جیتنے کی وجہ سے ان کے نام آگے لوگ ایل ایل بی کی ڈگری بھی لگا نے لگے تھے۔ دوسری طرف ان کے برعکس جیسوال جلد بازی کا شکار رہتا تھا۔ اُس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ پانچ منٹ کے اندر اندر کیس حل کر کے جیت جائے ۔ گزشتہ کیس کے علاوہ وہ بھی کوئی کیس نہیں ہارا تھا۔ گزشتہ کیس میں چونکہ اُس کے مقابلے پر ایل ایل بی شہباز احمد کھڑے تھے اس لئے ہارنا اس کا مقدر بن گیا تھا(جرم کی کہانی )۔ تبھی ایل ایل بی شہباز احمد نے کسی کے کھنکارنے کی آواز سنی جیسے کوئی انہیں اپنی موجود گی کا احساس دلانا چاہتے ہو۔ شہباز احمد نے نظر اوپر اٹھائیں تو ایک ڈیل ڈول والا نوجوان شخص انہیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے:۔
اس قدر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے شہباز صاحب ۔۔۔میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا ۔ اس شخص کے چہرے پر تمسخرانہ مسکراہٹ تھی۔
کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے ۔ شہباز احمد نے پرسکون لہجے میں کہا۔
آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اگر آپ نے کوئی گڑبڑ نہ کی تواس میں آپ کا ہی فائدہ ہے ۔۔۔ اور اگر کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس شخص نے نہایت سرد آواز میں کہا۔
مجھے گڑ بڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ میں تیل دیکھوں گا اور تیل کی دھار دیکھوں گا ۔۔۔ البتہ اگر معاملہ مشکوک ہوا تو آپ بھی نہیں بچیں گے ۔ شہباز احمد نے بھی سخت لہجے میں کہا۔
دیکھا جائے گا ۔ ا س شخص نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے اور شہباز احمد کو اپنے کرسی سے اُٹھنے کا اشارہ کیا۔ شہباز احمد نے ایک دو پل کے لئے سوچا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں ؟ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ معاملہ مکمل جانے بنا کوئی بھی قدم اُٹھانا غیر مناسب ہے لہٰذا انہیں نے اس شخص کے ساتھ جانے میں ہی عافیت جانی اور اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔دوسرے ہی لمحے ایل ایل بی شہبا ز احمد اس ڈیل ڈول والے نوجوان کے ساتھ اپنے دفتر سے باہر نکل رہے تھے ۔ باہر ایک بڑی ہائی رُف کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ ہائی رُف میں پہلے سے ہی ایک ڈرائیور بالکل چوکس گاڑی سٹارٹ کیے بیٹھا تھا۔ انہیں نے اس قدر پختہ انتظام کے ساتھ بنایا ہوا منصوبہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔وہ بنا کچھ بولے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ ان کے ساتھ وہ شخص بھی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اگلے ہی پل گاڑی ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ چلی اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ فراٹے بھرتی اُڑی جارہی تھی۔رفتہ رفتہ وہ اپنے دفتر سے دور ہو رہے تھے اور ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔تبھی اُنہیں نے ڈیل ڈول والے نوجوان کو اپنی جیب سے پرفیوم نکالتے دیکھا۔ وہ چونک اُٹھے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے ۔ اس شخص نے پرفیوم کی تھوڑی سی مقدار ان کی ناک کے پاس چھڑک دی۔ دوسرے ہی لمحے میٹھی میٹھی خوشبو ان کے دماغ میں گھس گئی۔ انہیں دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چکر نے انہیں آ گھیرااور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بے ہوشی کی وادی میں داخل ہوگئے ۔ اُن کے ساتھ بیٹھے شخص کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد کی آنکھ کھلی تووہ ایک بڑے سے ہال میں پڑے تھے ۔ ان کے چاروں طرف نیلی رنگ کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اورپھر سامنے کا منظر دیکھ کر ان کے ہوش اُڑ گئے ۔ ان کے بالکل سامنے ایک موٹی سفید رنگ کی رسی سے سادیہ کے دونوں ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے چھت سے الٹا لٹکایا گیا تھا۔وہ پوری طرح بے ہوش تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر شہباز احمد کے چہرہ سرخ ہوگیا۔آن کی آن میں انہیں شدید غصے نے آگھیرا۔ انہیں نے پوری قوت سے اُٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن وہ اپنی جسم کو ہلکی سی حرکت بھی نہ دے سکے۔انہیں نے ایک بارپھر سادیہ کی رسی کھولنے کے لئے خود کو حرکت دینے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی نتیجہ صفر ہی نکلا۔کافی دیر تک وہ برابر خود کو حرکت دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے جسم کو ہلکی سے حرکت بھی نہ دے سکے۔ آخر وہ بے بسی سے اپنی بیٹی سادیہ کو بے ہوشی کی حالت میں رسی سے اُلٹا لٹکا ہوا دیکھنے لگے۔تبھی کسی کی بھاری آواز نے انہیں چونکنے پر مجبور کر دیا۔
کیسے ہیں شہباز صاحب۔ یہ آواز اُنہیں ہال کے چاروں طرف سے آتی محسوس ہوئی۔ وہ حیران ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔
آپ کو اس وقت حیران ہونے کی نہیں پریشان ہونے کی ضرورت ہے ۔۔۔اپنی بیٹی کی حالت تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں ۔ آواز کا لہجہ مذاق اُڑانے والا تھا۔
میری بیٹی کو چھوڑ دو ورنہ میں تمہارا وہ حال کروں گا کہ تمہاری روح تک کانپ اُٹھے گی ۔ شہباز احمد غرائے۔
یہ دھمکیاں اپنے پاس ہی رکھیں ۔۔۔ اسی میں آپ کی بھلائی ہے ۔۔۔ اگر اپنی بیٹی کوچھڑانے کی ہمت ہے تو اُٹھ کر کھول دیجئے اس کی رسیاں ۔ آواز نے انہیں اکسایا۔ایل ایل بی شہباز احمد نے ایک بار پھر پوری کوشش کی کہ وہ اُٹھ کر کھڑ ے ہوجائیں لیکن اس بار بھی وہ اپنے جسم کو ہلکی سی حرکت بھی نہ دے سکے۔ شاید ان کے نصیب میں آج شکست ہی لکھی ہوئی تھی۔
میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ جو نیلی روشنی یہاں پھیلی ہوئی ہے اس نے میرے جسم سے حرکت کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے ۔۔۔ آخر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ۔۔۔صاف صاف بتاؤ۔ شہباز احمد جھلا کر بولے۔
اب آپ سیدھی لائن پر آئیں ہیں۔۔۔توسنئے ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے ایک کیس لڑیں ۔ یہاں تک کہہ کر آواز خاموش ہوگئی۔
کیسا کیس ۔ شہبازاحمد الجھن کے عالم میں بولے۔
اب تک آپ نے کئی بے گناہوں کا کیس لڑ کر انہیں رہائی دلائی ہے ۔۔۔ اب آپ کوعدالت میں ایک بے گناہ کا نہیں بلکہ ایک گناہ گار مجرم کا کیس لڑنا ہے ۔۔۔ اور امید ہے کہ اس بار بھی جیت آپ کو ہی نصیب ہوگی۔۔۔ یہ کیس آپ ہمارے لئے بلکہ نہیں!۔۔۔ یہ کیس تو آپ اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے لڑیں گے ۔ اُس آواز کے لہجے میں ہنسی تھی۔
میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔ ایل ایل بی شہباز احمد سخت لہجے میں بولے۔
تو پھرآج رات اپنی بیٹی کے جناز ے میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوجائیے ۔ اس آواز کا لہجہ انتہائی سرد تھا۔ شہباز احمد کانپ کر رہ گئے۔اس وقت وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہے تھے۔آج تک انہیں نے کبھی بھی کسی گناہ گار کا کیس نہیں لیا تھا۔ اپنے اصولوں پر و ہ کبھی بھی آنچ نہیں آنے دیتے تھے ۔ لیکن آج ایک طرف اُن کے فرائض اور اصول تھے تو دوسری طرف ان کی بیٹی۔ اس سے زیادہ بے بس وہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔
عرفان برادرز ٹیکسی میں جیسوال کے گھر کے باہرکھڑے تھے۔ایک طرف انہیں جیسوال اپنی گاڑی میں زخمی حالت میں نظر آ رہا تھا تو دوسری طرف گھر کے اندر شعلے اُٹھتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔تیسری طرف انہیں گھر سے کچھ فاصلے پر اپنے اباجان کا اسسٹنٹ منظور بھاگتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔تبھی ٹیکسی سے عرفان نے چھلانگ لگا دی۔ دوسرے ابھی اپنے حواس کو جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن یہاں عرفان ٹیکسی سے چھلانگ لگا کر منظور کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ منظور نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی تو مڑ کر دیکھا ۔دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھا۔ عرفان کو اپنے پیچھے آتے دیکھ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔چہرہ سفید پڑنے لگا۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی لیکن عرفان بھی اپنی رفتار کم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ دونوں کے بیچ فاصلہ جوں کے توں باقی تھا۔ نہ ہی عرفان اُس کے اور اپنے درمیان فاصلہ کم کر پارہا تھا اور نہ ہی منظور فاصلہ بڑھا پا رہاتھا۔یہاں یہ منظر تھاتو وہاں ٹیکسی سے سلطان بھی باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدنان اور عمران بھی باہر نکل آئے ۔ سلطان نے جب دیکھا کہ عرفان اور منظور کے درمیان کسی طرح بھی فاصلہ کم یا زیادہ نہیں ہو رہا تو اس نے زمین سے ایک پتھر اُٹھایا۔ پتھراُٹھانے کے بعد وہ اپنی بھرپور قوت سے منظور کے پیچھے بھاگنے لگا۔ عدنان عمران اور ٹیکسی ڈرائیور یہ منظر حیران ہو کر دیکھ رہے تھے ۔ سلطان کافی دیر تک منظور کے پیچھے بھاگتا رہا اور پھر اچانک اس نے پوری قوت سے پتھرعرفان کے سر کے اوپرسے منظور کی طرف پھینک دیا۔ پتھر عرفان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا منظور کے ٹھیک سرکے درمیان میں لگا۔اس کے منہ سے درد کے مارے آہ نکل گئی۔ اس کی رفتار بھی درد کی وجہ سے کم ہوگئی۔ عرفان کے لئے یہ موقع کافی تھا۔ وہ اپنی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کرتے ہوئے منظور کے سر پر پہنچ گیا۔دوسرے ہی لمحے عرفان نے ایک بھرپور ہاتھ اس کی گردن پر لگایا۔ وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح زمین پر گرااور پھر عرفان نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا ۔ آخر منظور بے دم ہو گیا۔تبھی سلطان بھی عرفان کے پاس پہنچ گیا۔
اب یہ کارنامہ کس کے سر رہا ۔ سلطان نے اپنا کولر ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
اپنے ہی سر رکھو۔ عرفان جھلا کر بولا۔
کیوں !۔۔۔ تمہارا سر کارنامہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔ سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
اب تم سے کون مغز مارے ۔ عرفان جل گیا۔
اگر مغز ہو گا تو مجھے مارو گے نہ ۔ سلطان نے چہک کر کہا۔ تبھی عدنان اور عمران بھی وہاں پہنچ گئے ۔ منظور کو دیکھ کر سب حیرت زدہ تھے۔
سمجھ نہیں آرہی کہ یہ یہاں جیسوال کے گھر کے باہر کیا کر رہا ہے ۔۔۔ اسے تو اباجان نے کسی کیس کی فائل لانے کے لئے سب انسپکٹر تنویر کے پولیس تھانے بھیجا تھا۔ عدنان حیران ہو کر بولا۔
شاید یہ منظور ہی اس دھماکے کے پیچھے ہو ۔ عمران نے سوچ کر کہا۔
ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔ فلحال تو ایمبولنس کو اور فائر بریگیڈکو فون کرنا ہے ۔۔۔ اور سب انسپکٹر تنویر کو بھی۔۔۔ تاکہ وہ یہاں موقع پر پہنچ کر ثبوت و شہادتیں اکٹھی کرلیں۔عرفان نے کہا اور موبائل فون نکال کر پہلے ایمبولنس کوپھر فائر بریگیڈ کو اور پھر سب انسپکٹر کو فون کرنے لگا۔سب سے پہلے ایمبولنس اور فائر بریگیڈ وہاں پہنچ گئے۔فائر بریگیڈوالے آگ بجھانے میں لگ گئے۔ عرفان اور دوسرے تماشائیوں کی طرح یہ منظر دیکھ رہے تھے۔یہاں ایمبولنس والوں نے جیسوال کے زخمی جسم کو اُس کی گاڑی سے باہر نکالا اور پھر اسے ایمبولنس میں ڈال کر سٹی ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۔ دوسری طرف منظور اس وقت مکمل طور پر بے ہوش تھا۔ سلطان کا پتھر اسے ٹھیک سر پر جا کرلگا تھا اور پھر عرفان کی ٹھوکریں نے اس کے رہے سہے کس بل بھی نکا ل دئیے تھے۔تبھی فائر بریگیڈ والوں نے مکمل طور پر آگ پر قابو پا لیا اور پھر وہ اندر ملبے میں دبے افراد کو نکالنے لگے۔ سب سے پہلے ان وکیلوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں ایم اے جیسوال نے اپنے بھائی کی سالگرہ کی پارٹی میں بلایا تھا۔ پھر جیسوال کے ماں باپ کی لاشیں برآمدہوئیں۔اس کے باپ پورب کمار کی آنکھوں میں زندگی کے لئے حسرت صاف دیکھی جاسکتی تھی ۔ جیسوال کی ماں کی لاش تو مکمل طور پر جل گئی تھی۔ جسم کا کوئی بھی حصہ صحیح سلامت نہیں بچا تھا۔ گلے میں موجود ہار سے یہ شناخت ہوپائی تھی کہ یہ لاش جیسوال کی ماں کی ہے۔ایک اور مکمل طور پر جھلسی ہوئی لاش بھی برآمدہوئی تھی ۔ کپڑوں سے اندازہ لگانے پر یہ شناخت ہوئی تھی کہ یہ لاش ضرور ایم اے جیسوال کے بھائی آکاش کی ہوگی۔پھر کافی دیر تک فائر بریگیڈ ٹیم اپنے کام میں سرگرم رہی لیکن کوئی اور لاش برآمد نہ ہوئی۔ کوئی زخمی شخص بھی انہیں نہ ملا۔جب تمام لاشوں کو ایمبولنس میں سرد خانے لے جانے کا انتظام ہوگیا تب سب انسپکٹر تنویر بھی وہاں پہنچ گیا۔ عرفان برادرز سے وہ کافی گرم جوشی سے ملا:۔
تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔ اور یہ دھماکا کیسے ہوا۔ سب انسپکٹر تنویز نے تفتیش کرتے ہوئے کہا۔
ہم تو اپنی بہن سادیہ کی تلاش میں تھے ۔۔۔ جب ہم ٹیکسی میں اس گھر کے پاس سے گزرے تو ایک زور دار دھماکا ہوا ۔۔۔ ہم ابھی اس گھر سے دور تھا ۔۔۔اس لئے دھماکے سے ہماری ٹیکسی متاثر نہ ہوئی۔۔۔ ہم نیچے اتر آئے اور فائر بریگیڈ ، ایمبولنس اور آپ کو فون کر دیا۔۔۔ویسے آپ نے یہاں آنے میں کافی دیر کردی۔سلطان نے آخر میں مسکرا کر کہا۔
تم تو جانتے ہی ہو ۔۔۔ہمیں بہت سے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اچھا خیر ۔۔۔ یہ شخص کو ن ہے جو زخمی پڑا ہے ۔ سب انسپکٹر تنویر نے منظور کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
یہ منظور۔۔۔۔ ابھی عرفان نے اتنا ہی کہاتھا کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے جلدی سے کال ریسیوکی تو ان کی امی کی روتی ہوئی آواز سنائی دی:۔
عرفان بیٹا۔۔۔ جلدی گھر پہنچو۔۔۔ تمہارے ابو نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔اُن کا فون بھی بند آرہا ہے۔ بیگم شہباز روتے ہوئے بولیں۔
اوہ !۔۔۔ اباجان تو دفتر میں ہی تھے ۔۔۔ خیر آپ فکر نہ کریں امی ۔۔۔ ہم بس آرہے ہیں ۔عرفان نے کہا اور فون رکھ کر جلدی سے سامنے سے آتی ایک ٹیکسی روکی۔ دوسرے ہی لمحے وہ اس میں سوار ہوگیا۔ اس کے دیکھا دیکھی عدنان عمران اور سلطان نے بھی ٹیکسی میں بیٹھنے میں دیر نہ لگائی۔دوسرے ہی لمحے ٹیکسی چل پڑی۔
لیکن یہ شخص کون ہے ۔۔۔ یہ تو بتاؤ۔ سب انسپکٹر تنویر چلا اُٹھا۔
آپ اپنے ساتھ کھڑے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ لیں۔۔۔ یہ حضرت ہی ہمیں یہاں تک لے کر آئیں ہیں اور جو کچھ ہم نے دیکھا وہ سارا کچھ انہوں نے بھی دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے ان کا بیان ہی ہمارا بیان ہے ۔ سلطان نے ٹیکسی کی کھڑکی میں سے سر نکال کر بلند آواز میں کہااور پھر وہ لمحہ بہ لمحہ سب انسپکٹر تنویر اور اس ٹیکسی ڈرائیور کی نظروں سے دور ہوتے چلے گئے اور آخر ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
امی جان نے فون پر کیا کہا۔ سلطان نے بے چینی سے پوچھا۔
اباجان اچانک کہیں چلے گئے ہیں۔۔۔پتا نہیں کہاں۔۔۔ امی جان فون پر بہت رو رہی تھیں۔ عرفان نے فکر مندی سے کہا۔یہ سن کر ان سب کے چہروں پر بھی فکر کے بادل چھا گئے ۔ اب وہ سادیہ کو بھول کر جلد از جلد اپنے اباجان کی تلاش میں نکلنے کا سوچ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد اپنے آپ بالکل بے بس محسوس کررہے تھے ۔ ایک طرف ان کی بیٹی کی زندگی تھی تو دوسری طرف ان کے اصول وفرائض جن پر انہوں نے زندگی میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔آخر کافی دیر تک بھی وہ کچھ نہ بولے تو آواز ان سے ایک بار پھر مخاطب ہوئی:۔
ہم آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔۔۔ آپ کے پانچ صرف تین سیکنڈ کا وقت ہے ۔۔۔ یہ تین سیکنڈ آپ کو فیصلہ کرنے کے لئے دئیے جارہے ہیں۔۔۔ اگر آپ نے ان تین سیکنڈوں میں بھی کوئی فیصلہ نہ کیا تو پھر ہم آپ کی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کر دیں گے۔ آواز یک لخت سخت ہوگئی۔ایل ایل بی شہباز احمد کے ماتھے سے پسینے کے قطرے بہنے لگے۔ دوسری طرف وہ آواز تین تک گنتی گننے لگی ۔
ایک ۔۔۔ ۔۔۔دو۔۔۔ ۔۔۔ اور اب آخری۔ ابھی اس نے اتناہی کہا تھا کہ شہباز احمد چلا اُٹھے۔
رک جاؤ۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے ۔۔۔ میں تمہارے لئے کیس لڑنے کو تیارہوں ۔ ایل ایل شہباز احمد کی آواز لرزرہی تھی۔
یہ ہوئی نہ بات ۔۔۔ آپ کی اس بات نے ہمیں خوش کر دیا ہے ۔۔۔ اب کیس کی تفصیل میں آپ کو سناتا ہوں۔۔۔غور سے سنتے جائیے اور اپنے دماغ میں محفوظ کرتے جائیے۔۔۔آج دوپہر تین بجے مشہور وکیل اور آپ کا پکا مخالف دشمن ایم اے جیسوال کے گھر ایک دھماکا ہوا۔۔۔ اس وقت اس کے گھر میں کئی مشہور ومعروف وکیل موجود تھے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے ماں باپ اور اس کا چھوٹا بھائی آکاش بھی اس وقت گھر میں موجود تھے۔۔۔ان کے ساتھ کیا ہوا یہ ہمیں فلحال نہیں معلوم۔۔۔اور نہ ہی ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ جو شخص بم رکھ کر وہاں سے نکلا وہ کسی بھی صورت جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچ جائے ۔۔۔ اور وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا اسسٹنٹ منظور ہے ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے اسسٹنٹ کا کیس لڑیں اور اسے رہا کرا لیں کیونکہ ہمیں خبر ملی ہے کہ پولیس نے اسے موقع واردات سے گرفتا ر کر لیا ہے ۔۔۔اب اسے بچانا آپ کاکام ہے ۔یہاں تک کہہ کر وہ آواز خاموش ہوگئی۔
میرا سسٹنٹ ایک مجرم ہے ۔۔۔ اس نے جیسوال صاحب کے گھر بم دھماکا کیا۔۔۔ لیکن میں نے تو اسے ایک کیس کی فائل لانے سب انسپکٹر تنویر کے پاس تھانے بھیجا تھا ۔ شہباز احمد حیرانگی کے عالم میں بڑبڑائے۔
یہ سب چھوڑیے ۔۔۔ اگر آپ نے یہ کیس نہ لڑا اور اسے رہائی نہ دلائی تو آپ کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں ۔ اب آواز میں سفاکی چھاگئی تھی۔ ایل ایل بی شہباز احمد اس آواز کو سن کر کانپ اُٹھے۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ ایک طرف انہیں اپنی بیٹی کی زندگی بچانی تھی تو دوسری طرف اس گناہ گار مجرم منظور کو اس کے جرم کی سزا بھی دلوانی تھی لیکن یہ دونوں کام وہ ایک ساتھ کسی صورت نہیں کر سکتے تھے۔ ان دو کاموں میں سے انہیں کسی ایک کام کا انتخاب کرنا تھا۔یا تو وہ اپنی بیٹی کی زندگی بچا لیں اور ایک گناہ گار مجرم کو رہائی دلا دیں یا پھر اس مجرم کو سزا دلوائیں جس نے معصوم جانوں کو دھماکے کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا تھا اور اپنی بیٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں۔ ایل ایل بی شہباز احمد کے ماتھے کی شکنیں گہری ہوتی جارہی تھیں اور وہ خود کو زندگی اور موت کی کشمکش میں محسوس کر رہے تھے۔
عرفان برادرز ٹیکسی میں بیٹھے اپنے گھر کی طرف اُڑے جارہے تھے۔ان سب کی آنکھوں میں پریشانی کی لہر یں موجھیں مار رہی تھیں۔اپنے اباجان کے اچانک غائب ہوجانے کی خبر نے ان کے ہوش اُڑا کر رکھ دئیے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کے اباجان تو دفتر میں ہی تھے پھر اچانک وہ کہاں چلے گئے؟پھر ان کا فون کیوں بند آرہا ہے؟سوال ہی سوال ان کے ذہنوں میں گونج رہے تھے ۔ ان کی سب کی زبانیں بالکل خاموش تھیں۔ آج سلطان کی بھی زبان بند ہو گئی تھی۔ وہ بھی کافی فکر مند دکھائی دے رہا تھا۔آخر ان کی ٹیکسی گھر کے سامنے آکر رک گئی۔ وہ سب ٹیکسی سے نیچے اُتر آئے ۔ کرایہ ادا کر کے ٹیکسی کو چلتا کیا اور گھر کے بالکل ساتھ ہی بنے دفتر کی طرف بڑھے۔دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں حیرت و خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کے اباجان دفتر کے دروازے کی سیڑھیوں پر بے ہوش پڑے تھے۔وہ فوراً ایل ایل بی شہباز احمد کی طرف بڑھے۔ انہیں ہلایا۔ گال پر تھپکی دی۔ ان کی سانسوں کی آمدورفت چیک کی۔ آخر سلطان دفتر کے اندر گیا اور پانی کی بوتل اُٹھا لایا۔ پانی کے چھینٹے مارنے پر شہباز احمد نے آنکھیں کھول دیں۔وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔
میں یہاں کیسے آگیا ۔ شہباز احمد کی آنکھوں میں زمانے بھر کی حیرت تھی۔
یہ سوال تو ہم بھی آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں اباجان ۔ عرفان نے جلدی سے کہا۔
میں آخری وقت کہاں تھا۔۔۔ میں ۔۔۔ اوہ!!! ۔ ایل ایل بی شہباز احمد چونک اُٹھے۔ انہیں یاد آگیا کہ آخری وقت وہ ایک ہال میں پڑے ایک اجنبی آواز سے باتیں کر رہے تھے جو انہیں جیسوال کے گھر بم دھماکے کے مجرم منظور کا کیس لڑنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ان کے سامنے سادیہ بھی بے ہوش اُلٹی لٹکی ہوئی تھی۔یہ سب سوچ کر ایل ایل بی شہباز احمدکا چہرہ سفید پڑتا لگا۔ وہ خوف کے عالم میں اپنی ہی پسینے میں غوطے کھانے لگا۔ ان کے بچے ان کی ایسی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے:۔
اباجان ضرور چکر کھا کر بے ہوش ہوگئے ہونگے۔۔۔ان کی حالت بہت خراب نظر آرہی ہے ۔۔۔ جلدی سے انہیں ہسپتال لے چلتے ہیں ۔ عدنان نے تجویز پیش کی۔
میرا خیال ہے انہیں اپنے کمرے میں بستر پر لٹاکر ڈاکٹر کو گھر بلا لیتے ہیں۔۔۔ یہ زیادہ مناسب رہے گا ۔ عرفان نے مشورہ دیا جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر عرفان اور سلطان نے ایل ایل بی شہباز احمد کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے اور انہیں اُٹھا کر اپنے کندھے کے سہارے گھر کے اندر لے گئے۔دوسری طرف عدنان اور عمران ڈاکٹر کو لینے ہسپتال چلے گئے ۔جب ڈاکٹر آیا تو شہباز احمد کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی البتہ خوف اب بھی ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ ڈاکٹر نے آکر ان کی نبض چیک کی ۔ آنکھیں کے پپوٹے ہلائے پھر دل کی دھڑکن چیک کرنے کے بعد ان سب کی طرف مڑا:۔
انہیں نے بہت زیادہ ذہنی دباؤ لے لیا ہے۔۔۔ کوئی ایسی بات ہوئی ہے جس نے انہیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔ بہرحال میں کچھ دوا ئیاں دے رہا ہوں۔۔۔ اور نیند کا انجکشن بھی لگا دیتا ہوں ۔۔۔امید ہے یہ کل صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر نے یہ کہتے ہوئے پرچی میں کچھ دوائیاں لکھ دیں۔ عرفان نے اشارہ کیا تو عدنان اور عمران میڈیکل اسٹور سے دوائیاں لینے چلے گئے۔ پھر ڈاکٹر نے ایک انجکشن تیار کیا اور شہبازاحمد کے ہاتھ پر انجکشن لگا دیا۔پانچ منٹ کے اندر ہی انہیں گنودگی آئی اور پھر وہ بے خبر نیند کے مزے لینے لگے۔ عرفان اور سلطان ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے آئے ۔ ڈاکٹر جب جانے لگا تو سلطان بولے بغیر نہ رہ سکا:۔
لیکن ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ ہم نے تو اباجان کو ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے ان کی حالت اس حد تک کشیدہ ہو جاتی ۔ سلطان نے الجھن کے عالم میں کہا۔
بعض اوقات مریض کے ذہن میں کچھ پرانی یادیں بھی آجاتی ہیں جس سے وہ یک دم پریشان ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس کاخون کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے جس وجہ سے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے ۔۔۔ شاید آپ کے اباجان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو ۔ ڈاکٹر نے وضاحت کی جس پر سلطان اور عمران نے سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر کو چھوڑ کر آنے کے بعد جب وہ واپس کمرے میں آئے تو ان کے اباجان بالکل بے خبر سو رہے تھے ۔ ان کے بالکل ساتھ ہی کرسی پر بیٹھی بیگم شہباز اپنے شوہر کو فکرمندی کے عالم میں دیکھ رہی تھیں۔
امی اب آپ فکر نہ کریں۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے معمولی سی بات ہے ۔۔۔ اباجان کل صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ عرفان نے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
پتا نہیں انہیں اچانک کیا ہوگیا۔۔۔ ابھی دوپہر کو تو بالکل آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھے فائلوں کا مطالعہ کررہے تھے ۔۔۔ پھر یہ اچانک غائب ہوگئے اور پھر تم لوگوں کو دفتر کی سیڑھیوں پر بے ہوش ملے۔۔۔ آخر یہ کہاں گئے تھے اور یک دم انہیں چکر کیسے آگیا ۔ بیگم شہباز اب بھی پریشان تھیں۔
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کبھی کبھی کچھ پرانی یادیں بھی ذہن کو پریشان کر دیتی ہیں ۔۔۔ اور دوسری بات آج کل گرمی بھی بہت ہے اس لئے گرمی کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔۔۔ اباجان کہاں گئے تھے اس کا جواب تو فلحال ہمارے پاس بھی نہیں ۔۔۔بہرحا ل جو بھی ہو ۔۔۔ اس وقت فکر کی کوئی بات نہیں ۔ سلطان نے مسکرا کر کہا۔ تبھی عمران اور عدنان میڈیکل اسٹور سے دوائیاں بھی لے آئے ۔ دوائیاں ایل ایل بی شہباز احمد کے بستر کے ساتھ پڑی میز پر رکھ دی گئیں اور پھر وہ سب ان کے آرام میں خلل نہ پڑے اس غرض سے کمرے سے باہر آگئے ۔ آج کا یہ پورا دن یونہی گزر گیا تھا۔ ان کی بہن کا بھی انہیں کوئی سراغ نہیں ملا تھا اور اب آتے ہی انہیں اپنے اباجان بے ہوشی کے عالم میں ملے تھے۔پورے دن سے اب جا کر انہیں کچھ سوچنے کی فرصت ملی تھی۔
سمجھ نہیں آرہی کہ یہ اچانک اس قدرہنگامے کیسے شروع ہوگئے ۔۔۔ پہلے سادیہ کا اپنی سہیلی کے گھر جانا لیکن راستے میں ہی غائب ہو جانا۔۔۔پھر ایم اے جیسوال کے گھر دھماکا۔۔۔اور پھر منظور کا وہاں موجود ہونا۔۔۔اب اب اباجان کا اچانک غائب ہو جانا اور پھر بے ہوش حالت میں ہمیں دفتر کی سیڑھیوں پر ملنا۔۔۔ ان سب واقعات کے درمیان کوئی نہ کوئی ربط تو ضرور ہے اور یہ ربط ہی ہمیں معلوم کرنا ہے ۔ عدنان بولتا چلا گیا۔
اس ربط کو معلوم کرنے کے لئے اپنے اندر تھوڑا ضبط بھرنا ہوگا اور ہمیں کل صبح تک کا انتظار کر ناہوگا۔۔۔ اب جو ہوگا وہ کل ہی ہوگا ۔ سلطان نے مسکرا کرکہا۔
اس قدر اہم معلومات دینے کے لئے بہت بہت شکریہ ۔ عرفان نے جل کر کہا۔
شکر یہ کہہ کر شرمندہ مت کیجئے ۔ سلطان شوخ لہجے میں بولا جس پر وہ سب اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھنے لگے۔
میرا خیال ہے دھماکے کی خبر ٹی وی پر آ رہی ہوگی۔۔۔ شاید وہاں سے کچھ اہم معلومات مل جائیں جو ہمارے کام آ سکیں ۔ عمران نے تجویز پیش کی جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر سلطان اُٹھا اور اس نے ٹی وی کھول کر نیوز چینل لگایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب چونک اُٹھے۔نیوز چینل کے کیمرے اور اینکر اس وقت ایم اے جیسوال کے پاس سٹی ہسپتال کے کمرے میں کھڑے تھے اور اس کا انٹرویو لیا جا رہا تھا۔ان سب کی نظریں ٹی وی سکرین پر جم کر رہی گئیں۔
آپ جیسے مشہور وکیل کے گھر دھماکا کیسا ہوگیا۔۔۔ آپ کوکیا لگتا ہے ۔۔۔ کس نے یہ دھماکا کروایا ہے ۔ نیوز اینکر نے سوال کیا۔
میرے کسی دشمن کی یہ حرکت ہو سکتی ہے ۔۔۔ بہرحال میں نے تو وہاں ایل ایل بی شہباز احمد کے اسسٹنٹ منظور کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ حرکت انہیں کی ہو ۔جیسوال نے ہچکچاہٹ سے کہا۔
لیکن ایل ایل بی شہباز احمد آپ کے گھر دھماکا کیوں کروائیں گے۔۔۔ انہیں آپ سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے ۔ نیوز اینکر حیران ہو کربولا۔
میرے پاس کوئی وجہ نہیں ہے اس لئے میں اب تک پورے یقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ شہباز صاحب ہی اس دھماکے کے پیچھے ہیں۔۔۔ البتہ ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے اسسٹنٹ کو میں نے دھماکے سے عین دو منٹ پہلے اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے اس دھماکے میں ان کے اسسٹنٹ کا تو ضرور ہاتھ ہے ۔ جیسوال نے پر یقین لہجے میں کہا۔
کیا آپ عدالت میں شہباز احمد کے اسسٹنٹ کے خلاف کیس دائر کریں گے ۔ اینکر نے تجسس سے کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ بالکل ۔۔۔ بلکہ میں نے تو اپنے اسسٹنٹ کے ذریعے کیس دائر کر بھی دیا ہے ۔۔۔دھماکے سے دو منٹ پہلے اُسے بھاگتے ہوئے نہ صرف میں نے بلکہ ایک ٹیکسی کے ڈرائیور نے اور خود ایل ایل بی شہباز احمد کے بچوں نے بھی دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے میرامقدمہ عدالت میں بہت مضبوط ہے اور جو بھی وکیل میرے خلاف ہوگا اسے میں پانچ منٹ میں شکست دے دوں گا ۔ جیسوال نے مسکرا کرکہا۔
ہمارے ساتھ بات کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔اور ناظرین اب ہم ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد ملتے ہیں ۔ نیوز اینکر نے جیسوال سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اورپھر اشتہار بازی شروع ہوگئی ۔ عرفان برادرز نے ٹی وی بند کر دیا اور سوچ میں پڑ گئے کہ منظور نے یہ حرکت کیوں کی ہوگی؟پھر سادیہ کو کس نے اغوا کیا ہے اور کیا اس کے اغوا کا اس کیس سے کوئی تعلق ہے ؟اور پھر ایل ایل بی شہباز احمد کی حالت اس قدر خراب کیوں ہوگئی ہے اور وہ اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے؟یہ سب سوال ان کے ذہنوں میں کھلبلی مچانے لگے اور انہیں اپنے دماغ پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
صبح عرفان برادرز کی آنکھ کھولی تو وہ چونک اُٹھے ۔ ایل ایل بی شہباز احمد ان سے پہلے ہی جاگے ہوئے تھے اور اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھے ۔ عرفان بردراز آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے اور منہ ہاتھ دھو کر باہر برآمدے میں آئے اورتوانہیں نے اپنی امی کو باورچی خانے میں اصلی گھی میں ڈوبے ہوئے گرم گرم پراٹھے بناتے ہوئے دیکھا۔ پراٹھوں کی خوشبو ان کی سانسوں میں گئی تو بے اختیار ان کی بھوک میں اضافہ ہوگیا البتہ شہباز احمد کی نظریں اخبار سے باہر کو نہ اُٹھیں۔ انہیں نے ایک بار بھی نہ ناشتے کی طرف دیکھا اور نہ ہی عرفان بردرز کی طرف۔جب تک وہ سب ناشتہ کرتے رہے شہباز احمد اخبار پڑھتے رہے ۔ جب انہوں نے ناشتہ مکمل کر لیا تو شہباز احمد اخبار رکھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک سرد آہ بھری:۔
آہ!!!۔۔۔ بیگم میں کسی کام سے باہر جا رہا ہوں ۔۔۔ ناشتہ آکر کرلوں گا‘‘ شہباز احمد نے دروازے سے ہی اونچی آواز میں کہا اور پھر گھر سے باہر نکل گئے ۔ عرفان عدنان عمران اور سلطان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ اچانک ایل ایل بی شہباز احمد کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ فوراً اخبار کی سمت گئے اور اخبار کھول کر پڑھنا شروع کیا ۔ دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر وہ حیران رہ گئے تھے۔ خبر کے الفاظ تھے:۔
ایم اے جیسوال کا ایل ایل بی شہباز احمد کو کھلا چیلنج ۔۔۔ ایم اے جیسوال کا کہنا ہے کہ اگر شہباز احمد میں دم ہے تواپنے اسسٹنٹ منظور کا کیس لے کر دکھائیں۔۔۔ انہیں نے شہباز احمد کو صرف آج شام تک کا وقت دیا ہے کیونکہ کل صبح عدالت میں بم دھماکا کیس کی سنوائی شروع ہو جائے گی ۔۔۔ یاد رہے کہ کل شام کومشہور وکیل جیسوال کے گھر زبردست دھماکا ہوا تھا اور دھماکے کے بعد شہباز احمد کے اسسٹنٹ منظور کو وہاں سے بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا گیا تھا ۔۔۔ کل شام کو ہی پولیس نے منظور کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تھا۔۔۔ اب اس کیس میں آگے کیا ہوگا یہ جاننے کے لئے سب ہی بے چین ہیں‘‘ ۔ مکمل خبر پڑھ کر وہ حیرت کا بت بنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اپنے والد کا بیماری کی حالت میں بھی صبح جلدی اُٹھ کر اخبا ر پڑھ کر گھر سے نکل جانا انہیں سمجھ نہیں آیا تھا اور اب اخبار کی اس خبر نے انہیں اور زیادہ بے چین کردیا تھا۔ شام تک وہ گھر میں بے چینی کے عالم میں اپنے اباجان ایل ایل بی شہباز احمد کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہ آئے ۔ آخر رات کو دس بجے کے قریب جب وہ گھر میں داخل ہوئے توتھکاوٹ ان کے چہر ے سے نظر آرہی تھی۔ وہ تھکے تھکے انداز میں بنا کچھ بولے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے ۔ عرفان اور دوسرے ان کے کمرے میں آئے تو انہیں نے دیکھا کہ شہباز احمد اپنے بستر پر نیم دراز بے خبر گہری نیند سو چکے ہیں ۔ انہوں نے آکر کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ بیگم شہباز بھی ان کا کھانا کے وقت انتظار کرتی رہی تھیں لیکن انہوں نے گھر آکر کھانا کھانے کے بجائے سونے کو ترجیح دی تھی۔ بیگم شہباز پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھنے لگیں۔
امی جان ۔۔۔ پریشا ن نہ ہوں۔۔۔ کل صبح اباجان سے ساری پوچھ گچھ کر لیں گے‘‘ سلطا ن نے مسکرا کر کہا جس پر وہ سب بھی زبردستی مسکرا دئیے۔صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو ایک بار پھر انہوں نے اپنے اباجان کو اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے پایا۔ وہ فوراً منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر آئے ۔ اس سے پہلے کہ وہ شہباز احمد سے کچھ پوچھ پاتے وہ خود ہی بو ل اٹھے:۔
جلدی جلدی ناشتہ کرلو ۔۔۔ پھر میرے ساتھ عدالت چلنا ہے ۔۔۔آج بم دھماکا کیس کی پہلی سنوائی ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد کے چہرے پر تھکی تھکی مسکراہٹ تھی۔ان کی اس مسکراہٹ نے ان لوگوں سے ہر سوال کرنے کا موقع چھین لیا تھا۔ ان کی زبانوں کو جیسے تالے لگ گئے۔وہ چپ چاپ ناشتہ کرنے لگے۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے بھی دو تین لقمے لئے اور پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عرفان برادرز نے بھی اُٹھ کر ہاتھ دھوئے اور جانے کے لئے بالکل تیا ر ہوگئے۔شہباز احمد نے اپنی بیگم کی طرف الوداعی نظروں سے دیکھا اور گھر سے باہر نکل گئے ۔ عرفان برادرز نے بھی دیر نہ لگائی۔شہباز احمد نے اپنی گاڑی نکالی۔ عرفان برادرز کو ساتھ لیا اورسٹی کورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔راستے میں ایل ایل بی شہباز احمد کی نہایت سخت آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:۔
کل تم لوگوں نے جیسوا ل صاحب کے گھر کیا دیکھا تھا‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد کی اس آواز نے ان کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑا دی ۔ان کے جسم تھرا گئے کیونکہ آج تک انہوں نے اس لہجے میں ان سے بات نہیں کی تھی۔
ہم نے دھماکے کے ٹھیک دو منٹ پہلے منظور کو انکل جیسوا ل کے گھر کے باہربدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔اس کے بعد ہم نے اسے پکڑ لیا اورسب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔میں نے اس کے سر پر پتھر مار کر اسے بے ہوش کر دیا تھا‘‘ سلطان نے بڑی مشکل سے الفاظ ادا کئے ۔ آج اس سے بھی بات نہیں کی جارہی تھی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔اب جو میں کہہ رہا ہوں تم نے عدالت میں وہی بیان دینا ہے ۔۔۔ تم نے کل منظور کومعمول کے مطابق رفتار کے ساتھ جیسوال صاحب کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔تمہیں غلط فہمی ہوگئی کہ وہ اس دھماکے میں شامل ہے۔۔۔ لہٰذا تم نے اسے زخمی کر دیا ۔۔۔ وہ بے چارہ چلا چلا کر اپنی بے گناہی کا اعلان کرتا رہالیکن تم نے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا اور پھر سب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔ سمجھ گئے ‘‘ ایل ایل بی شہبا ز احمد سرد لہجے میں بولے جس پر انہوں نے حیران ہو کر انہیں دیکھا۔ لیکن شہباز احمد نے انہیں بری طرح گھور کر دیکھا جس پر وہ سہم گئے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔عدالت پہنچے تو ایم اے جیسوال کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ شہباز احمد اس کے قریب گئے اور خود بھی مسکرا کر اسے دیکھنے لگے:۔
آج تو میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ یہ کیس میں پانچ منٹ کے اندر اندر جیت جاؤں گا۔۔۔ بلکہ آج تو آپ کا چہرہ بھی اپنی شکست کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے‘‘ ایم اے جیسوال کے لہجے میں شوخی تھی۔
میرا چہرہ تو کسی اور وجہ سے مایوس دکھائی دے رہا ہے جیسوال صاحب۔۔۔ وہ وجہ آپ نہیں سمجھیں گے ۔۔۔بہرحال اس کیس میں میری فتح اورآپ کی شکست لکھی جا چکی ہے۔۔۔اور ساتھ میں سچائی کی بھی شکست لکھی جا چکی ہے‘‘یہ کہتے ہوئے شہباز احمد کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ جیسوال حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔تبھی جج صاحب کی آمد کا اعلان کیا گیا اور جج شکیل الرحمان عدالت میں داخل ہوگئے اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ اونچی آوا زمیں بولے:۔
کیس کی کروائی شروع کی جائے ‘‘ جج صاحب نے حکم دیتے ہوئے کہا۔
جج صاحب۔۔۔ یہ کیس خود میرے گھر کا ہے ۔۔۔ پرسوں سوموار کے دن دوپہر کو میرے گھر پر میرے بھائی آکاش کی سالگرہ کی پارٹی تھی ۔۔۔ میں نے بڑے بڑے وکیلوں کو بلایا ہوا تھا۔۔۔ پارٹی اپنے عروج پرتھی کہ مجھے کسی کام سے گھر سے باہر جانا پڑ گیا۔۔۔ جب میں گاڑی نکال کر گھر کے صدر درواز ے سے نکل رہا تھا تومیں نے شہباز صاحب کے اسسٹنٹ منظور کو اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔ ابھی میں حیرت زدہ ہی تھا کہ ایک زبردست دھماکا ہوا اور میری گاڑی الٹ گئی۔۔۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔۔۔ اس لئے سب سے پہلے شہبازصاحب کے مؤکل منظور کے خلا ف پہلا گواہ میں خود ہی ہوں‘‘یہ کہتے ہوئے جیسوا ل مسکرا اُٹھا۔
اس طرح تو منظور کے حق میں پہلا گواہ میں بھی خودہی ہوں کیونکہ میں نے ہی اسے سب انسپکٹر تنویر کے پاس کسی کیس کی فائل لانے بھیجا تھا۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کا تھانے اور میرے گھر کے درمیان آپ کا گھر ہے اس لئے اس کا آپ کے گھر کے پاس سے گزرنا لازمی تھا‘‘شہبا زا حمد نے دلیل دی۔
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ نے اسے سب انسپکٹر تنویر کے پاس کسی فائل کیلئے بھیجا تھا‘‘ جیسوال نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
تو پھر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ نے میرے مؤکل کو اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا‘‘شہباز احمد نے پلٹ کر ترکی بہ ترکی جوا ب دیا۔
میرے پاس گواہ موجود ہے شہباز صاحب۔۔۔اس وقت ایک ٹیکسی ڈرائیور بھی وہاں موجود تھا۔۔۔ میں ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے جیسوا ل نے جج صاحب کی طرف دیکھا۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے کہا جس پر ٹیکسی ڈرائیور کاشف کٹہرے کی طرف آیا۔ اس نے قسم کھائی کہ سچ کے سوا کچھ نہ کہے گا۔پھر جیسوال اس کی طرف مڑا۔
آپ نے پرسوں دوپہر کوکیا دیکھا۔۔۔ عدالت کو تفصیل سے بتائیے‘‘جیسوال نے نرم لہجے میں کہا۔
میں پرسوں ایل ایل بی شہباز احمد کے بچوں کو اپنے ٹیکسی میں بٹھائے لے جا رہا تھا کہ راستے میں اچانک ایک زبردست دھماکا ہوگیا۔۔۔میر ی ٹیکسی ابھی دور تھی اس لیے وہ دھماکے کے بارود سے بچ گئی۔۔۔ دھماکے کے بعد میں نے اِس منظور کو وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔ابھی میں پریشان ہی تھا کہ شہبا ز احمد کا ایک لڑکا ٹیکسی سے اُترا ۔۔۔اس کے پیچھے دوسرا لڑکا اُتر ا۔۔۔ اورپھر ان دونو ں نے منظور کو پکڑکر قابو کیا اور اسے مار مار کر بے د م کر دیا۔۔۔پھرانہوں نے سب انسپکٹر تنویر کو فون کیا تو وہ وہاں آئے اور پھر منظو ر کو سب انسپکٹر صاحب کے حوالے کر دیا گیا‘‘ ڈرائیور کاشف نے ساری روداد سنا دی۔
یعنی کہ اس وقت شہباز صاحب کے بچے بھی وہاں تھے ۔۔۔ بہرحال ان کابیان لینے کیلئے ہم انہیں بعد میں کٹہرے میں بلائیں گے۔۔۔ پہلے میں ڈرائیور کاشف کی بیان کی تصدیق کے لئے سب انسپکٹر تنویر کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتاہوں‘‘جیسوال نے جج صاحب کی طرف اجاز ت طلب نظروں سے دیکھا۔
اجازت ہے ‘‘جج صاحب نے سر ہلا کر کہا۔ سب انسپکٹر تنویر کے کٹہرے میں آئے تو جیسوال نے ان سے سوالات شروع کئے۔
کیا ڈرائیور کاشف کا بیان درست ہے‘‘ جیسوال نے مختصر لفظوں میں سوال کیا۔
جی ہاں۔۔۔شاید ایسا ہی ہوکیونکہ میں جب وہاں پہنچا تو منظور بے ہوش پڑا ہوا تھا ۔۔۔ ایل ایل بی شہباز احمد کے بچے وہاں کھڑے تھے اور میرا انتظا ر کر رہے تھے۔۔۔ جب میں نے منظور کے بارے میں ان سے پوچھا تو اسی وقت ان کے گھر سے فون آگیا۔۔۔وہ بناکچھ کہے ایک ٹیکسی میں بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔۔۔ جب میں نے جاتے جاتے ان سے دوبارہ منظور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو بیان ڈرائیور کاشف کا ہے وہی بیان ہمارا ہے ‘‘ یہاں تک کہہ کر سب انسپکٹر تنویر خاموش ہوگیا۔
اس کا مطلب ہے جو بیان ڈرائیور کاشف نے دیا ہے وہی بیان شہباز صاحب کے بچوں کا بھی ہے ۔۔۔ یعنی انہوں نے بھی منظور کو دھماکے کے وقت بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا تھااور پھر اس کا پیچھا کر کے اسے بے ہوش کر دیا تھا۔۔۔کیوں شہباز صاحب ۔۔۔ کیا میں صحیح ہوں یا میں صحیح ہوں‘‘ایم اے جیسوال نے مسکرا کر شہباز احمد کی طرف دیکھا۔
نہیں !۔۔۔ میراخیال ہے عدالت ان کا بیان لازمی سننا پسند کرئے گی۔۔۔ میں جج صاحب سے انہیں ایک ایک کر کے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘یہ کہتے ہوئے شہباز احمد جج صاحب کی طرف مڑے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے‘‘ جج صاحب نے ہامی بھرلی۔ عرفان اپنی کرسی سے اُٹھا اور کٹہرے میں آکھڑا ہوا۔ جب اس سے قسم لی گئی تو وہ پریشان ہو کر شہبا زاحمد کی طرف دیکھنے لگا لیکن ایل ایل بی شہباز احمد نے اپنا منہ پھیر لیا۔پھر آگے بڑھ کر بولے:۔
ہاں عرفان ۔۔۔بتاؤ ۔۔۔ کیا تم نے بھی منظور کو بھاگتے ہوئے دیکھا تھا‘‘ شہباز احمد نے نرم لہجے میں کہا لیکن اندر سے وہ کافی غضب ناک دکھائی دے رہے تھے۔ عرفان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ پھر اس کی زبان نے حرکت کرنا شروع کیا:۔
ہم نے کل منظور کومعمول کے مطابق سست رفتار کے ساتھ جیسوال صاحب کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ہمیں غلط فہمی ہوگئی کہ وہ اس گھر میں دھماکا کرکے بھاگ رہا ہے۔۔۔ لہٰذاہم نے اسے زخمی کر دیا ۔۔۔ وہ بے چارہ کر اپنی بے گناہی کے لئے چلاتا رہارہا لیکن ہم نے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا اور پھر سب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ عرفان نے وہی الفاظ دھرا دئیے جو ایل ایل بی شہبا ز احمد نے اسے بولنے کا کہے تھے۔جیسوال حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔پھر سلطان عدنان اور عمران کو بھی بلایا گیا۔ انہوں نے بھی وہی الفاظ دھرا دئیے ۔ اب تو جیسوا ل کاحیرت کے مارے برا حال ہو گیا۔ اسے یقین تھا کہ شہباز احمد کے بچے کسی بھی حالت میں جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شہباز احمد نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تربیت دی ہے لیکن آج ان کے بچے بھی جھوٹی گواہی دے رہے تھے۔تبھی اسے ایک زبردست جھٹکا لگا۔ اسے عدالت میں آتے ہوئے شہباز احمد کی وہی بات یاد آگئی کہ آج سچائی ہار جائے گی۔ جیسوال کا چہرہ پسینے سے بھر گیا دوسری طرف ایل ایل بی شہباز احمد بھی سچ کے راستے کو چھوڑ کر بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے۔
جیسوال کی آنکھوں میں زمانے بھر کی حیرت تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایل ایل بی شہباز احمدکے بچوں نے عدالت میں اس کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی ہے۔ دوسری جگہ ایل ایل بی شہباز احمد بھی کچھ پریشان نظر آرہے تھے لیکن پھر انہوں نے اپنے چہرے کو سنبھالتے ہوئے اُس پر طنزیہ مسکراہٹ طاری کرلی:۔
اب آپ کیا کہیں گے جیسوال صاحب ‘‘ شہباز احمد مسکر اکر بولے۔
مم۔۔۔ میں ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو دوبارہ کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘ جیسوال نے اہل ایل بی شہباز احمد کی بات کا جواب دینے کی بجائے حواس بحال کرتے ہوئے جج صاحب سے کہا۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے باآواز بلند کہا۔دوسرے ہی لمحے ٹیکسی ڈرائیو ر کاشف حیرت کا بت بنے کٹہرے میں آیا۔
کیا شہباز صاحب کے بچوں کا بیان درست ہے ۔۔۔ اور اگر ان کا بیان درست ہے تو پھر آپ نے جھوٹ کیوں بولا‘‘ جیسوال نے تھکے تھکے انداز میں سوا ل کیا۔
میں بالکل سچ بول رہا ہوں ۔۔۔ نہ جانے کیوں ایل ایل بی شہباز احمد کے بچے جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔ وہاں پر ہم نے منظور کو صاف طور پر گھر کے پاس بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھے تھا۔۔۔ میں بھلا اس سلسلے میں کیا کہہ سکتاہوں کہ وہ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے بسی سے کہا۔
جھوٹ وہ نہیں جھوٹ آپ بو ل رہے ہیں ۔۔۔ آپ نے وہاں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔۔۔ مان جائیے ورنہ عدالت میں جھوٹی گواہی آپ کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے ‘‘ شہباز احمد کٹہرے کی طرف آتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولے۔
ہو سکتا ہے شہباز صاحب ۔۔۔ جھوٹ آپ کے بچے بول رہے ہوں اور اس جھوٹی گواہی دینے کے لئے آ پ نے ان پر دباؤ ڈالاہو‘‘ جیسوال نے مسکرا کر کہا۔
ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔آپ کے پاس صرف ایک گواہ ہے جبکہ میرے پاس چارگواہ ہیں۔۔۔ آپ کا ایک گواہ جھوٹ بول سکتا ہے لیکن میرے چار گواہ میر ے بچے جھوٹ نہیں بو ل سکتے‘‘ شہباز احمد قدرے بوکھلا کر بولے۔
عدالت آپ کے بچوں کی گواہی بھلا کیسے مان لے ۔۔۔ آپ کے بچے تو آپ کے حق میں ہی گواہی دیں گے‘‘ جیسوال نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
شاید آپ بھول رہے ہیں جیسوال صاحب کہ میرے بچے قومی شناختی کارڈرکھتے ہیں اور ان کا باقاعدہ ایک رجسٹرڈ ادارہ عرفان برادرز کے نام سے پرائیوٹ جاسوسی کے فرائض انجام دے رہا ہے ۔۔۔ اس لئے ان چاروں کی گواہی الگ الگ قانونی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔ اور دوسری بات کہ ٹیکسی ڈرائیو رکے بیان سے بھی صرف اتنا ہی پتاچلتا ہے کہ منظور دھماکے کے بعد وہاں سے بھاگ رہا تھا۔۔۔ لیکن گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگایہ بیان تو خود ڈرائیور کاشف کا بھی نہیں۔۔۔ لہٰذا آپ کا یہ گواہ ادھورا سمجھا جائے گا اور اس ادھورے گواہ پر عدالت منظور کو کوئی سزا نہیں سنا سکتی ۔۔۔ کیا آپ میری بات سے متفق ہیں جج صاحب‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد جج صاحب کی طرف مڑے۔
شہباز صاحب کی بات درست ہے جیسوال صاحب۔۔۔ عدالت ایک ادھورے گواہ پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔۔۔ دھماکے کے بعد تو بھاگنا ایک فطرتی عمل ہے ۔۔۔ کوئی شخص بھی دھماکا دیکھ کر کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ اگر آپ کے پاس کوئی اورگواہ یا ثبوت ہے تو آپ پیش کر سکتے ہیں‘‘ جج صاحب نے غیر جانب دارانہ انداز میں کہا۔
افسوس!!!۔۔۔ اس وقت میرے پاس کوئی اورثبوت یا گواہ نہیں لیکن میں عدالت سے ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے کچھ وقت کی درخواست کرتا ہوں‘‘ جیسوال نے سرد آہ بھرتے ہوئے عاجزی سے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ عدالت آپ کو کل دوپہر تک کا وقت دیتی ہے ۔۔۔ اب اس کیس کو مزید آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔۔۔ اس لئے اگر آپ کل تک کوئی ثبوت یا گواہ پیش نہ کر سکے تو عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔۔۔ عدالت کل تک کے لئے ملتوی کی جاتی ہے‘‘یہ کہتے ہوئے جج صاحب نے لکڑی کی پلیٹ پر ہتھوڑا مارا اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ان کے عدالت سے جانے کے بعد باقی لوگ بھی اپنی کرسیوں سے اُٹھے اور باہر نکل گئے۔ شہباز احمد بھی وہاں کھڑے نہ رہ سکے ۔ اپنے بچوں سے جھوٹی گواہی دلوانے کے بعد ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ جیسوال کی تیز آنکھوں کا سامنا کر سکتے۔ جیسوال کافی دیر تک کھویا کھویا اپنی کرسی پر بیٹھا رہا اور آخر اسے بھی کمرہ عدالت سے نکلنا ہی پڑا۔ شہبا ز احمد نے اپنے بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر گاڑی دوڑانے لگے۔ راستے بھر وہ بالکل خاموش رہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیاہو۔ گھر پہنچ کر ایل ایل بی شہباز احمد نے فوراً اپنے کمرے کا رخ کیا اور عرفان برادرز نے اپنے کمرے کا!۔ بیگم شہباز شہباز احمد کے کمرے میں ان کے احوال پوچھنے چلی گئی ۔ یہاں عرفان اوردوسرے اپنے کمرے میں کھوئے کھوئے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے:۔
آج کی سنوائی سے ایک بات باکل ثابت ہو جاتی ہے کہ انکل جیسوال جھوٹ نہیں بول رہے۔۔۔ منظور اس دھماکے میں ضرور شامل ہے لیکن اگر کل بھی وہ کوئی ثبوت یا گواہ پیش نہ کر سکے تو عدالت منظور کو رہا کر دے گی‘‘ عرفان نے سوچتے ہوئے کہا۔
ان حالات میں ہمیں بھی جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا ۔۔۔ مجھے تو احمد ندیم قاسمی کا وہ شعر یاد آرہا ہے ۔۔۔
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو۔۔۔
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے۔۔۔
حکم ہے کہ سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیم ۔۔۔
زخم کو زخم نہیں پھول بتایا جائے‘‘سلطان نے شاعرانہ مزاجی سے کہا۔
ہمیں اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہی ہوگا۔۔۔ میں کسی صورت نہیں ما ن سکتا کہ اباجان ہمیں جھوٹ بولنے پر مجبور کریں گے ۔۔۔ضرور کوئی اور معاملہ ہے۔۔۔ اور پھر مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ سادیہ کے اغوا والا چکر اور یہ چکر الگ الگ نہیں بلکہ کسی ایک ہی دماغ کی ساز ش ہے‘‘ عدنان نے اپنے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہا۔
بے چاری امی جان تو سادیہ کے بارے میں کچھ پوچھ ہی نہ سکیں۔۔۔ پرسوں سے سادیہ غائب ہے ۔۔۔ نہ ہم اباجان سے اس موضوع پر کوئی بات کر پائے اور نہ ہی امی جان سے ۔۔۔اباجان کا سادیہ کی فکرنہ کرنااور اس کیس میں الجھ جانا ہی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سادیہ کے اغواوالا معاملہ بھی اس کیس سے جڑا ہواہے‘‘ عمران نے پر یقین لہجے میں کہا۔
اب ہمیں کل صبح ہر صورت سادیہ کی تلاش میں نکلنا ہوگا ۔۔۔ ویسے بھی عدالت اس کیس کے بارے میں کیا فیصلہ سنائے گی ۔۔۔ یہ بات ہم آ ج ہی جان چکے ہیں۔۔۔فیصلہ اباجان کے حق میں ہی ہوگا اور جیسوا ل کے خلاف ہوگا۔۔۔ لیکن آج پہلی بار ہمیں اباجان کی جیت کی کوئی خوشی نہیں ہوگی‘‘ عرفان نے سرد آہ بھر کر کہااور وہ سب عرفان کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔اس کی آنکھوں میں گہرے غم کے آثار تھے ۔ سلطان بھی کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ آج اس کی شوخ مزاجی بھی جیسے ہوا ہو گئی تھی۔ اپنی بہن کی فکر نے انہیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا اور اب دوسری طرف ایل ایل بی شہباز احمد کا اس قدر روکھا رویہ بھی ان کی رہی سہی ہمت کو ختم کر رہا تھا۔وہ مظلوم و قید پرندوں کی مانند اپنے کمرے میں بیٹھے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
صبح ان کی آنکھ کھلی تو انہیں نے اپنے اباجان ایل ایل بی شہباز احمد کو گھر سے غائب پایا۔ وہ گھر میں موجود نہ تھے۔انہوں نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز کا رخ کیا۔ وہاں انہیں اپنی امی جان کی آنکھیں بالکل سرخ دکھائی دیں جیسے وہ رات بھر سوئی ہی نہ ہوں:۔
کیا ہوا امی جان ۔۔۔ آپ رات بھر سو ئی نہیں ہیں کیا ۔۔۔ اور یہ اباجان کہاں گئے ہیں‘‘عرفان نے جلدی سے پوچھا۔
پتا نہیں بیٹا۔۔۔ آج کل وہ کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔ سادیہ بھی تین دن سے غائب ہے ۔۔۔ اپنی سہیلی کے گھر جانے کے بعد وہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے ۔۔۔ تم لوگ اس کی تلاش میں گئے تھے ۔۔۔ آخر وہ تمہیں کیوں نہ ملی‘‘ بیگم شہباز جذباتی انداز میں بولیں۔
ہم نے بہت کوشش کی تھی امی جان لیکن افسوس !۔۔۔ وہ ہمیں کہیں نہ ملی‘‘ سلطان نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
مجھے ہر صورت اپنی بیٹی واپس چاہیے۔۔۔ اب چاہے تم لوگوں کو زمین کھنگالنی پڑی یا آسمان تک رسائی کرنی پڑے ۔۔۔ آج تم سادیہ کو ساتھ لائے بغیر گھر واپس نہیں لوٹو گے ۔۔۔ سمجھ گئے‘‘بیگم شہباز سخت لہجے میں بولیں اور پھر ان کے آنکھوں سے آنسوؤں ٹپکنے لگے۔ عرفان اور دوسرے زیادہ دیر تک یہ منظر نہ دیکھ سکے اوربے بسی سے گھر سے باہر نکل آئے۔
امی جان کی یہ کیاحالت ہوگئی ہے ۔۔۔ میں اپنی امی جان کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا‘‘ سلطان نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا۔ تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ ان کے دفتر سے کسی کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ انہوں نے غور سے کان لگایا تووہ حیران رہ گئے۔ بات کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے والد شہباز احمد تھے۔ وہ دفتر کے دروازے کی طرف آئے اور جھری سے اندر کی طرف جھانکا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گئے ۔ شہباز احمد ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو دس دس ہزار کی کڑک نوٹوں کی گڈی ہاتھ میں تھمارہے تھے۔
آج تم میرے حق میں گواہی دو گے اور یہ کہو گے کہ تم نے کل عدالت میں جھوٹی گواہی دی تھی اور اس جھوٹی گواہی کے لئے تمہیں جیسوال صاحب نے مجبور کیا تھا ۔۔۔ سمجھ گئے‘‘ شہباز احمد ڈرائیور کاشف کو سمجھاتے ہوئے کہہ رہے تھے اور وہ مسکراکر گردن ہلا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ ان کے پیروں سے زمین کھسک گئی تھی۔ اپنے والد کا مجرمانہ روپ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔
اپنے والد کا مجرمانہ روپ دیکھ وہ حیرت کا بت بنے کھڑے تھے۔ سب کی زبان ساکت ہوکر رہ گئی تھی۔ کافی دیر تک و ہ یونہی خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔آخر سلطان کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی:۔
اباجان جھوٹی گواہی دینے کے لئے ٹیکسی ڈرائیور کو پیسے دے رہے ہیں ۔۔۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا‘‘ سلطان کے چہرے پر حیرت کا سمند موجھیں ماررہا تھا۔
میرا خیال ہے ان سب باتوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ ہم اباجان کو جانتے ہیں وہ ضرورکسی مقصد کے تحت یہ کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔۔۔ اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مقصد سادیہ کے اغوا سے جڑا ہوا ہے ۔۔۔اس لئے ہمیں اب وقت ضائع کئے بغیر سادیہ کی تلاش میں نکلنا ہوگا‘‘عرفان نے پر جوش لہجے میں کہا۔
لیکن اگر ہمیں سادیہ نہ ملی تو ہم رات کہاں گزاریں گے۔۔۔ امی جان نے تو کہا ہے کہ سادیہ کو لئے بغیر گھر واپس نہیں آنا‘‘سلطان نے پریشان ہو کر کہا۔
اس سے زیادہ اچھی اور پرامید بات یہ ہے کہ ہم سادیہ کو تلاش کرکے آج ہی گھر واپس چلے جائیں گے۔۔۔ تمہاری ذہن میں منفی سوچ ہی کیوں آتی ہے ‘‘ عمران جھلا کر بولا۔
بس بھئی ۔۔۔ اب ہمیں اور وقت ضائع نہیں کرنا‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے سامنے سے آتی ہوئی ایک ٹیکسی کو ہاتھ کے اشارے سے روکااور پھر اس میں سوار ہوگیا۔ باقیوں نے بھی دیر نہ لگائی۔ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھا:۔
شوکت آباد لے جاؤ‘‘ عرفان نے جلدی سے کہا جس پر ٹیکسی ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی فراٹے بھرتی اُڑی جارہی تھی۔
اب شوکت آبادیعنی سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر جا کر تم کیا کرو گے۔۔۔ ہم تو اس دن کائنات سے ساری تفصیل پوچھ آئے تھے لیکن کوئی کام کی بات معلوم نہیں ہوئی تھی‘‘عدنان نے حیران ہو کر کہا۔
اتنا تو ہمیں معلوم ہی ہے کہ سادیہ کو ہمارے گھر اور کائنات کے گھر کے درمیان میں راستے پر سے کہیں اغوا کیا گیا ہے ۔۔۔ اس لئے ہمیں اسے تلاش کرنے کا سلسلہ بھی کائنات کے گھر سے ہی شروع کرنا ہے اور پھر تلاش کرتے کرتے اپنے گھر تک پہنچنا ہے‘‘ عرفان نے وضاحت کی جس پر سب نے سرہلا دیا۔ تھوڑ ی دیر بعد وہ ٹیکسی سے نیچے اتر کر کائنات کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور کو انہوں نے کرایہ دے کر چلتا کر دیا۔اب وہ کائنات کے گھر کی گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔
مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم پرائیوٹ جاسوس ہے ۔۔۔ آخر ہم سادیہ کو تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو گھو ر کیوں رہے ہیں‘‘ عمران نے جھلا کر کہا۔
وہ اس لئے بھائی کہ یہ ہمار اپہلا کیس ہے ۔۔۔ اب تک ہم نے صرف اپنا ادارہ رجسٹرڈ کروایا ہے ۔۔۔ تفتیش کرنے کا موقع ہمیں اب تک نہیں ملا لہٰذا ایک دوسرے کو گھورنے کے علاوہ ہم کربھی کیا سکتے ہیں‘‘ سلطان نے مسکر اکر کہا۔
وقت ضائع کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ سلطان اس کام میں ہم سے بہت آگے ہے‘‘ عرفان نے جھلا کر ران پر ہاتھ مارا۔
تفتیش کا سلسلہ آس پاس کی دکانوں سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ شاید یہاں کسی نے کچھ ایسا دیکھاہو جو ہمارے کام آسکے ‘‘ عدنان نے ان کی باتوں پر توجہ دئیے بغیر کہا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ تم اور سلطان دائیں طرف والی دکانوں میں پوچھ گچھ کرو ۔۔۔ میں اور عمران بائیں طرف کی دکانوں کو دیکھتے ہیں‘‘ عرفان نے کام بانٹ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دکانوں میں تفتیش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ سلطان اور عدنان دائیں طرف کی دکانوں میں ایک ایک کرکے جارہے تھے جبکہ عرفان اور عمران بائیں طرف والی دکانوں میں تفتیش کر رہے تھے لیکن نتیجہ کہ طور پر وہ ناکام سے ہی دوچار رہے ۔ آخر انہیں نے ہر دکان دیکھ ڈالی لیکن کسی سے بھی کوئی کام کی بات معلوم نہ ہوسکی ۔ کسی نے بھی سادیہ کو اس طرف آتے نہیں دیکھا تھا۔ا نہیں نے شناخت کے لئے تصویر بھی دکھائی لیکن جواب پھر بھی مایوس کن ہی رہا۔ آخر آدھے گھنٹے بعد وہ پھر ایک جگہ جمع ہوگئے۔ سب کے چہروں پر ناکامی صاف نظر آرہی تھی۔
اس گلی کی سارے دکان دار ہماری شکست کا اعلان کر رہے ہیں۔۔۔ میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے آگے مرکزی سڑک کی طرف جانا چاہیے۔۔۔ وہاں پر کسی نے شاید کچھ دیکھا ہو‘‘ عرفان نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
نہیں !۔۔۔ وہ مین سڑک ہے ۔۔۔ وہا ں گاڑیوں کی چہل پہل ہر وقت رہتی ہے ۔۔۔ ہمیں کسی ایسی جگہ تفتیش کے گھوڑے دوڑانے ہوں گے جہاں دوپہر کے وقت بالکل سناٹا ہوتا ہو۔۔۔ وہاں سے سادیہ کو اغوا کرنے میں اغوا کاروں کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہوگی‘‘عدنان نے جلدی جلدی کہا۔
اس کے لئے ہمیں ایک بار پھر ٹیکسی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہونا ہوگا۔۔۔ راستے میں سنسان سڑک دیکھ کر تفتیش کرنے کے لئے ٹیکسی سے اتر جائیں گے‘‘ سلطان نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ ابھی ہو جائے گا‘‘عمران نے فوراً کہا اور ایک ٹیکسی کو اشارے سے رکوایا۔دوسرے ہی لمحے اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے گھر کا پتا بتا دیا اورساتھ میں ڈرائیور کو ٹیکسی کی رفتار سست رکھنے کی بھی درخواست کی۔ جلد ہی وہ ٹیکسی میں سوار اپنے گھر کی سڑک پر چلے جارہے تھے۔تبھی سلطان بری طرح چونکا۔ وہ سب حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے:۔
کیا ہوا بھائی۔۔۔ چیونٹی کاٹ گئی کیا‘‘عمران حیرت زدہ تھا۔
نہیں وہ دیکھو۔۔۔ میک اپ کے سامان کی دکان‘‘ سلطا ن پرجوش لہجے میں بولا۔
تو کیا تم نے اب میک اپ کرنا بھی شروع کردیا‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
نہیں !۔۔۔ بھلا میں ا پنے بڑے بھائی کی نقل کیسے اتار سکتاہوں‘‘سلطان نے شوخ لہجے میں کہا۔
بھئی ۔۔۔ میں کتنی بار کہوں ۔۔۔و قت ضائع نہیں کرنا ‘‘ عرفان نے جلے کٹے انداز میں کہا۔
اوہ !۔۔۔ ہاں ۔۔۔میں کہہ رہا تھا کہ سادیہ کو میک اپ کرکے خو بصورت دِکھنے کابہت شوق ہے۔۔۔ اور حسن افروز سامان دیکھ وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتی ۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ اس دن بھی میک اپ کے سامان دیکھنے اس دکان میں گھس گئی ہو‘‘ سلطان نے مسکراتے ہوئے سامنے کوسمیٹک کی دکان کی طرف اشارہ کیا۔دوسرے ہی لمحے اس کی بات سن کر دوسرے بھی چونک اُٹھے۔ اب انہوں نے کچھ او رپوچھ کر دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو انتظار کرنے کا اشارہ کرکے ٹیکسی سے اتر کر دکان کے اندر داخل ہوگئے۔دکان کا مالک ان کا حلیہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ ان کا تعلق کسی بڑے گھرانے سے ہے ۔ اگلے ہی لمحے وہ ان کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔
کیا لیں گے آپ ۔۔۔ یہاں ہر قسم کی کوسمیٹک کی چیزیں میسر ہیں‘‘ دکان دار خوش اخلاقی سے بولا۔
ہمیں ایک عدد سادیہ دکھا دیں‘‘ سلطان نے مسکر ا کر کہا جس پر دکان دار حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔دوسرے اسے بری طرح گھورنے لگے۔
یہ میرے بھائی کو مذاق کرنے کی بہت عادت ہے ۔۔۔ اسے چھوڑئیے ۔۔۔ا ور میر ی بات غور سے سنیے ۔۔۔ آپ نے اس لڑکی کو تین دن پہلے کوئی سامان فروخت کیا تھا‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے موبائل فون سے سادیہ کی تصویر دکھائی۔ دکان دار تصویر دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔پھر وہ چونک اُٹھا۔ اسے چونکتے دیکھ ان کے چہرے جوش سے بھر گئے۔
یہ لڑکی تین دن پہلے دوپہر کے وقت میری دکان میں آئی تھی۔۔۔ بہت غیرمطمئن لڑکی تھی۔۔۔ ہر چیز دیکھنے کے بعد بھی ایک چیز بھی لے کرنہیں گئی‘‘ دکان دار منہ بنا کر بولا۔
اس معاملے میں وہ اپنے بھائی عرفان پر گئی ہے ‘‘ سلطان ہنس کر بولا۔
اچھا۔۔۔ آپ کی دکان سے جانے کے بعد وہ کہاں گئی ۔۔۔ کس طرف گئی ۔۔۔ اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں آپ‘‘ عرفان نے ایسے کہا جیسے اس نے سلطان کی بات سنی ہی نہ ہو۔
میں اس وقت بہت مصروف تھا۔۔۔ دکان میں کافی رش تھا۔۔۔ اس وجہ سے واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ البتہ آپ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘دکان دار نے الجھن کے عالم میں کہا۔
وہ ہماری بہن تھی اور وہ تین دن سے غائب ہے ۔۔۔نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔۔۔ہمیں لگتا ہے کہ اسے اغوا کر لیا گیا ہے ۔۔۔ا س لیے ہم اسے تلاش کرنے نکلے ہیں‘‘ عرفا ن نے بھر ائی ہوئی آواز میں جلدی جلدی کہا ۔دکان دار نے ہمدردانہ نگاہیں اس کی طرف اٹھائیں۔
دکان کے باہر سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے اس کیمرے میں ریکارڈ ہوگیا ہو کہ و ہ کس طرف گئی تھی ۔۔۔ یا اسے کون ساتھ لے گیا۔۔۔آئیے میں آپ کو وہ کیمرے کی ریکارڈنگ دکھا دیتاہوں‘‘ دکان دار نے نرم آواز میں کہا جس پر ان سب کے چہرے ایک بار پھر جوش سے تمتما اٹھے۔ دکان دارکے اشارے پر وہ دکان کے اندرونی حصے کی طرف گئے ۔ یہاں ایک کمپیوٹر رکھا ہوا تھا جس پر کیمرے کی فوٹیج لگی ہوئی تھی۔ دکان دار آگے بڑھا اور فوٹیج کو ریوائنڈ کرکے تین دن پہلے دوپہر کی فوٹیج لگائی۔ ان سب کی نگاہیں ٹی وی سکرین پر جم کر رہ گئیں۔ سکرین پر ایک ایک گاہک دکان کے اندر جا رہا تھا اور اپنی پسند کی چیز خرید کرباہر نکل رہا تھا۔تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ انہیں سادیہ دکان کے اندر جاتی نظر آئی۔ پھر کافی دیر تک وہ دکان کے اندر ہی رہی ۔آخر وہ باہر نکلی اور کائنات کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کا رخ کیااور پھر ان سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ دن دھاڑے ایک شخص پوری رفتا رسے گاڑی دوڑاتا ہوا آیا اور سادیہ کے بالکل پاس آکر گاڑی کی رفتار ایک پل کے لیے سست کی اور پھر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا لیا ۔ دوسرے ہی لمحے گاڑی فراٹے مارتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ یہ سب کچھ اس رفتار سے ہوا کہ کوئی دھیان ہی نہ دے پایا۔ ویسے بھی اس وقت دکان میں رش بہت زیادہ تھی اس لئے کسی کو بھی سادیہ کے ساتھ رونما ہونے والے حادثے کی بھنک بھی نہ لگی۔آخر گاڑی سکرین پر سے غائب ہوگئی۔
ریکارڈنگ کو ایک منٹ پیچھے ریوائنڈ کریں اور وہاں سے دوبارہ لگائیں جہاں گاڑی سادیہ کے قریب گئی تھی‘‘ عرفان نے الجھن کے عالم میں کہا۔دکان دار نے سر ہلا دیا اورفوٹیج کو ریوائنڈکیا۔ جیسے ہی سکرین پر گاڑی سادیہ کے قریب آتی نظر آئی۔ عرفان بول اُٹھا:۔
بس اب یہاں روک دیں۔۔۔اور گاڑی کے نمبر پلیٹ کی طرف زوم کریں‘‘عرفان فوراً بولا۔ دکان دار نے نمبر پلیٹ کی طرف زوم کیا تو گاڑی کا نمبرصاف نظر آنے لگا۔ عرفان نے سلطان کو اشارہ کیا۔ اس نے بنا کچھ بولے اپنی جیب سے نوٹ بک ڈائری نکالی اور نمبر اس پر لکھ کر نوٹ کر لیا۔پھر وہ واپس دکان کے بیرونی حصے کی طرف نکل آئے۔
آپ نے ہماری بہت مددکی۔۔۔ ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں‘‘ عرفان جذبات سے بھرے ہوئے لہجے میں بولا جس پر دکان دار نے اس کے کندھے پر تھپتھپا کر اسے دلاسا دیااو رپھر وہ سب دکان سے باہر نکل آئے۔ عرفان نے جیب سے موبائل فون نکالا اور گاڑی کی رجسٹریشن افس کے نمبر ڈائل کئے ۔ سلسلہ ملنے پر دوسر ی طرف سے آوازآئی:۔
السلام علیکم سر۔۔۔ گاڑی کی رجسٹریشن کرانے کے لئے ہماری سروس چوبیس گھنٹے میسرہے ‘‘ دوسری طرف سے خوش اخلاقی سے کہا گیا۔
میں آپ کو ایک گاڑی کا نمبر بتا رہاہوں۔۔۔ آپ سے معلومات لینی ہے کہ یہ گاڑی کس کے نام پر رجسٹر ہے۔۔۔ہماری بہن کو اس گاڑی میں بیٹھا کر اغوا کیا گیا ہے ۔۔۔ہم آپ کی مدد چاہتے ہیں‘‘ عرفان نے جلدی جلدی کہا اور سلطان سے ڈائری لے کر گاڑی کا نمبر بتا دیا۔ دوسری طر ف سے خاموشی چھا گئی ۔
یہ گاڑی کسی سراج معین صاحب کے نام پر رجسٹر ڈ ہے ‘‘ دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔
سراج معین صاحب کا مکمل پتا بتا سکتے ہیں‘‘ عرفان نے درخواست کی۔
منصورہ روڈ۔۔۔بنگلہ نمبر ۱۲‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا جس پر عرفان نے شکریہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ان سب نے سوالیہ نگاہوں سے عرفان کی طرف دیکھا جس پر وہ انہیں فون پر ہونے والی گفتگو بتانے لگا۔
ایل ایل بی شہباز احمد عدالت پہنچ چکے تھے۔ عدالت پہنچنے پر انہیں جیسوال کا مرجھایا ہوا چہرہ صاف نظر آیا۔ وہ سمجھ گئے کہ جیسوال کوئی ثبوت یا گواہ اکٹھے کرنے میں ناکام رہا ہے اور آج کا یہ فیصلہ اس کے خلاف ہی ہونے والا ہے ۔اس بات سے ان کے چہرے پر خوشی کے بجائے غم کے بادل نظر آنے لگے۔وہ جانتے تھے کہ جیسوال اس مرتبہ حق کے ساتھ ہے اور وہ جھوٹ کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن وہ اپنی بیٹی کی زندگی کی وجہ سے جھوٹ کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔جج صاحب کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی سب چونکنے ہوگئے اور پھر جج صاحب کی آواز عدالت میں گونج اُٹھی:۔
کیس کی کروائی شروع کی جائے ‘‘ جج شکیل الرحمان بارعب لہجے میں بولے۔
کاروائی کیا ہوگی جج صاحب ۔۔۔ آج تو بس فیصلہ ہوگا۔۔۔ پچھلی سنوائی میں جیسوال صاحب مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور کوئی ایساٹھوس ثبوت یا گواہ پیش نہیں کرسکے جس نے میرے مؤکل منظور کو دھماکے کے وقت ان کے گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہو ۔۔۔ لہٰذا آج آپ نے بس فیصلہ ہی سنانا ہے ‘‘ شہباز احمد بولتے چلے گئے۔
شاید آپ ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو بھول رہے ہیں شہباز صاحب۔۔۔ اس نے منظور کو دھماکے کے وقت بھاگتے ہوئے صاف طور پر دیکھا تھا ‘‘جیسوال نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
آپ کے چشمہ دیدگواہ ڈرائیور کاشف نے کیا دیکھا تھا ۔۔۔ اس کا خلاصہ ابھی ہو جائے گا۔۔۔ میں آج سب سے پہلے اس کیس کو آئینہ کی طرح صاف اور واضح کرنے کے لئے کاشف کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘ شہباز احمد جج صاحب سے مخاطب ہوئے۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے سر ہلا دیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کاشف ہچکچاتا ہوا کٹہرے میں داخل ہوا۔شہباز احمد اس کی طر ف بڑھے:۔
آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ جیسوال صاحب بھری عدالت میں کچھ نہیں کرسکتے ‘‘ شہباز احمدنے عجیب سے لہجے میں کہا جس پر جیسوال چونک کر انہیں دیکھنے لگا ۔ دوسری طرف ڈرائیور کاشف حیرت انگیز بیان دے رہاتھا:۔
مجھے معاف کر دیجئے جج صاحب ۔۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔۔ میرا ضمیر مردہ ہوگیا تھا۔۔۔میں نے کل لالچ میں آکر جھوٹا بیان دے دیا تھا ۔۔۔میں نے منظور کو معمول کے مطابق رفتار کے ساتھ ہی دھماکے کے وقت جیسوال صاحب کے گھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ میں نے جھوٹا بیان جیسوال صاحب کے کہنے پر دیا۔۔۔ انہیں نے مجھے اس کا م کے لئے پچیس لاکھ روپے دئیے تھے ‘‘ ٹیکسی ڈرائیور معصوم چہرے بنا کر بولتا چلا گیا۔جیسوال کی حیرت کا کیا پوچھنا۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ چہرہ دودھ کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔ پسینے کے قطرے اس کے چہرے پر رواں تھے۔دوسری طرف شہباز احمد کی آواز عدالت میں گونج رہی تھی:۔
اب اس بیان کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے ۔۔۔ جیسوال صاحب نے منظور کو پھنسانے کے لئے سب سے پہلے خود یہ بیان دیا کہ انہوں نے اسے گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ پھر ٹیکسی ڈرائیور کو بھی پیسے دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور عدالت میں جھوٹی گواہی دینے پر مجبو رکیا۔۔۔ لیکن یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جیسوال صاحب نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ ۔۔۔اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں ان کے پڑوس کے بنگلے میں رہایش پذیر شیخ نعمان افتخار کوجو اب تک اس کیس میں گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں ہوئے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا ۔۔۔ اور ہاں !۔۔۔میں نے اس گواہ کو پیش کرنے کا نوٹس آج صبح ہی عدالت کو بھیجوادیا تھا ‘‘ شہباز احمد آخر میں مسکرا کر بولے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے اجازت دے دی۔تبھی ایک درمیانے سے قد کا شخص جو جسمانی طور پر کافی صحت مند دکھائی دیتا تھا کٹہرے میں داخل ہوا۔ اس سے قسم لی گئی او ر پھر شہباز احمد اس کی طر ف مڑے۔ جیسوال کا چہرہ اب زرد پڑتا جارہا تھا۔
آپ عدالت کو کیا بتا نا چاہتے ہیں ۔۔۔ جو کچھ بھی آپ جانتے ہیں کھل کر بتائیے‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد اسے ہمت دلائی۔
جی ہاں !۔۔۔ میں اس سے پہلے بھی بیان دے سکتا تھا لیکن میری بیو ی نے مجھے مجبور کیا کہ اس طرح کے کیس کے چکروں میں پھنس کر خود کو خوار نہ کروں لیکن اب جب آپ نے آکر مجھ سے ساری باتیں پوچھیں اور مجھے عدالت میں بیان دینے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی تو میرا ضمیر جاگ اٹھا ۔۔۔ا ب میں آپ کو جیسوال صاحب کی نجی زندگی کے بارے میں بتاتا ہوں۔۔۔ دراصل جیسوال صاحب کی اپنے بھائی سے کبھی بھی نہیں بنی۔۔۔ ان کے گھر کے جھگڑے میں روز سنتا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ جیسوال کا بھائی آدھی رات کو بھی جیسوال سے لڑ رہا ہوتا تھا اور اس کی آواز سے میں اپنے گھر میں جاگ جاتا تھا۔۔۔ ایک دن میں نے جیسوال صاحب سے لڑائیوں کی وجہ پوچھی تو انہیں نے بتایا کہ ان کا بھائی سگریٹ نوشی اور دوسرے نشے کرنے کا عادی ہے ۔۔۔وہ کبھی کبھی شراب بھی پی کر گھر آتا ہے ۔۔۔ اس بات پر ان کی اکثر لڑائی رہتی ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ جیسوال صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہیں نے اپنے والد سے کہہ کر اپنے بھائی کو جائیداد سے دستبردار کر دیا ہے ۔۔۔اب ان کے بھائی کا ان کے گھراور گھر کے علاوہ تمام جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے ‘‘ یہاں تک کہہ کر شیخ نعمان افتخار سانس لینے کے لئے رکا تو جیسوال بول اُٹھا۔
یہاں عدالت میں میری نجی زندگی پر کیوں بحث کی جارہی ہے ۔۔۔یہ تو میرے اور میرے بھائی کا ذاتی معاملہ تھا‘‘ جیسوال نے جل بھن کر کہا۔
آپ کا ذاتی معاملہ اب ذاتی کہاں رہا جیسوال صاحب۔۔۔ آپ نے اس ذاتی معاملے کو ذاتی رہنے دیا ہوتا تو آج یہ شیخ نعمان آپ کی ذاتی باتیں عدالت میں نہ بتا رہے ہو تے‘‘ شہباز احمدمسکر ا کر بولے۔
یہ کیا ذاتی کی گردان شروع کر دی آپ نے ۔۔۔ اس سارے بات چیت سے آپ کیا ثابت کرناچاہتے ہیں‘‘ جیسوال نے جھلا کر کہا۔
صرف یہ کہ آپ کی اپنے بھائی سے تلخ کلامی اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ آپ نے اپنے والد سے کہہ کر اسے جائیداد سے عاق کروادیا تھا۔۔۔لیکن پھر بھی آپ کا بھائی نشے آور ادویات چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔آخر تنگ آکر آ پ نے اپنے والد سے کہا کہ اسے گھر سے ہی نکال دیا جائے تاکہ آپ کی بدنامی نہ ہو اور آپ کا اپنے بھائی کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہ رہے لیکن آپ کے والد آخر اس کے بھی تووالد تھے ۔۔۔ وہ کیسے اپنے ایک بیٹے کو بدنامی سے بچانے کے لئے دوسرے بیٹے کو گھر سے نکال سکتے تھے ۔۔۔ انہیں نے آپ کو صاف منع کر دیا۔۔۔ آخر روز روز کی لڑائی سے آپ تنگ آگئے ۔۔۔ اورپھر آپ نے تین دن پہلے اپنے بھائی کی سالگرہ کے دن ایک گھناؤنا کھیل کھیلا۔۔۔ آپ نے گھر میں مشہور و معروف وکیلوں کو دعوت میں مدعو کیا او رپھر خود کسی بہانے گھر سے باہر نکل گئے ۔۔۔ وہاں آپ نے گھر کے بیرونی حصے میں بم فٹ کیا اور خود گاڑی میں بیٹھ کر یہ دل دہلا دینے والا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ اپنی گاڑی کو بھی گھر سے زیادہ دور نہ کیا تا کہ آپ بھی کسی حد تک زخمی ہوجائیں اور شک کی انگلی آپ کی طرف نہ جائے ۔۔۔ اتفاق سے منظور وہاں سے گزر رہا تھا۔۔۔ اسے میں نے ہی سب انسپکٹر تنویر کے پاس ایک فائل کے لئے بھیجا تھا۔۔۔ آپ نے ایک ساز ش رچی۔۔۔ اپنے آپ کو بچا کر آپ نے سارا الزام منظور پر ڈا ل دیا۔۔۔ اور ٹیکسی ڈرائیور کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔۔۔اب آپ کیا کہیں گے جیسوا ل صاحب ۔۔۔ کیا میں صحیح ہوں یا میں صحیح ہوں ‘‘ آخر ی جملہ کہتے ہوئے شہباز احمد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
آپ بالکل غلط کہتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کچھ جھوٹ ہے ۔۔۔ سفید جھوٹ‘‘ جیسوال نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا ۔ اس کا بدن ایسے کانپ رہا تھا جیسے سخت سردی کا موسم ہو حالانکہ موسم گرمی کا تھا۔
جج صاحب ۔۔۔ اب آپ کا حکم ہو تو میں خود جیسوال صاحب کو ملزم کے کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا‘‘شہباز احمد نے جج صاحب سے کہا۔
اب تک کی آپ کی دلیل کافی مضبوط رہی ہے ۔۔۔ اور اس سے یہی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جیسوال صاحب اس کیس میں خود ہی مجرم ہیں۔۔۔ بہر حال جیسوال صاحب کو کٹہرے میں پیش کرنے کی بالکل اجازت ہے‘‘ جج صاحب نے شہباز احمدکی باتوں سے متفق ہوتے ہوئے کہا۔یہ سن کر جیسوال دھک سا رہ گیا۔ آج تک وہ دوسروں کو کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت مانگتا تھا لیکن آج وہ خود ایک ملزم کے روپ میں کٹہرے میں پیش ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اب تک وہ منظور کو گناہ گار ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب اسے پہلے خود کو بے گناہ ثابت کرنا تھا۔ ایک ہی پل میں شہباز احمد کی دلیلوں نے کیس کا رخ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ آخر جیسوال کٹہرے میں آکھڑا ہوا۔ اس کے جسم سے جیسے ساری جان نکل چکی تھی۔
آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے یا کوئی گواہ ہے جو آپ کو بے قصور ثابت کر دے‘‘ جج شکیل الرحمان نے جیسوال کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیا۔
میرے گواہ میرا خدا ہے جج صاحب۔۔۔ وہ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جانتی ہے کہ میں بے قصور ہوں۔۔۔ اور کوئی بھی میرا مددگار نہیں سوائے اس اوپر والے کے ۔۔۔ اب وہی مجھے انصاف دلا سکتا ہے‘‘ جیسوال نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ شہباز احمد چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان سے یہ الفاظ انہیں اندر تک ہلا گئے تھے۔وہ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے ہوئے کھڑے تھے۔
اس کا مطلب ہے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔۔۔ پھر تو میں اپنا فیصلہ سنانے پر مجبو رہوں۔۔۔ یہ عدالت ایم اے جیسوال یعنی موہن ابھیشیک جیسوال کو اس کیس میں گناہ گار تسلیم کرتی ہے ۔۔۔ اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم سناتی ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے بھائی اپنے ماں باپ اورکئی مشہور وکیلوں کو بم دھماکے کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سناتی ہے ۔۔۔ کیس بند ہوتا ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے جج صاحب نے ہتھوڑا لکڑی کی پلیٹ پر مارا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف سب انسپکٹر تنویر جیسوال کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کا جوڑا پہنانے کے لئے آگے بڑھااور پھر اسے ہتھکڑی پہنا کر کٹہرے سے باہر لے آیا۔ یہاں شہباز احمد کھوئے کھوئے انداز میں کھڑے تھے جیسے ا س کیس میں ان کی جیت نہیں ہا رہو چکی ہو۔
کیا ہوا شہباز صاحب ۔۔۔ آپ کے چہرے پرپریشانی کیسی۔۔۔ آپ تو جیت چکے ہیں ۔۔۔ اور آج میں ہار گیا ہوں۔۔۔لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔۔۔میں نے سچ کا ساتھ دیا ہے اس لئے میں ہار کر بھی ہارا نہیں ہوں اور آپ نے جھوٹ کا ساتھ دیا ہے اس لئے آپ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔۔۔ آج آپ نے مجھے اس دنیا کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے نہ ۔۔۔ میں نے تو آپ کو اوپر والے کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیاہے۔۔۔ اس عدالت کی سزا تو بالکل معمولی ہے ۔۔۔اصل سزا تو ا س عدالت میں ہوگی جہاں آپ کی دلیلیں بھی بے کارہو جائیں گے۔۔۔ کیونکہ اس رب کی عدالت میں جیت دلیلوں سے نہیں ہوتی بلکہ سچائی سے ہوتی ہے۔۔۔مجھے تو آپ نے صرف دو منٹ کے لئے کٹہرے میں کھڑ ا کیا لیکن میں آپ کو زندگی بھر کے لئے اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہوں۔۔۔جہاں سے آپ کبھی بھی باہر نہیں آئیں گے‘‘ جیسوال نے ایک ایک لفظ ٹھہرٹھہر کر کہا۔ اس کی باتوں میں ایک ایسا یقین تھا جس نے ایل ایل بی شہباز احمد کو اندر تک توڑ کر رکھ دیا۔ انہیں اپنا وجود بے معنی محسوس ہوا۔ انہیں قرآن کی وہ آیات یاد آگئیں جس میں حکم ہے کہ سچائی کا ساتھ دو چاہے وہ تمہارے اپنے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔دوسری طرف جیسوال کو قرآن کا علم بالکل نہیں تھا لیکن اس کی ساری باتیں قرآنی نظر آرہی تھی۔ وہ ہارنے کے بعد بھی سینہ چوڑا کرکے عدالت سے نکل رہا تھا جبکہ شہباز احمد جیتنے کے بعد بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
عرفان برادرز ٹیکسی میں بیٹھے سراج معین صاحب کے گھر کی طرف اُڑے جارہے تھے۔ اب انہیں تفتیش کا آگلا مرحلہ وہاں پہنچ کر ہی طے کرنا تھا۔ راستے بھر وہ کافی خاموش خاموش رہے۔ سراج معین صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ کر وہ ٹیکسی سے نیچے اتر آئے۔ کرایہ ادا کیا اور بنگلے کے دروازے کے قریب آئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھے۔اور پھر ان کے چہروں پر مایوسی کے بادل نظر آنے لگے۔ بنگلے پر ایک بڑا سا تالا ان کا منہ چڑا رہا تھا۔
شاید آج ناکامی ہی نصیب میں لکھی ہے ۔۔۔ آخر بنگلے کے دروازے پر تالا لگا کر جانے کی کیا ضرورت تھی‘‘سلطان جھلا کر بولا۔
تو کیا گھر چوروں کے لئے کھلا چھوڑ کر جاتے‘‘ عمرا ن نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
تم لوگوں کو وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔۔۔ شاید ہماری ناکامی کی وجہ یہی ہے ‘‘عرفان جل بھن کر بولا۔
تو بھائی سنجیدہ رہ کر آپ نے کون سا تیر مار لیا۔۔۔ ہم مذاق کر تے ہوئے ناکام ہوئے اور آپ سنجیدہ رہ کر ناکام ہوئے۔۔۔ ناکامی تو دونوں کے ہی نصیب میں آئی‘‘سلطان مسکرا کر بولا۔عرفان نے اسے بری طرح گھور کردیکھااور بنا کچھ بولے بنگلے کے دروازے سے دور ہٹنے لگا۔ یہاں تک کہ دوبارہ مرکزی سڑک پر پہنچ گیا۔ اس نے آس پاس اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ بنگلے کے بالکل ساتھ ہی ایک اور بڑا سا بنگلہ نظر آیا جس پر عظیم شفقت نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ عرفا ن کو دیکھ کر باقی سب بھی اس کے ساتھ ہو لیے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب عظیم شفقت نامی شخص کے بنگلے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ عرفا ن نے اب مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دروازے کے ساتھ لگی گھنٹی کا بٹن دبا دیا اور پھر مسلسل لگاتاربٹن دباتا ہی چلا گیا۔ آخر اندر سے ایک نوکر جھنجھلائے ہوئے انداز میں باہر نکلا۔
جناب ۔۔۔گھٹی کا بٹن دبانے کے بعد کچھ د یر انتظار کیا جاتا ہے ‘‘ نوکر نے جھلا کر کہا۔
معلومات کافی مفید ہے ۔۔۔ آئندہ اس پر عمل کیا جائے گا ‘‘ سلطان نے فوراً کہا۔
ہمیں عظیم شفقت صاحب سے ملنا ہے ۔۔۔ کیا وہ گھر پر ہی ہیں ‘‘ عرفا ن نے سوا ل کیا۔
جی ہاں ۔۔۔ لیکن بھلا آپ کو ان سے کیا کام ۔۔۔ آپ لوگ نوعمر ہیں اس لئے کسی فاونڈیشن کے لئے چند اکٹھا کر رہے ہوں گے۔۔۔کیا آپ صاحب کے پاس چندہ اکٹھا کرنے کے لئے آئے ہیں ‘‘ نوکر نے ان کی طرف دیکھ کر اندازہ لگایا۔
یہ بات نہیں ۔۔۔ ہمیں ان سے کچھ معلومات لینی ہے ۔۔۔ اگر آپ اندر پیغام پہنچا دیں تو ہماری کافی مدد ہو جائے گی‘‘ عرفان نے درخواست کرتے ہوئے کہا جس پر نوکر سر ہلاتا ہوا اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھا دیا گیا اور وہ عظیم شفقت کا انتظا ر کرنے لگے۔ ڈرائنگ روم سے ہی صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ کسی بہت ہی امیر شخص کے گھر میں بیٹھیں ہیں۔ ڈرائنگ روم میں مختلف تصاویر ، قیمتی اور اعلیٰ قسم کے ریشم کے پردے اور ساتھ میں مکمل طور پر ٹھنڈک کے لئے آئیر کنڈیشن بھی چالو تھا۔ سامنے ایک بڑی سی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی جو ٹی وی کا کام سرانجام دی رہی تھی۔اس کے علاوہ صوفے بھی ململ کے کپڑے کے تیار کئے ہوئے تھے اور کافی مہنگے دکھائی دے رہے تھے ۔ ابھی وہ ان سب چیزوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک کھنکارتی ہوئی آواز نے انہیں چونکنے پر مجبور کر دیا۔
بچوں ۔۔۔ آپ کو مجھ سے کیا کام ‘‘ ۔ انہو ں نے نظریں اٹھائیں ۔ ایک شاہانہ لباس میں کافی ادھیڑ عمر شخص انہیں بری طر ح گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھیں میں سختی کے آثار نمایا نظر آرہے تھے اور پھر وہ ان کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گیا اور انہیں ایسے دیکھنے لگا جیسے ابھی کھا ہی تو جائے گا۔
ہمیں آپ سے آپ کے پڑوس میں قیام پذیر سراج معین صاحب کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے۔۔۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو! ۔۔۔‘‘عرفا ن نے جملہ ادھورا چھوڑ دیااور اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے لگا لیکن وہاں اب بھی سختی صاف نظر آرہی تھی لیکن ساتھ ہی حیرت کے بادل بھی اُمڈ آئے تھے۔
میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔۔ تم لوگ ان کے بارے میں کیوں تفتیش کرتے پھر رہے ہو ۔۔۔ پہلے تو اس سوال کا جواب دو۔۔۔ کہیں تم لوگ کسی مجرم گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتے ‘‘ عظیم شفقت نے سرد آواز میں کہا۔
ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ آپ ہمارے کارڈ دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ ہم عرفان بردارز کے نام سے جانے جاتے ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفا ن نے عدنان کو اشارہ کیا ۔اس نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر عظیم شفقت کو دکھایا ۔ دوسرے ہی لمحے ان کے چہرے کی سختی غائب ہوگئی۔ اب ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
اوہ !۔۔۔ تو آپ لوگ مشہور وکیل ایل ایل بی شہباز احمد کے بیٹے ہیں ۔۔۔ پوچھئے ۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ‘‘ عظیم شفقت نے چہک کر پوچھا۔
آپ ہمارے والد کو جانتے ہیں ‘‘ ان سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
بھئی آپ کے والد اور میں نے ایک ہی کالج میں پڑھائی کی ہے ۔۔۔ انہیں نے وکالت کا شعبہ چنا اور میں نے انجینئر نگ کا ۔۔۔ وہ میرے کافی اچھے دوست ہیں ۔۔۔ بہر حال آپ سراج معین کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے ‘‘ عظیم شفقت نے دوبارہ اصل بات پر آتے ہوئے کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ آپ کو کچھ پتا ہے کہ سراج صاحب کہاں گئے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ان کے بنگلے کے دروازے پر تالا لگا ہوا ہے ‘‘ عرفان نے جلدی جلدی کہا۔
ہاں ۔۔۔ وہ ابھی تین دن پہلے چھٹیاں منانے شہرسے باہر اپنے ریسٹ ہاؤس میں گئے ہیں ۔۔۔و ہ ہر سال ان دنوں گرمی کی وجہ سے وہاں وقت گزارتے ہیں ‘‘ عظیم شفقت نے بتایا۔
اور ان کی گاڑی ۔۔۔ کیا وہ بھی ان کے ساتھ ہی تھی ‘‘ اس مرتبہ عدنان نے سوال کیا۔
جی نہیں ۔۔۔ ان کی گاڑی تو ابھی کچھ دن پہلے ہی چوری ہوگئی۔۔۔ انہیں نے پولیس میں رپورٹ بھی کروائی۔۔۔ پولیس نے دو چار دن تفتیش کی ۔۔۔آخر انہوں نے بھی ناکام ہوکر ہمت ہار دی ۔۔۔پھر سراج صاحب نے ایک نئی گاڑی خرید لی تھی ‘‘ عظیم شفقت نے وضاحت کی۔
کون سے تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی ۔۔۔ اس بارے میں کچھ علم ہے آپ کو ‘‘ عمران نے بھی تفتیش میں حصہ لیا۔
جی ہاں ۔۔۔ یہاں اس علاقے میں تو ایک ہی تھانہ ہے ۔۔۔ تحصیل روڈ صدر تھانہ ۔۔۔ وہاں پر ہی رپورٹ درج کرائی ہوگی‘‘ عظیم شفقت نے سوچ کر کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ نے ہماری کافی مدد کی ۔۔۔اب ہم چلیں گے ۔۔۔ ایک بار پھر ۔۔۔ بہت بہت شکریہ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان بردارز اٹھ کھڑے ہوئے ۔ عظیم شفقت نے گرم جوشی سے ان سب سے ہاتھ ملایا۔آخر وہ سب ڈرائنگ روم سے باہر نکلتے ہوئے بنگلے سے باہر نکل آئے ۔ انہوں نے کافی فاصلے سے ہی ایک ٹیکسی کو اشارے سے روک دیااور پھر قریب پہنچ کر ٹیکسی میں سوا رہوگئے ۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو تحصیل روڈ صدر تھانہ کے پتا بتایا اور پھر ان کے ٹیکسی پوری رفتار سے روانہ ہوگئی۔اب وہ لمحہ بہ لمحہ تفتیش میں آگے بڑھتے ہوئے سادیہ کے قریب ہوتے جارہے تھے۔صد ر تھانہ پہنچ کر انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور تھانے میں داخل ہوگئے۔یہاں ایک بڑی بڑی مونچھوں والا سب انسپکٹر ٹانگیں پھیلائے سموسے کی پلیٹ آگے رکھے سموسوں کا لطف اٹھار ہا تھا۔ساتھ ہی گرم گرم بھانپ چھوڑتی چائے رکھی ہوئی تھی۔ ہر سموسے کے بعد وہ چائے کے ایک گھونٹ بھرتا اور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا تھا۔اس کی وردی پر سب انسپکٹربشیر رضا لکھا ہوا تھا۔ عرفان بردارز کو دیکھ اس کا منہ بن گیا۔
اب بچے بھی تھانے میں آیا کریں گے‘‘ سب انسپکٹر بشیر نے برا سا منہ بنایا۔
جی ہاں ۔۔۔ جب پولیس کام چوری کرے گی تو بچوں کو ہی تفتیش کرنا پڑے گی‘‘ سلطان نے ترکی بہ ترکی فورا ً جواب دیا۔
کام چوری ۔۔۔ کیا مطلب !۔۔۔ لڑکے ۔۔۔ تمہارا دماغ توٹھیک ہے ‘‘ سب انسپکٹر بشیر دھاڑا۔
نہیں !۔۔۔ یہ دماغ سے پید ل ہے ‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا۔
اور یہ دماغ کی گاڑی پر سوار ہے ‘‘ سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں عمرا ن کی طرف اشارہ کیا۔
تم لوگ میرا وقت ضائع کرنے آئے ہو ‘‘ سب انسپکٹر نے بھنا کر کہا۔
تو کیا ہمارے آنے سے پہلے کوئی بہت اہم کام ہو رہا تھا‘‘سلطان نے سموسے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کرکے طنز مارا۔
لگتا ہے تم لوگوں کو حوالات کی سیر کرانی پڑے گی‘‘ سب انسپکٹر غرایا۔
آپ انہیں چھوڑئیے انسپکٹر صاحب۔۔۔ انہیں وقت ضائع کرنی کی عادت ہے ۔۔۔ آپ ہمارا کارڈ دیکھ لیجئے ۔۔۔ ہم عرفان برادرز کے نام سے مشہور ہیں ۔۔۔اور اس وقت ایک گاڑی کی چوری کی رپورٹ کے بارے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ امید ہے آپ ہماری مدد کریں گے ‘‘عرفان نے بات سنبھالتے ہوئے کارڈ اسے دکھایا۔ کارڈ دیکھ کر سب انسپکٹر بشیر کا منہ اور بن گیا۔
تم لوگ پرائیوٹ جاسوس ہو گے تو اپنے گھر کے ہوگے ۔۔۔ یہاں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا‘‘ سب انسپکٹر نے صاف لہجے میں کہا۔
دیکھو ۔۔۔تم لوگوں کی وجہ سے کام خراب ہوگیا نہ ۔۔۔ تمہیں کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کام کے وقت بے تکی نہ ہانکا کرو۔۔۔ لیکن تم سب باز نہیں آتے ۔۔۔خاص طور پر سلطان تم تو حد کر دیتے ہو ‘‘ عرفان نے انہیں ڈانٹا۔
ہمیں معاف کردیجئے بڑے بھائی‘‘ سلطان نے رونی صورت بنا کر کہا جس پر وہ سب کوشش کرنے کے باوجود مسکرا ہٹ نہ روک پائے۔
تم لوگ کچھ بھی کر لو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا‘‘ سب انسپکٹر نے سفاک لہجے میں کہا۔ان سب نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ تبھی عرفان چونک اُٹھا۔اس نے فوراً جیب سے موبائل فون نکالا اور کسی کے نمبر ڈائل کئے ۔ سب انسپکٹر سمیت وہ سب عرفان کو حیران ہو کر دیکھنے لگے۔ تبھی سلسلہ مل گیا۔
السلام علیکم انکل۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ جی میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔ آپ سے کچھ ضرور ی کام تھا ۔۔۔ ہم کیس کے سلسلے میں سب انسپکٹر بشیر رضا کے پاس تحصیل روڈ صدر تھانے میں ہیں ۔۔۔ وہ ہماری مدد کرنے سے صاف انکار کررہے ہیں ۔۔۔ اگر آپ کہیں گے تو شاید وہ ما ن جائیں ۔۔۔ یہ لیجئے۔۔۔ ان سے بات کریں ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے موبائل سب انسپکٹر بشیر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس نے حیران ہو کر موبائل فون کو دیکھا اور پھر فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف سب انسپکٹر تنویر کی آواز سنائی دی۔
بشیر صاحب ۔۔۔ یہ بچے گھر کے ہی ہیں ۔۔۔ میں ان کے والد کو اور انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔۔۔ یہ لوگ سچائی کے ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔ اگر آپ سے کچھ پوچھ رہے ہیں تو انہیں صحیح معلومات فراہم کردیں‘‘ سب انسپکٹر تنویر کی نرم گرم آواز سنائی دی۔
ٹھیک ہے تنویر صاحب ۔۔۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں تو میں مان جاتا ہوں‘‘ سب انسپکٹر نے ہار مانتے ہوئے کہا اور موبائل فون عرفان کو واپس دے دیا۔ عرفان نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فون رکھ دیا۔ اب وہ سب ایک بار پھر سب انسپکٹر بشیر کی طرف مڑے ۔ تبھی اچانک وہ سب دھک سے رہ گئے۔ تھانے میں لگے ٹیلی ویژن میں لگی خبر نے ان کے ہوش اُڑ ادئیے۔ خبر میں بتایا جارہا تھا کہ جیسوال بم دھماکے کیس میں وکیل جیسوال خود ہی مجرم ہے اور اسی نے اپنے گھر میں دھماکا کروایا تاکہ اپنے بھائی کو موت کی نیند سلا سکے اور ہر بار کی طرح ایل ایل بی شہباز احمد نے نہ صرف جیسوال کو ہارا دیا ہے بلکہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی پہنچا دیا ہے ۔ یہ خبر سن کر ان کے چہرے برسوں کے بیمار نظرآنے لگے۔ اب کیس بند ہونے کے بعد ان کی کوئی بھی تفتیش کارآمد نہیں رہ گئی تھی۔ اب تو انہیں صرف اپنی بہن کی تلاش رہ گئی تھی۔آ ج پہلی بار اپنے والد کی جیت کی خوشی کے بجائے ان کے چہروں پر غم ہی غم نظر آرہا تھا اور وہ کھوئے کھوئے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
کتنی قسطیں ہیں شاہد بھائی ۔ کیا یہ شائع ہو چکا ہے؟ زبان و بیان کی اصلاح اگر لے لیتے تو بہتر تھا۔ درست کر کے شائع کرنے کے لئے میں تیار ہوں۔ یعنی ای پبلشنگ
کتنی قسطیں ہیں شاہد بھائی ۔ کیا یہ شائع ہو چکا ہے؟ زبان و بیان کی اصلاح اگر لے لیتے تو بہتر تھا۔ درست کر کے شائع کرنے کے لئے میں تیار ہوں۔ یعنی ای پبلشنگ
عرفان برادرز تحصیل روڈ صدر تھانے میں لگی ٹی وی سکرین کو غم و حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔فیصلہ ان کے والد کے حق میں تھا لیکن ان
کے چہرے مرجھا گئے تھے۔ دوسری طرف سب انسپکٹر بشیر رضا برے برے منہ بنا رہاتھا۔ آخر وہ چپ نہ رہ سکا:۔
اب تم میری طرف بھی متوجہ ہو جاؤ ۔۔۔کیا پوچھنا چاہتے ہو ‘‘ سب انسپکٹر بشیر رضا زبردستی مسکرایا۔
ایک چوری کی رپورٹ کے بارے میں ۔۔۔ کچھ دنوں پہلے سراج معین صاحب کی گاڑی چور ی ہوگئی تھی۔۔۔ انہوں نے گاڑی کی چوری کی رپورٹ بھی تھانے میں درج کروائی تھی ۔۔۔ اس چوری کی رپورٹ کا مکمل جائزہ لینا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس کیس کے سلسلے میں کیا اقدام اٹھائے گئے ‘‘ عرفان نے وضاحت کی۔
سراج معین صاحب کی گاڑی کی چوری کی رپورٹ! ۔۔۔ ہاں یاد آگیا۔۔۔ ہم نے کافی تلاش کرنے کے بعداس کیس کی فائل بند کر دی تھی اور سراج صاحب سے معذرت کر لی تھی۔۔۔ پھرا نہوں نے ایک نئی گاڑی خرید لی تھی‘‘ سب انسپکٹر نے چونک کر کہا۔
اور یہ کافی تلاش آپ نے کہاں کی۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔ اس چوری کے سلسلے میں آپ نے تلاش کہاں سے شروع کی اور کہاں ختم کی ‘‘سلطان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
ہر جگہ کی تھی لڑکے ۔۔۔ آس پاس کا ہر علاقہ چھان مارا تھا ۔۔۔ لیکن گاڑی کہیں نہیں ملی تھی ۔۔۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی چور کی شکل نظر نہیں آئی تھی ‘‘ سب انسپکٹر بشیر روانگی کے عالم میں کہہ گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج ۔۔۔ اوہ !۔۔۔ یعنی سراج صاحب کے گھر کے باہر کیمرہ لگا ہے ۔۔۔ پھر تو وہ فوٹیج ہم بھی دیکھنا چاہیں گے ‘‘ عرفان نے پر جوش عالم میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ شوکت ۔۔۔ ذرہ وہ سی ڈی لے آؤ جب میں سراج صاحب کے گھر کی باہر کی فوٹیج ہے ‘‘ سب انسپکٹر نے کانسٹبل کو پکارا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سی ڈی ان کے سامنے آگئی۔ سب انسپکٹر نے لیپ ٹوپ پر سی ڈی لگائی اور سکرین آن کی ۔ اگلے ہی پل وہ سب چونک کر سکرین پر لگی فوٹیج دیکھ رہے تھے۔رات کے اندھیرے میں سراج معین صاحب کی گاڑی گھر کے باہرصحن میں کھڑی تھی۔ تبھی ایک شخص گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا۔اندر داخل ہونے کے بعد صدر دروازے کی کنڈی کھولی۔ گاڑی کے پاس آیا۔ اپنی جیب سے ماسٹر چابی نکالی اور گاڑی کا لاک کھول کر اندر سوار ہوگیا۔پھر اس نے دوبارہ ماسٹر کی سے گاڑی کو سٹارٹ کیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ گاڑی لے کر گھر سے باہر نکلتا چلا گیا۔ دروازہ اس نے بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ مکمل فوٹیج دیکھ کر وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔
کمال ہے ۔۔۔ سراج صاحب رئیس و امیر انسان ہونے کے باوجود اس قدر کنجوس ہیں کہ گھر کے دروازے پر کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں رکھا‘‘ عدنان نے حیران ہو کر کہا۔
اس کی وجہ انہیں نے اِف آئی ار میں درج کرا دی تھی ۔۔۔ اُس دن اُن کا سیکورٹی گارڈ بیمار تھا اس لئے کام پر نہیں آیا تھا‘‘ سب انسپکٹر بشیر رضا منہ بنا کر بولا۔
خیر۔۔۔ گاڑی کے ٹائر کے نشان کے ذریعے آپ نے تفتیش کی ۔۔۔یعنی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ گھر سے ٹائر کے نشان کہاں تک جاتے ہیں‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
ہاں ۔۔۔ یہ کام بھی کیا گیاتھا ۔۔۔ ٹائر کے نشان سراج صاحب کے گھر سے ایک بند فیکٹری تک جاتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد غائب ہوجاتے ہیں ‘‘ سب انسپکٹر نے اکتا کر کہا۔
اور وہ بند فیکٹری کون سی ہے ۔۔۔ کس کی ہے ‘‘ عدنان نے پرجوش لہجے میں جلدی سے پوچھا۔
بند فیکٹری یہاں کے ایم این اے سلطان کے نام پر رجسٹرڈ ہے ۔۔۔ آج کل وہاں پر کام بند کر دیا گیا ہے ‘‘ سب انسپکٹر نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
لوبھئی ۔۔۔ سلطان ۔۔۔ اب تم بھی اس کیس میں پھنس جاؤ گے ‘‘ عمران نے سلطان کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
ارے باپ رے ۔۔۔ میری ایک فیکٹری بھی ہے۔۔۔اور میں یہاں کا ایم این اے بھی ہوں۔۔۔پھر تو میں واقعی پھنس جاؤں گا ‘‘ سلطان نے مصنوعی گھبراہٹ ظاہر کی جس پر عرفان اور عدنان اسے کھاجانے والے انداز میں دیکھنے لگے۔
بہرحال کچھ بھی ہو ۔۔۔ ہم اس فیکٹری میں جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔ اب ہمیں تفتیش کا اگلا قدم وہاں پہنچ کر ہی طے کرنا ہے ‘‘ عرفان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
لیکن میں یہ قدم تم لوگوں کے ساتھ طے کرنے کو تیار نہیں ہوں ۔۔۔ تم لوگ اکیلے ہی جاؤ گے کیونکہ میں اس کیس کی فائل بند کر چکا ہوں۔۔۔اور ویسے بھی علاقے کے ایم این اے کے خلاف میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا ‘‘ سب انسپکٹر نے صاف لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ نے ہماری اتنی مدد کی یہی کافی ہے ۔۔۔ اب ہم چلتے ہیں ۔۔۔ اگر ضرورت بھی پڑی تو آپ کو فون نہیں کریں گے ‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا اور پھر وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے ۔ سب انسپکٹر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور اپنی توجہ چائے اور سموسے پر ہی رکھی۔ وہ سب تھانے سے باہر نکل آئے۔باہر نکل کر انہوں نے ٹیکسی کے لئے نظریں دوڑائیں ۔ آخر انہیں ایک ٹیکسی نظر آگئی۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو ایم این اے سلطان کی فیکٹری کانام بتایا۔ وہ فوراً پتاسمجھ گیا اور ٹیکسی پوری رفتار سے چھوڑ دی۔ان سب کے دل دھک دھک کر رہے تھے ۔ اب وہ اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔نہ جانے اُنہیں کیوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب اُنہیں تفتیش کے لئے آگے کہیں نہیں جانا بلکہ یہاں پر ہی اُنہیں سادیہ مل جائے گی۔ آخر وہ بند فیکٹری کے پاس پہنچ گئے ۔ نیچے اتر کر انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا او ر پھر فیکٹری کے دروازے کی طرف بڑھے۔ یہاں ایک بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ انہوں نے الجھن کے عالم میں تالے کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں کے اشارے سے پوری فیکٹری کے اردگرد کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ سب فیکٹری کے صدر درواز ے سے ہٹ کر پیچھے کی طرف آئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھے ۔ پیچھے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آرہا تھاجس پر تالا نہیں لگا ہوا تھا۔ وہ سب جوش کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھے اور دباؤ ڈالا لیکن دروازہ اپنی جگہ سے ٹھس سے مس نہ ہوا۔ وہ سمجھ گئے کہ فیکٹری بند نہیں ہے بلکہ صرف صدر دروازے کو تالا لگا کر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فیکٹری بند ہے ۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی انہیں اپنی بہن کی یاد ستانے لگی۔ سادیہ کا چہرہ ان کی آنکھوں میں گھوم گیا۔آج تین دن ہوگئے تھے لیکن وہ اپنی بہن کو دیکھ نہیں سکے تھے ۔ نہ جانے وہ کس حال میں تھی؟ یہ سب ذہن میں آنے کی دیر تھی کہ انہیں نے اپنے ہوش و حواس کوپرے دھکیلااور پوری قوت سے دروازہ پیٹ ڈالا۔ کافی دیر تک وہ دروازہ بجاتے رہے لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ آخر انہو ں نے دروازہ توڑنے کا فیصلہ کرلیا۔چاروں پہلے پیچھے ہٹے اور پھر پوری قوت سے دروازے سے ٹکرائے۔ دروازہ اوندھے منہ پیچھے گرا۔دوسرے ہی لمحے وہ فیکٹری کے اندر داخل ہوچکے تھے لیکن ابھی وہ سنبھل بھی نہ سکے تھے کہ ان کے سروں کے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان کے سر وں پر کوئی بہت ہی وزنی چیز پھینک ماری ہو۔ وہ کٹے ہوئے تنے کی مانند زمین پر گرے اور پھر انہوں نے بے ہوش ہوتے ہوئے کسی کی چہکتی ہوئی آواز سنی :۔
یہ لوگ آئے تھے پیروں پر لیکن یہاں سے جائیں گے دوسروں کے کندھوں پر ‘‘ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی وہ تاریکی میں ڈوب گئے اور انہوں نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭
سب سے پہلے سلطان کو ہوش آیا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھا۔ اس کے سامنے اس کے بھائی رسیوں کے ذریعے الٹے لٹکے ہوئے تھے ۔اس نے اپنا جائزہ لیا۔ اس کے پاؤں بھی رسی کے سرے سے باندھے ہوئے تھے اور رسی چھت کے اوپر لوہے کے ڈنڈے کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی رسی کے سہارے الٹا لٹکا ہوا تھا۔ اس حال میں وہ خود کو نہایت تکلیف میں محسوس کر رہا تھا۔اِدھر اُدھر نظر یں دوڑانے پر اسے کچھ مٹی سے بھری ہوئی بوریاں نظر آئیں جن میں کچھ پتھر بھی شامل کئے گئے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اس وقت اسی بند فیکٹری میں ہے جہاں وہ تفتیش کرتے ہوئے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس نے فوراً اپنے بھائیوں کو پکارا۔ آخر ایک ایک کر کے عرفان عدنان اور عمران نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ آس پاس کاجائزہ لینے کے بعد وہ بھی باتیں کرنے کے قابل ہوگئے:۔
اس کا مطلب ہے ہم صحیح جگہ پہنچ گئے ہیں ۔۔۔ ہماری بہن کو بھی یہاں پر ہی اغوا کرکے رکھا گیا ہوگا ‘‘عرفا ن نے پریقین لہجے میں کہا۔
ہاں ۔۔۔ بالکل درست اندازہ لگایا ۔۔۔ تمہاری بہن کو جلد تمہارے سامنے لایا جارہا ہے ‘‘ بند فیکٹر ی میں آواز گونج اُٹھی۔ آواز سن کر وہ بری طرح چونک اُٹھے۔اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی بھی نظر نہ آیا۔ آواز ایک بار پھر سنائی دینے لگی:۔
چونکنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ تمہارے والد سے بھی ہم اسی طرح بات چیت کر چکے ہیں ‘‘ آواز مسکراتی ہوئی معلوم ہوئی۔
کیا مطلب !۔۔۔ ہمارے والد سے تم نے کب بات کی‘‘ عرفان حیرت انگیز لہجے میں بولا۔
تین دن پہلے جب تمہاری بہن کو اغوا کیا گیا تو ساتھ میں تمہارے والد ایل ایل بی شہباز کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔۔۔ انہیں اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ ہمارے لئے کیس لڑیں گے اور منظور کو رہا کرائیں گے ‘‘ اس آواز نے وضاحت کی۔
اوہ!۔۔۔ اس کا مطلب ہے اباجان اس لئے ہمیں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کر رہے تھے اور خود بھی جھوٹ کا ساتھ دے رہے تھے ۔۔۔ اب میں سمجھا ۔۔۔ مطلب ہمار ا شک بالکل ٹھیک تھا۔۔۔ سادیہ کا اغوا جیسوال بم دھماکہ کیس سے جڑا ہوا تھا‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے اندازمیں کہا۔
اب سمجھنے سمجھانے کا کام چھوڑولڑکے ۔۔۔ اور اپنی بہن سے ملاقات کرو‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی سادیہ ایک کونے سے باہر نکلتی نظر آئی۔ اسے دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئے ۔ وہ بے حدکمزور نظر آرہی تھی جیسے اسے پچھلے تین دن سے بھوکا رکھا گیاہو۔ اس کے ہاتھوں پر رسی کے سرخ نشان بھی نظر آرہے تھے۔ وہ کمزوری کے عالم میں چلتی ہوئی اداس چہرے سے اپنے بھائیوں کے پاس چلی آئی۔ اسے دیکھ کر ان سب کا خون کھول اُٹھا۔
ہماری بہن کی تم نے یہ کیا حالت بنا دی۔۔۔ اب ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں ‘‘ سلطان اور عرفان ایک ساتھ گرج کر بولے۔دوسری طرف سے قہقہہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ حیران ہو کر قہقہے سنتے رہے اور پھر ان سب کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ایک کالے نقاب میں ملبوس شخص دو کلاشن کوف والوں کے ساتھ باہر نکلتا نظر آیا۔ اس کی آنکھوں میں درندگی اور سفاکی صاف نظر آرہی تھی۔
مجھے چھوڑنے کی بات تو بعد میں کرنا ۔۔۔ پہلے تم سب دنیا چھوڑنے کی تیاری کرو‘‘ نقاب پوش غرایا۔دوسرے ہی لمحے اس نے کلاشن کوف بردراز کو اشارہ کیا۔کلاشن کوف ان کی طرف اُٹھ گئیں لیکن تبھی سادیہ کلاشن کوف کے سامنے آگئی۔
میرے بھائیوں کو مارنے سے پہلے مجھے مارو ‘‘ سادیہ جذباتی انداز میں بولی۔
سامنے سے ہٹ جاؤ سادیہ۔۔۔ یہ جذبات میں بہنے کا وقت نہیں ‘‘ عرفان نے سخت لہجے میں کہا لیکن سادیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔اس کی آنکھوں میں اپنے بھائیوں کے لئے موت سے لڑ جانے کا جذبہ نظر آرہا تھا۔ دوسری طرف اس کے بھائی اس کی زندگی کے لئے بے چین ہوگئے تھے۔تبھی!!!۔۔۔ نقاب پوش بے رحمی سے آگے بڑھا اور سادیہ کو پوری قو ت سے دھکا دیا۔ وہ ایک سیمنٹ کی بوری کے ساتھ جا ٹکرائی ۔ایک کراہ اس کے منہ سے نکلی۔ساتھ ہی اس کے ماتھے سے خون رسنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے وہ گنودگی کے عالم میں چلے گئی اور اس نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا ۔ اب نقاب پوش کے اشارے پر کلاشن کوف بردارز نے کلاشن کوف کی نال عرفان اور سلطان کی طرف کر دی ۔یہ دیکھ کر بھی ان کی آنکھوں میں موت کا خوف نظر نہیں آرہا تھا بلکہ سلطان کی آنکھوں میں اب بھی شرارت ہی شرارت تھی۔ اس کی لئے موت ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ دوسری طرف عرفان بھی مضبوط انداز میں کلاشن کوف بردراز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کا سامنے کرنے کو تیار تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں نے کلمہ طیبہ کا ورد بھی شروع کر دیا۔ اور پھر !!!۔۔۔ ایک زبردست فائر کی آواز فیکٹری میں گونج اُٹھی۔دوسرے ہی لمحے دل دوز چیخ نے فضا کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔
نقاب پوش کے اشارے پر کلاشن کوف بردارز نے کلاشن کوف کی نال عرفان اور سلطان کی طرف کر دی ۔یہ دیکھ کر بھی ان کی آنکھوں میں موت کا خوف نظر نہیں آرہا تھا بلکہ سلطان کی آنکھوں میں اب بھی شرارت ہی شرارت تھی۔ اس کی لئے موت ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ دوسری طرف عرفان بھی مضبوط انداز میں کلاشن کوف بردراز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کا سامنے کرنے کو تیار تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں نے کلمہ طیبہ کا ورد بھی شروع کر دیا۔ اور پھر !!!۔۔۔ ایک زبردست فائر کی آواز فیکٹری میں گونج اُٹھی۔دوسرے ہی لمحے دل دوز چیخ نے فضا کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔نقاب پوش چیخ سن کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ چیخ عرفان یا سلطان کی نہیں تھی بلکہ یہ چیخ تو ان دو کلاشن کوف بردراز کی تھی جو عرفان اور سلطان کو موت کے گھاٹ اتارنے والے تھے۔نقاب پوش نے حیرت کے عالم میں ان دو کلاشن کوف والوں کے ہاتھوں سے خون کا فوارہ بہتے ہوئے دیکھا۔ کلاشن کوفیں ان کے ہاتھ سے نکل کر دور زمین پر پڑی تھیں اور پھر فیکٹری کے پچھلے دروازے سے شہباز احمد مسکراتے ہوئے داخل ہوتے نظر آئے۔ ان کے ساتھ سب انسپکٹر تنویر اور ایک خوبصورت نوجوان بھی نظر آرہا تھا۔ سب انسپکٹر تنویر کے ہاتھ میں پستول تھا جس سے انہیں نے کلاشن کوف بردارز کے ہاتھوں پر فائر کئے تھے۔
اباجان ۔۔۔ زندہ باد‘‘ عرفان بردارز نے نعرہ لگایا۔دوسری طرف نقاب پوش کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔
میرا خیال ہے اس نقاب پوش کو گرفتار کرہی لیں تنویر صاحب ۔۔۔ اب تو جیل کی سلاخیں ہی اس کے نصیب میں ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔ سب انسپکٹر تنویر سر ہلاتا ہوا نقاب پوش کی طرف بڑھا لیکن تبھی !!!۔۔۔ وہ سب چونک اُٹھے۔ نقاب پوش نے بے ہوش سادیہ کی طرف چھلانگ لگائی اور اسے دونوں ہاتھوں سے اُٹھاتے ہوئے اس کے گلے پر اپنے دونوں ہاتھ جما دئیے اور خونخوار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
اگر ایک قد م بھی آگے بڑھایا تو سادیہ موت کی طرف قدم بڑھا دے گی ‘‘ نقاب پوش غرا کر بولا۔ان سب کی آنکھوں میں الجھن دوڑ گئی۔ شہباز احمد بھی ایک لمحے کے لئے پریشان ہوگئے۔سب انسپکٹر تنویر نے بے بسی کے عالم میں شہباز احمد کی طرف دیکھا ۔ انہوں نے واپس پیچھے ہٹنے کا اشارہ کر دیا۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔نقاب پوش کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ناچنے لگی۔ وہ سادیہ کے گلے پر اپنی گرفت رکھتے ہوئے فیکٹری کے دوسری کونے کی طرف بڑھنے لگا۔ اسی عالم میں سادیہ نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ یہ منظردیکھ اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ وہ سسکنے لگی۔ عرفان اور دوسرے بے چارگی کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے۔ نقاب پوش پیچھے ہٹتا جارہا تھا۔ اس کا رخ دروازے کی طرف تھا۔ تبھی ایک بار پھر ایک دلدوز چیخ فضا میں گونج اُٹھی۔ یہ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ خود نقاب پوش کی تھی۔ اس کے سر پر کسی نے بہت بھاری ڈنڈہ مارا تھا۔ اس کے ہاتھ سادیہ کے گلے پر جمے نہ رہ سکے اور وہ سادیہ کو چھوڑ کر اپنے سر کو پکڑ بیٹھا۔ سادیہ فوراً بھاگتے ہوئے اس کے پاس سے نکل کر شہباز احمد اور دوسروں کے پاس چلی آئی۔ اب وہاں موجود ہر شخص نے نقاب پوش کے پیچھے کی سمت دیکھا۔ اسے ڈنڈہ مار کر زخمی کرنے والا وہی نوجوان تھا جو شہباز احمد کے ساتھ فیکٹری میں داخل ہوا تھا۔ اس نوجوان پر نقاب پوش کا دھیان نہیں تھا لہٰذا موقع پا کر وہ بوریوں کے پیچھے دبک گیا اور دوسرے کونے سے نقاب پوش کے پیچھے سر پر پہنچ گیا اورپاس سے ایک لوہے کا ڈنڈہ اُٹھا کر اسے زخمی کر سادیہ کو چھڑا لیا۔ اس اجنبی نوجوان کے اس کارنامے پر دوسرے حیران رہ گئے۔ شہباز احمد کے چہرے پر بھی حیرت کے بادل تھے ۔ وہ اس اجنبی کو جانتے ضرور تھے لیکن اس کی اس قدر پھرتی سے وہ بھی لا علم تھے۔
ان کی تعریف کیا ہے اباجان ‘‘ عرفان نے اس اجنبی کو گھورتے ہوئے کہا۔
خادم کو شہزاد کہتے ہیں ‘‘ اجنبی نے تھوڑا سا جھک کر مسکرا کر کہا۔
کون سے خادم کو ‘‘ سلطان نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ کر پلکیں جھپکائیں۔
میرا مطلب ہے ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ مجھے شہزاد کہتے ہیں ‘‘ اجنبی نے بوکھلا کر کہا۔
میں نے اباجان سے پوچھا تھا ۔۔۔ آ پ سے نہیں ‘‘ عرفان نے قدرے خشک لہجے میں کہا۔
بیٹا ۔۔۔ یہ شہزاد ہیں ۔۔۔ مجھے ابھی تھوڑ ے دیر پہلے دفتر میں ملنے آئے تھے ۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ میرااسسٹنٹ منظور اگرچہ رہا ہوگیا ہے لیکن کیس کے مطالعہ کے بعد انہیں بھی اس پر شک بہرحال ہے ۔۔۔ میں نے ان کو ساری صورتحال بتا دی کہ مجھے منظور کا کیس لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔۔۔ اور اب میں خود بھی اسے اپنا اسسٹنٹ نہیں رکھوں گا ۔۔۔ بس یہ سن کر یہ ضد کرنے لگے کہ انہیں اپنا نیا اسسٹنٹ رکھ لوں ۔۔۔ آخر میں نے ہامی بھر لی ۔۔۔ تبھی مجھے تم لوگوں کا خیال آیا کہ تم لوگ نہ جانے گھر سے کہاں چلے گئے ہو ۔۔۔ تمہاری والدہ نے مجھے بتایا کہ تم سادیہ کی تلاش میں نکل پڑے ہو ۔۔۔ یہ سن کر میں اور فکر مند ہوگیا۔۔۔ میں نے سب انسپکٹر تنویر کو فو ن کیا کہ تمہاری تلاش شروع کردیں کیونکہ تمہیں گھر سے نکلے کافی وقت ہوگیا تھا ۔۔۔ فون پر مجھے سب انسپکٹر تنویر نے بتایا کہ تم لوگ کچھ دیر پہلے یہاں کے تھانے کے سب انسپکٹر بشیر رضا کے پاس موجود تھے ۔۔۔سب انسپکٹر بشیر رضا کو فون کیا تو انہوں نے اس فیکٹری کا پتا بتا دیا ۔۔۔یہ صاحب اس دوران دفتر میں ہی موجود رہے لہٰذا جب میں نے انہیں بتایا کہ میں تم لوگوں کی تلاش کے لئے جارہا ہوں تو انہوں نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کو بھی میں نے ساتھ لے لیا کیونکہ مجھے لگ رہاتھا کہ فیکٹری میں ہر طرح کے حالات پیش آسکتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا ہم تینوں نکل کھڑے ہوئے اور اس وقت یہاں نظر آرہے ہیں ۔۔۔ اور اب کچھ دیر بعد یہ نقاب پوش صاحب حوالات میں نظر آئیں گے ‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
لیکن سب سے پہلے ان کا نقاب تو چہر ہ پر سے ہٹایا جائے ۔۔۔ ذرہ دیکھیں تو ۔۔۔ اس نقاب کے پیچھے کس کا چہرہ پوشیدہ ہے ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان آگے بڑھا اور اس نے نقاب پوش کے چہرے سے نقاب نوچ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گئے۔انہیں حیرت کا ایک زبردست جھٹکا ۔ پھر وہ کھوئے کھوئے انداز میں اس چہرہ کودیکھنے لگے جو اس سارے ہنگامے کے پیچھے تھا۔
٭٭٭٭٭
تین دن بعد ایل ایل بی شہباز احمد عدالت میں جیسوال کی وکالت کرتے ہوئے اس کے دفاع میں کھڑے تھے۔ انہوں نے کیس کی فائل کو دوبارہ کھلوا لیا تھا اور جیل میں جا کر جیسوال کو اس بات پر بھی راضی کر لیا تھا کہ وہ انہیں اپنا وکیل مقرر کر لے۔ جیسوال بہت حیران تھا کیو نکہ اسے گناہ گار ثابت کرنے والے بھی شہباز احمد ہی تھے او راب اسے دوبارہ بے گناہ ثابت کرنے کے لئے بھی وہی اس کے دفاع میں لڑ رہے تھے۔جیسوال کو انہیں نے لا علم ہی رہنا دیا اور عدالت میں سچ سب کے سامنے لانے کا وعدہ کر دیا۔ اس وقت عدالت میں ایک طرف جیسوال مجرم کے کٹہرے میں کھڑاتھا تو دوسری طرف شہباز احمد مسکراتے ہوئے وکیل کی کرسی پر بیٹھے کیس کی فائل کو غور سے پڑ ھ رہے تھے ۔ پیچھے کرسیوں پر عرفان بردارز کے ساتھ ان کا کا نیا اسسٹنٹ شہزاد بھی بیٹھا ہوا تھا۔اس کے چہرے پر ایک دل کش مسکراہٹ تھی جیسے آج وہ پہلی مرتبہ عدالت آیا ہو اور شہباز احمد کا اسسٹنٹ بن کر اسے دنیا جہان کی خوشی مل گئی ہو۔ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ بیس اکیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔عرفا ن بردارز سے بس تین چار سال ہی عمر میں بڑا معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی پھرتی وہ تین دن پہلے فیکٹری میں دیکھ چکے تھے۔ شہزاد کے ساتھ ہی شہباز احمد کا سابقہ اسسٹنٹ منظور بھی حیرت بھرے انداز میں عدالت کی کرسی پربیٹھا ہوا تھا۔تبھی جج شکیل الرحمان عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر برجمان ہوگئے ۔ اب عدالت کی کروائی شروع ہوگئی:۔
شہباز صاحب ۔۔۔ اس کیس کو دوبارہ کھلوا نے آپ کا مقصد کیا ہے ۔۔۔ آپ نے خودہی تو ایم اے جیسوال کو مجرم ثابت کیا تھا ۔۔۔پھر اب آپ دوبارہ انہیں بے گناہ ثابت کیوں کرنا چاہتے ہیں ‘‘ جج صاحب الجھن کے عالم میں بولے۔
میں اعتراف کرتا ہوں جج صاحب کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ۔۔۔ جیسوال صاحب بالکل بے گناہ ہیں ۔۔۔ انہیں نے اپنے خاندان کو اور دوسرے مشہور وکلا کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا۔۔۔ان کے خلاف جس ٹیکسی ڈرائیور نے گواہی دی میں اسے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں ‘‘ شہباز احمد یہاں تک کہہ کر اجازت طلب نظروں سے جج صاحب کو دیکھنے لگے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے ہامی بھر لی۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی ڈرائیور کاشف کٹہرے میں داخل ہوا ۔ شہباز احمد اس کے قریب آئے اور اسے مخاطب کیا:۔
اب آپ اپنا اصل بیان ریکارڈ کروادیں ‘‘ شہباز احمد عجیب سے لہجے میں بولے۔
جی شہبا ز صاحب !!!۔۔۔ جج صاحب! ۔۔۔ دراصل پچھلی سنوائی میں ، میں نے بالکل جھوٹا بیان دیا تھا۔۔۔ مجھے جیسوال صاحب نے کسی قسم کی کوئی رشو ت نہیں دی تھی ۔۔۔ بلکہ رشوت تو مجھے شہباز صاحب نے د ی تھی اس جھوٹی گواہی کے لئے ۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں جج صاحب کہ میں نے پیسے لے کر جھوٹا بیان دیا ‘‘ ڈرائیور کاشف نے ندامت سے گردن جھکا لی۔
یہ آپ نے کیا لگا رکھاہے ۔۔۔ پچھلی سنوائی میں آپ نے کہا کہ آپ کا اُس سے پچھلی سنوائی والا بیان جھوٹا تھا ۔۔۔ اور اب آپ اس بار کہہ رہے ہیں کہ آپ کا پچھلی بار والا بیان جھوٹا تھا۔۔۔آپ نے عدالت کی کروائی کو مذاق سمجھ رکھا ہے ‘‘ جج صاحب گرج کر بولے۔
میں شرمندہ ہوں جج صاحب ۔۔۔ اصل بیان وہی تھا جو میں نے پچھلی سے پچھلی سنوائی میں دیا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے منظور کو گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ اور یہ بیان شہباز صاحب کے بچوں کا بھی تھا لیکن شہباز صاحب نے زبردستی ان سے بھی جھوٹا بیان دلوایا تھا ‘‘ ڈرائیور کاشف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
یہ سچ کہہ رہے ہیں جج صاحب ۔۔۔ میرے بچوں کو میں نے ہی جھوٹی گواہی پر مجبو ر کیااور پچھلی سنوائی سے پہلے ڈرائیور کاشف کو بھی میں نے پیسے دے کر جھوٹا بیان دینے پر راضی کیا۔۔۔ اس بات کی تصدیق کے لئے میں اپنے بچوں میں سے نمائندگی کے طور پر عرفان کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا‘‘ شہباز احمد نے جلدی جلدی کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب سرد آہ بھر کر بولے۔عرفان نے اپنی کرسی چھوڑی اور کٹہرے میں داخل ہوگیا۔ شہباز احمد اس سے مخاطب ہوئے۔
عرفان ۔۔۔ سچائی جج صاحب کو بتاؤ ‘‘ شہباز احمد نرم آواز میں بولے۔
جج صاحب ۔۔۔ پچھلی سے پچھلی سنوائی میں ہمیں اباجان نے ہی جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیاتھا۔۔۔ سچائی یہ ہے کہ ہم نے بھی منظور کو دھماکے کے بعد جیسوال صاحب کے گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔ ہم بھی اس جھوٹی گواہی پر شرمندہ ہیں ‘‘ عرفان نے نظریں جھکا لیں۔
میرا خیال ہے جج صاحب ۔۔۔ اب یہ بات شیشے کی طرح صاف ہوچکی ہے کہ منظور اس کیس میں مجرم ہے ۔۔۔ اس کے خلاف سب سے پہلے گواہ تو جیسوال صاحب خود ہیں جنہوں نے اسے اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔دوسرا گواہ ٹیکسی ڈرائیور کاشف ہے ۔۔۔ جو اسے گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھ چکا ہے ۔۔۔ تیسرے گواہ میرے چاروں بچے ہیں ۔۔۔ اگر انہیں الگ الگ گواہ کے طور پر لیا جائے تو گواہوں کی تعداد چھے ہو جائے گی ۔۔۔ اس کے بعد ساتویں گواہ سب انسپکٹر تنویر ہیں جنہوں نے موقع پر پہنچ کر زخمی منظور کو گرفتار کیا۔۔۔میرا خیال ہے اتنے گواہ منظور کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
اس کا مطلب ہے ۔۔۔ اس کیس میں اصل مجرم منظور ہی ہے ۔۔۔ اور جیسوال صاحب بے قصور ہیں ۔۔۔ پھر تو یہ عدالت ۔۔۔‘‘ جج صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہباز احمد بو ل پڑے:۔
ابھی فیصلہ سنانے میں جلدی نہ کریں جج صاحب ۔۔۔ اس کیس میں منظور مجرم ضرور ہے لیکن اس سے کسی اور نے یہ کام لیا ہے ۔۔۔ اصل مجرم اب بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔۔۔اُس اصل مجرم کو میں عدالت میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ جس نے نہ صرف جیسوال صاحب کے خاندان کا صفایا کیا بلکہ کئی مشہور وکلا کی بھی جانیں لیں ۔۔۔اور ساتھ ہی مجھے مجرم منظور کے خلاف کیس لڑنے پر مجبور کیا۔۔۔ میری بیٹی سادیہ کو اغوا کرکے اس اصل مجرم نے مجھے بھی اغواکیا اور یہ دھمکی دی کہ اگر میں نے گناہ گار منظور کو بے گناہ ثابت نہ کیا تو میری بیٹی کو موت کے گھاٹ اُتار دے گا۔۔۔ تین دن پہلے ہم اس اصل مجرم تک پہنچ گئے اور سادیہ کو رہائی نصیب ہوئی‘‘ شہباز احمد کہتے چلے گئے۔
اوہ !۔۔۔ اس کا مطلب ہے آپ نے یہ جھوٹی گواہیاں اس لئے دلوائی کہ آپ اپنی بیٹی کی جان بچانا چاہتے تھے ‘‘ جج صاحب نے حیران ہو کر کہا۔ جیسوال کے چہرے پر بھی حیرت نظر آنے لگی۔
جی ہاں جج صاحب ۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔۔ لیکن اس کیس میں مجھے مجبور کیا گیا تھا کہ میں ایک مجرم کا کیس لڑؤں ۔۔۔ مجرم کا کیس‘‘ شہباز احمد کی آواز عدالت میں گونج اُٹھی۔
پھر تو آپ کی سزا میں بھی نرمی کی جاسکتی ہے ۔۔۔ ورنہ میں آپ کو عدالت کو گمراہ کرنے کے جرم میں سخت سزا سنا سکتا تھا ‘‘ جج صاحب نے مطمئن ہو کر کہا۔
میں ہر سزا برداشت کرنے کو تیار ہوں جج صاحب ۔۔۔ کیونکہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن اس سے پہلے میں اس کیس کے اصل مجرم کو کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا جس نے یہ سارا کھیل کھیلا‘‘ شہباز احمد نے اجازت طلب نظریں جج صاحب کی طرف اُٹھائیں ۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے کہا۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد کی نگاہیں سب انسپکٹر تنویرکی طرف اُٹھ گئیں ۔ وہ فوراً عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ واپس آگیا۔اس بار سب انسپکٹر تنویر تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ اس شخص کی طرف دیکھ کر عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے نکلا:۔
اوہ !۔۔۔ تو یہ اصل مجرم ہے ‘‘ ۔
شہباز احمد کی نگاہیں سب انسپکٹر تنویرکی طرف اُٹھ گئیں ۔ وہ فوراً عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ واپس آگیا۔اس بار سب انسپکٹر تنویر تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ اس شخص کی طرف دیکھ کر عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے نکلا:۔
اوہ !۔۔۔ تو یہ اصل مجرم ہے ‘‘ ۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی عرفان بردارزفوراً پہچان گئے کہ یہ عظیم شفقت ہے ۔ وہی عظیم شفقت جو سراج معین صاحب کا پڑوسی تھا اور جس کے گھر تفتیش کرنے کے لئے عرفان بردارز گئے تھے اور پھر اس نے چوری کی رپورٹ کے سلسلے میں انہیں تھانے کی طرف بھیج دیا تھا۔ اسے یقین تھاکہ تھانے کا انسپکٹر بشیر رضا بہت گھمنڈی آدمی ہے اور انہیں تفتیش میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی انہیں فیکٹری کے پتا بتائے گا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ عرفان بردارز سب انسپکٹر تنویر سے فون کروا کر بشیر رضا کو مجبور کر دیں گے کہ وہ انہیں فیکٹری کا پتا بتادے جہاں سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کے بعد لے جائے گئی تھی۔اس وقت عظیم شفقت کی آنکھوں میں گہرے مایوسی کے بادل تھے اور اس کا چہرہ سرد پڑ گیا تھا۔
اب آپ عدالت کو مکمل کہانی سنائیں گے یا میں سناؤں ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اب میں سب کے سامنے آہی گیا ہوں تو عدالت کو کہانی سنانے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔ یہ کہانی ہے ایم اے جیسوال کے سیاہ کارنا مے کی ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ آ ج سے دو سال پہلے میرا بھائی رحیم شفقت ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کے دوران پکڑا گیا۔۔۔ ا ن دونوں ہمارے گھر کے حالات بہت تنگ تھے ۔۔۔ میرا انجینئرنگ کا شعبہ بھی مجھے نفع نہیں دے رہا تھا بلکہ غربت نے ہمیں فاقہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔ اس صورتحال سے تنگ آکر میرے بھائی نے ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کا پروگرام بنایا ۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت بینک کا سیکورٹی گارڈ اسے چکما دے کر پولیس کو فون کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ میرا بھائی گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔ اس ڈاکے کے دوران اس سے بینک سٹاف میں سے کسی شخص کا قتل بھی ہوگیا تھا ۔۔۔لہٰذا اس پر ایک ساتھ دو مقدمے دائر ہوئے ۔۔۔ ایک بینک لوٹنے کی کوشش کا مقدمہ ۔۔۔ اور دوسرا ایک شخص کا خون کرنے کا مقدمہ ۔۔۔ایم اے جیسوال عدالت میں اس کے مخالف وکیل کا کام سرانجام دے رہا تھا۔۔۔ میرے بھائی پر جرم ثابت کرنے میں اس نے صرف پانچ منٹ لگائے ۔۔۔ اور جج صاحب سے درخواست کرکے میرے بھائی کوپھانسی کی سزا دلوا دی ۔۔۔ میرے بھائی کو پھانسی ہونے کی دیر تھی کہ میرے والدجو بہت بوڑھے تھے اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور ایک ماہ بعد ہی دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے دنیا کو خیر آباد کہہ گئے ۔۔۔ اپنے شوہر اور اپنے جوان بیٹے کی موت کے بعد میری ماں بھی بھلا کب تک زندہ رہتی ۔۔۔ ایک دن اس کے کمر ے سے نیند کی گولیوں کی خالی ڈبیا ملی اور ساتھ میں اس کی میت بھی ۔۔۔میری ماں اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس پہنچ چکی تھی۔۔۔ میں اس دنیا میں تنہا رہ گیا۔۔۔ اوراس سب کا ذمہ دار تھا یہ ایم اے جیسوال ۔۔۔ اسی نے میرا سارا خاندان مٹا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ اب بدلہ لینے کی باری میری تھی۔۔۔میں نے کافی عرصہ منصوبہ بنانے میں صرف کیا۔۔۔ اور آخر میں نے مکمل منصوبے کا جائزہ لے کر میدان عمل میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔میں اور ایل ایل بی شہباز چونکہ ایک ہی جگہ پڑھے تھے اور اپنے الگ الگ شعبے کی طرف گامزن ہوگئے تھے ۔۔۔ اس وجہ سے میری شہباز احمد کے ساتھ دوستی تھی ۔۔۔ اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ شہباز احمد اور جیسوال کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے ۔۔۔ عدالت میں ایک دوسر ے کو شکست دینا ا ن دونوں کا شوق ہے ۔۔۔ شہباز احمد کی وجہ سے میں منظور کو بھی جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے تعلقات بھی جیسوال سے کچھ اچھے نہیں تھے ۔۔۔ جیسوال کی دشمنی منظور کے ساتھ بھی تھی کیونکہ وہ شہباز احمد کا اسسٹنٹ تھا۔۔۔ بس میں نے یہ سب کچھ سوچ کر منظور کواپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ میں نے اسے بھاری رقم کی پیش کش کی۔۔۔ آخر دو دن سوچنے کے بعد اس نے میرا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود میں جانتا تھا کہ منظور پھنس جائے گا اور میں چاہتا بھی یہی تھاکہ وہ پھنس جائے تاکہ شہباز احمد اس کا کیس لڑیں اور اسے بچاتے ہوئے شک کی انگلی جیسوال کی طرف جائے کیونکہ مجھے یہ بھی خبرتھی کہ جیسوال کے اپنے بھائی آکاش کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں ۔۔۔ اور اس کے قتل پر سب سے پہلے شک کی انگلی جیسوال کی طرف ہی جائے گی۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ جیسوال کا سارا گھرانہ بھی ختم ہوجائے اور وہ خود بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو۔۔۔ تب میرے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔۔۔لیکن مجھے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ شہباز احمد کسی کا بھی کیس پورے اطمینان کے بعد ہی ہاتھ میں لیتے ہیں اور اگر کیس کے دوران انہیں یہ ہلکا سا بھی شک ہو جائے کہ ان کا مؤکل ہی مجرم ہے تو وہ فوراً کیس چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ اور ان کا بیٹا عمران آنکھوں کے ذریعے چہرہ پڑھ لینے کا ماہر ہے ۔۔۔ منظور کا جرم ان سے چھپ نہیں سکے گا ۔۔۔ یہ سب سوچ کر مجھے اپنے منصوبے میں شہباز احمد کی بیٹی سادیہ کے اغوا کو بھی شامل کرنا پڑاتاکہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے منظور کا کیس لڑیں اور جیسوال کو کیس میں پھنسا کر منظور کو رہا کرا لیں۔۔۔اس کے لئے میں نے سراج معین صاحب کے سیکورٹی گارڈ کو پیسے کی لالچ دے کر ایک رات بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی کرنے پر راضی کیا۔۔۔ پھر اس رات اپنے کرایے کے ایک آدمی کے ذریعے سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کروالی۔۔۔علاقے کے ایم این اے سے میرے تعلقات کافی دوستانہ تھے ۔۔۔ میں نے اس سے کچھ دن کے لئے اس کی فیکٹری کرایے پر لے لی۔۔۔ اور سراج صاحب کی گاڑی فیکٹری کے اندر کھڑی کر دی۔۔۔ فیکٹری ویسے بھی بند پڑی ہوئی تھی اس لئے ایم این اے سلطان فوراً راضی ہوگیا۔۔۔اس کے بدلے میں ، میں نے اس کی جیب گرم کردی ۔۔۔پھر میں نے جیسوال کے والد پورب کمارکو فون کیا اور فون میں اسے بتایا کہ تمہارے بیٹے جیسوال کی جان خطرے میں ہے اور تمہارے دوسرے بیٹے یعنی آکاش کی سالگرہ کے دن جیسوال زندگی کی بازی ہار دے گاتو یہ سن کر وہ بہت فکر مند ہوگئے ۔۔۔ یہ بھی پروگرام کا حصہ تھا۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جیسوال عین دھماکے سے کچھ منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آئے اور خود دھماکے سے بچ جائے اور پھر سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائے ۔۔۔ میں چاہتاتھا کہ جس طرح میں نے اپنے والدین اور اپنے بھائی کی موت کا دکھ برداشت کیا ہے اسے بھی یہ دکھ برداشت کرنا پڑے ساتھ میں اس کی ساری عزت و شہرت بھی خاک میں مل جائے اور وہ زندگی کے باقی دن جیل میں رہ کر گزرے۔۔۔اس سب کے بعد اب منصوبے پر عمل کرنے کا اصل وقت آگیا تھا۔۔۔ سارا انتظامات مکمل ہو گئے تھے ۔۔۔مجھے خبر مل گئی تھی کہ جیسوال کے والد نے سالگرہ کا پروگرام ملتوی کرنے کی بات کی ہے لیکن جیسوال کہ چونکے پہلے ہی اپنے بھائی سے تعلقات خراب تھے اس لئے وہ یہ پروگرام کسی صورت بھی ملتوی کرنے کو تیار نہیں ہوا اور یہی میں چاہتا تھا۔۔۔ آخر سالگرہ والے دن دوپہر کو میرے آدمیوں نے سادیہ کو اغوا کر لیا۔۔۔ وہ اس وقت کسی کام سے اپنی سہیلی کے گھر جارہی تھی جب میرے آدمیوں نے اسے سراج صاحب کی گاڑی میں بیٹھایا اور اسے فیکٹری کی طرف لے آئے ۔۔۔ یہاں فیکٹری میں ،میں پہلے سے ہی اس کا استقبال کرنے کے لئے موجودتھا ۔۔۔دوسری طرف میں نے منظور کو جیسوال کے گھر کے پاس بم کے ساتھ بھیج دیا تھا۔۔۔ یہ بم بارود سے لیس تھا اور ایک ہی جھٹکے میں پورے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنا سکتا تھا اور جیسوال کے پورے خاندان کو چٹکیوں میں ختم کر سکتا تھا۔۔۔ منظور پر نظر رکھنے کے لئے اور حالات کی پل پل کی رپورٹ لینے کے لئے میں نے جیسوال کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر اپنے کچھ آدمی بھی مقرر کر دئیے تھے جو مجھے وہاں سے پل پل کی رپورٹ دے رہے تھے ۔۔۔ساتھ میں میں نے انہیں یہ بھی ہدایت کر دی تھی کہ گھر کے باہر کچھ مشکوک حرکات ضرور کرتے رہنا کہ جس سے جیسوال کے والد پورب کمار کو یقین ہو جائے کہ آج جیسوال زندہ نہیں بچے گا اور وہ اسے بچانے کے لئے بہانہ بنا کر گھر سے باہر بھیج دیں ۔۔۔اورپھرجیسے ہی مجھے یہ خبر ملی کہ جیسوال کے والد نے بہانہ بنا کر اسے گھر سے باہر بھیج دیا ہے اور پھر اس کے گھر دھماکا ہو چکا ہے اور جیسوال خود دھماکے سے چند منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آیا ہے اور اس نے منظور کو بھی گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو میں نے اپنے آدمیوں کے ذریعے شہباز احمد کو دفتر سے اغوا کروا لیا۔۔۔اغوا کرنے کے بعد انہیں فیکٹری میں پہنچا دیا گیا۔۔۔ موقع واردات سے مجھے خبر مل گئی کہ منظور کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے ۔۔۔ویسے بھی اگر اسے گرفتار نہ بھی کیا جاتا توبھی جیسوال اسے رنگے ہاتھوں دیکھ ہی چکا تھا اور یہ سب کچھ میرے منصوبے میں شامل بھی تھا۔۔۔ جیسوال کے والد کو فون کرنے کی ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھاکہ انہیں نے جیسوال کو گھر سے باہر بھیجا اور اس نے منظور کو بم لگانے کے بعد بھاگتے ہوئے دیکھ لیا۔۔۔ اب منظور کا گرفتار ہونا لازمی تھا کیونکہ اس کی گرفتاری کے بعد ہی شہباز احمد اس کا کیس لڑتے اور پھر جیسوال کی طرف شک کی انگلی جاتی اور اسے عمر قید کی سزا ہوتی ۔۔۔ اس طر ح میرا بدلہ پورا ہوتا۔۔۔تو بہرحال فیکٹری میں میری شہباز احمد سے بات چیت ہوئی ۔۔۔ میں نے انہیں سادیہ کی موت کی دھمکی دی اور ان کے سامنے سادیہ کو رسی کے سہارے الٹا لٹکا ہوا دکھایا ۔۔۔ شہباز احمد کانپ گئے اور بالآخر یہ کیس لڑنے پر مجبوراً تیار ہوگئے۔۔۔میں نے انہیں اپنے آدمیوں کے ذریعے وہاں بے ہوش کر کے ایک بار پھر انہیں ان کے دفتر میں پہنچا دیا ۔۔۔ اس کے بعد کے سارے حالات تو آپ سب جانتے ہی ہیں ‘‘ یہاں تک کہہ کر عظیم شفقت خاموش ہوگیا۔
دفاعی وکیل سرخرو ہوتا ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمدتھوڑا سا جھک کر بولے۔ پھر جج صاحب نے اپنے قلم سے فیصلہ لکھ دیا اور پھر قلم توڑ دی گئی۔
یہ عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عظیم شفقت کے اقبال جرم کے بعد عظیم شفقت کو جیسوال صاحب کے بھائی آکاش ان کے والد پورب کمار ان کی والدہ انایا کمار اور مشہور وکیل جن میں توفیق راشد، عمران اسماعیل اور کامران عرفان شامل ہیں،ان کے قتل میں گناہ گار پاتی ہے ۔۔۔اور اسے ان سارے لوگوں کے قتل میں ملوث دیکھ کر پھانسی کی سزا سناتی ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ شہباز احمد کوعدالت کو گمراہ کرنے میں قصور وار سمجھتی ہے اگرچہ انہیں نے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر یہ قدم اٹھایا اور بعد میں جیسوال صاحب کو بے گناہ ثابت کرکے اپنی غلطی کا ازالہ بھی کر دیا لیکن قانون کے مطابق عدالت کو گمراہ کرنابہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی بڑی سزا ملتی ہے لیکن شہباز احمد کی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر یہ عدالت انہیں صرف ایک ماہ تک وکالت کرنے پر پابند ی عائد کرتی ہے ۔۔۔ کیس کی فائل بند ہوتی ہے ‘‘ جج صاحب شکیل الرحمان نے ہتھوڑا لکڑی کی پلیٹ پر مارا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ دوسری طرف عظیم شفقت کی آنکھوں میں ندامت بالکل نہیں تھی۔ اسے تو یقین تھا کہ وہ پھانسی کے بعد اپنے خاندان سے جاملے گا لیکن اس کی آنکھوں میں مایوسی بھی نظر آرہی تھی کہ وہ اپنا بدلہ پورا نہیں کر پایا تھا۔جیسوال کٹہرے سے مسکراتے ہوئے باہر نکلا اور بے اختیار شہباز احمد کو گلے لگا لیا۔شہباز احمد بھی مسکرا دئیے ۔
کیاہوا جیسوال صاحب ۔۔۔ ہر بار کیس کے آخر میں تو آپ مجھے گھورتے ہوئے عدالت سے باہر نکل جاتے ہیں ۔۔۔ آج مجھے گلے لگارہے ہیں ‘‘ شہباز احمد چہک کر بولے۔
ہر بارآپ سچائی کو ہی فتح دلا کر کیس کو ختم کرتے ہیں ۔۔۔ اور اس بار بھی آپ نے سچائی کو ہی جیتایا ۔۔۔میں شرمندہ ہوں کہ میں نے پچھلی سنوائی کے آخر میں آپ کو کچھ تلخ جملے بو ل دئیے تھے ۔۔۔ آپ تو ہر بار کی طرح اس بار بھی اس دنیاکی عدالت میں بھی سرخروہوئے ہیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں بھی سرخرو ہوئے ہیں ۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگلی زندگی میں آپ اوپر والے کی عدالت میں بھی سرخرو ہونگے‘‘جیسوال نے خوشی سے لبریز اندا ز میں کہا۔
انشااللہ ‘‘ شہباز احمد کے منہ سے نکلا۔پھر جیسوال شہباز احمد سے ہاتھ ملاتا ہوا عدالت سے باہر نکل گیا۔ اب شہباز احمد کی نظریں اپنے بچوں کی طر ف گئیں۔ان سب کے چہروں پر زمانے بھر کی خوشی تھی۔ اسی خوشی کو ساتھ لئے وہ اپنے گھر پہنچے ۔ شہزاد بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ یہاں بیگم شہباز نے طرح طرح کے لوازمات تیار کر رکھے تھے ۔ وہ بھی ٹی وی نیوز چینل پر یہ ساری کاروائی سن چکی تھیں اور خوشی کا ایک سمندر ان کے چہرے پر تھا۔ اِسی عالم میں پکوڑے کھاتے ہوئے سلطان کے ذہن میں سوال اُبھرا۔
اباجان ۔۔۔ اب آپ کو ایک ماہ کی چھٹی مل چکی ہے تو شہزاد صاحب ایک ماہ تک کیا کریں گے ۔۔۔ انہیں تو مفت میں ایک ماہ کی تنخواہ مل جائے گی ‘‘ سلطان نے شہزاد کی طرف دیکھ کر چوٹ کی۔
تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔۔۔ جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں ۔۔۔ شہزاد صاحب کی بھی وہی مثال ہے ‘‘ عمران مسکرایا۔
آپ کے بچے بہت شریر ہیں ۔۔۔اگر آپ کہتے ہیں تو میں اس ماہ کی تنخواہ نہیں لوں گا۔۔۔ اور میں توویسے بھی مفت میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔ آپ کے ساتھ کام کرنے سے زیادہ خوش قسمتی میرے لئے کیا ہوسکتی ہے ‘‘ شہزاد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔ آپ مفت میں ہمارے لئے کام کر سکتے ہیں ‘‘ سلطان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا جس پر ان سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی البتہ شہزاد اکامنہ اور بن گیا۔
سلطان کی با ت کا برانہ مانئے گا شہزاد صاحب ۔۔۔ یہ تھوڑا شوخ مزاج واقعے ہوا ہے ‘‘ شہباز احمد مسکراکر بولے۔
اباجان ۔۔۔ تھوڑا تو نہ کہیں ۔۔۔ میں نے بہت زیادہ شوخ مزاج ہوں ‘‘ سلطا ن نے ناراضگی سے کہا۔
لگتا ہے ۔۔۔ آج سب نے ناراض ہونے کی ہی ٹھان رکھی ہے ۔۔۔ پھر تو یہ پکوڑے پلیٹ میں ہی بھلے ‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے جس پر وہاں ایک قہقہہ گونج اُٹھا۔اور پھر وہ سب یہ ایک ماہ کس طرح گزاریں گے ؟ اس بات پر غور کرنے لگے۔
شہباز احمد کی نگاہیں سب انسپکٹر تنویرکی طرف اُٹھ گئیں ۔ وہ فوراً عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ واپس آگیا۔اس بار سب انسپکٹر تنویر تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ اس شخص کی طرف دیکھ کر عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے نکلا:۔
اوہ !۔۔۔ تو یہ اصل مجرم ہے ‘‘ ۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی عرفان بردارزفوراً پہچان گئے کہ یہ عظیم شفقت ہے ۔ وہی عظیم شفقت جو سراج معین صاحب کا پڑوسی تھا اور جس کے گھر تفتیش کرنے کے لئے عرفان بردارز گئے تھے اور پھر اس نے چوری کی رپورٹ کے سلسلے میں انہیں تھانے کی طرف بھیج دیا تھا۔ اسے یقین تھاکہ تھانے کا انسپکٹر بشیر رضا بہت گھمنڈی آدمی ہے اور انہیں تفتیش میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی انہیں فیکٹری کے پتا بتائے گا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ عرفان بردارز سب انسپکٹر تنویر سے فون کروا کر بشیر رضا کو مجبور کر دیں گے کہ وہ انہیں فیکٹری کا پتا بتادے جہاں سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کے بعد لے جائے گئی تھی۔اس وقت عظیم شفقت کی آنکھوں میں گہرے مایوسی کے بادل تھے اور اس کا چہرہ سرد پڑ گیا تھا۔
اب آپ عدالت کو مکمل کہانی سنائیں گے یا میں سناؤں ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اب میں سب کے سامنے آہی گیا ہوں تو عدالت کو کہانی سنانے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔ یہ کہانی ہے ایم اے جیسوال کے سیاہ کارنا مے کی ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ آ ج سے دو سال پہلے میرا بھائی رحیم شفقت ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کے دوران پکڑا گیا۔۔۔ ا ن دونوں ہمارے گھر کے حالات بہت تنگ تھے ۔۔۔ میرا انجینئرنگ کا شعبہ بھی مجھے نفع نہیں دے رہا تھا بلکہ غربت نے ہمیں فاقہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔ اس صورتحال سے تنگ آکر میرے بھائی نے ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کا پروگرام بنایا ۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت بینک کا سیکورٹی گارڈ اسے چکما دے کر پولیس کو فون کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ میرا بھائی گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔ اس ڈاکے کے دوران اس سے بینک سٹاف میں سے کسی شخص کا قتل بھی ہوگیا تھا ۔۔۔لہٰذا اس پر ایک ساتھ دو مقدمے دائر ہوئے ۔۔۔ ایک بینک لوٹنے کی کوشش کا مقدمہ ۔۔۔ اور دوسرا ایک شخص کا خون کرنے کا مقدمہ ۔۔۔ایم اے جیسوال عدالت میں اس کے مخالف وکیل کا کام سرانجام دے رہا تھا۔۔۔ میرے بھائی پر جرم ثابت کرنے میں اس نے صرف پانچ منٹ لگائے ۔۔۔ اور جج صاحب سے درخواست کرکے میرے بھائی کوپھانسی کی سزا دلوا دی ۔۔۔ میرے بھائی کو پھانسی ہونے کی دیر تھی کہ میرے والدجو بہت بوڑھے تھے اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور ایک ماہ بعد ہی دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے دنیا کو خیر آباد کہہ گئے ۔۔۔ اپنے شوہر اور اپنے جوان بیٹے کی موت کے بعد میری ماں بھی بھلا کب تک زندہ رہتی ۔۔۔ ایک دن اس کے کمر ے سے نیند کی گولیوں کی خالی ڈبیا ملی اور ساتھ میں اس کی میت بھی ۔۔۔میری ماں اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس پہنچ چکی تھی۔۔۔ میں اس دنیا میں تنہا رہ گیا۔۔۔ اوراس سب کا ذمہ دار تھا یہ ایم اے جیسوال ۔۔۔ اسی نے میرا سارا خاندان مٹا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ اب بدلہ لینے کی باری میری تھی۔۔۔میں نے کافی عرصہ منصوبہ بنانے میں صرف کیا۔۔۔ اور آخر میں نے مکمل منصوبے کا جائزہ لے کر میدان عمل میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔میں اور ایل ایل بی شہباز چونکہ ایک ہی جگہ پڑھے تھے اور اپنے الگ الگ شعبے کی طرف گامزن ہوگئے تھے ۔۔۔ اس وجہ سے میری شہباز احمد کے ساتھ دوستی تھی ۔۔۔ اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ شہباز احمد اور جیسوال کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے ۔۔۔ عدالت میں ایک دوسر ے کو شکست دینا ا ن دونوں کا شوق ہے ۔۔۔ شہباز احمد کی وجہ سے میں منظور کو بھی جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے تعلقات بھی جیسوال سے کچھ اچھے نہیں تھے ۔۔۔ جیسوال کی دشمنی منظور کے ساتھ بھی تھی کیونکہ وہ شہباز احمد کا اسسٹنٹ تھا۔۔۔ بس میں نے یہ سب کچھ سوچ کر منظور کواپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ میں نے اسے بھاری رقم کی پیش کش کی۔۔۔ آخر دو دن سوچنے کے بعد اس نے میرا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود میں جانتا تھا کہ منظور پھنس جائے گا اور میں چاہتا بھی یہی تھاکہ وہ پھنس جائے تاکہ شہباز احمد اس کا کیس لڑیں اور اسے بچاتے ہوئے شک کی انگلی جیسوال کی طرف جائے کیونکہ مجھے یہ بھی خبرتھی کہ جیسوال کے اپنے بھائی آکاش کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں ۔۔۔ اور اس کے قتل پر سب سے پہلے شک کی انگلی جیسوال کی طرف ہی جائے گی۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ جیسوال کا سارا گھرانہ بھی ختم ہوجائے اور وہ خود بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو۔۔۔ تب میرے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔۔۔لیکن مجھے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ شہباز احمد کسی کا بھی کیس پورے اطمینان کے بعد ہی ہاتھ میں لیتے ہیں اور اگر کیس کے دوران انہیں یہ ہلکا سا بھی شک ہو جائے کہ ان کا مؤکل ہی مجرم ہے تو وہ فوراً کیس چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ اور ان کا بیٹا عمران آنکھوں کے ذریعے چہرہ پڑھ لینے کا ماہر ہے ۔۔۔ منظور کا جرم ان سے چھپ نہیں سکے گا ۔۔۔ یہ سب سوچ کر مجھے اپنے منصوبے میں شہباز احمد کی بیٹی سادیہ کے اغوا کو بھی شامل کرنا پڑاتاکہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے منظور کا کیس لڑیں اور جیسوال کو کیس میں پھنسا کر منظور کو رہا کرا لیں۔۔۔اس کے لئے میں نے سراج معین صاحب کے سیکورٹی گارڈ کو پیسے کی لالچ دے کر ایک رات بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی کرنے پر راضی کیا۔۔۔ پھر اس رات اپنے کرایے کے ایک آدمی کے ذریعے سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کروالی۔۔۔علاقے کے ایم این اے سے میرے تعلقات کافی دوستانہ تھے ۔۔۔ میں نے اس سے کچھ دن کے لئے اس کی فیکٹری کرایے پر لے لی۔۔۔ اور سراج صاحب کی گاڑی فیکٹری کے اندر کھڑی کر دی۔۔۔ فیکٹری ویسے بھی بند پڑی ہوئی تھی اس لئے ایم این اے سلطان فوراً راضی ہوگیا۔۔۔اس کے بدلے میں ، میں نے اس کی جیب گرم کردی ۔۔۔پھر میں نے جیسوال کے والد پورب کمارکو فون کیا اور فون میں اسے بتایا کہ تمہارے بیٹے جیسوال کی جان خطرے میں ہے اور تمہارے دوسرے بیٹے یعنی آکاش کی سالگرہ کے دن جیسوال زندگی کی بازی ہار دے گاتو یہ سن کر وہ بہت فکر مند ہوگئے ۔۔۔ یہ بھی پروگرام کا حصہ تھا۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جیسوال عین دھماکے سے کچھ منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آئے اور خود دھماکے سے بچ جائے اور پھر سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائے ۔۔۔ میں چاہتاتھا کہ جس طرح میں نے اپنے والدین اور اپنے بھائی کی موت کا دکھ برداشت کیا ہے اسے بھی یہ دکھ برداشت کرنا پڑے ساتھ میں اس کی ساری عزت و شہرت بھی خاک میں مل جائے اور وہ زندگی کے باقی دن جیل میں رہ کر گزرے۔۔۔اس سب کے بعد اب منصوبے پر عمل کرنے کا اصل وقت آگیا تھا۔۔۔ سارا انتظامات مکمل ہو گئے تھے ۔۔۔مجھے خبر مل گئی تھی کہ جیسوال کے والد نے سالگرہ کا پروگرام ملتوی کرنے کی بات کی ہے لیکن جیسوال کہ چونکے پہلے ہی اپنے بھائی سے تعلقات خراب تھے اس لئے وہ یہ پروگرام کسی صورت بھی ملتوی کرنے کو تیار نہیں ہوا اور یہی میں چاہتا تھا۔۔۔ آخر سالگرہ والے دن دوپہر کو میرے آدمیوں نے سادیہ کو اغوا کر لیا۔۔۔ وہ اس وقت کسی کام سے اپنی سہیلی کے گھر جارہی تھی جب میرے آدمیوں نے اسے سراج صاحب کی گاڑی میں بیٹھایا اور اسے فیکٹری کی طرف لے آئے ۔۔۔ یہاں فیکٹری میں ،میں پہلے سے ہی اس کا استقبال کرنے کے لئے موجودتھا ۔۔۔دوسری طرف میں نے منظور کو جیسوال کے گھر کے پاس بم کے ساتھ بھیج دیا تھا۔۔۔ یہ بم بارود سے لیس تھا اور ایک ہی جھٹکے میں پورے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنا سکتا تھا اور جیسوال کے پورے خاندان کو چٹکیوں میں ختم کر سکتا تھا۔۔۔ منظور پر نظر رکھنے کے لئے اور حالات کی پل پل کی رپورٹ لینے کے لئے میں نے جیسوال کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر اپنے کچھ آدمی بھی مقرر کر دئیے تھے جو مجھے وہاں سے پل پل کی رپورٹ دے رہے تھے ۔۔۔ساتھ میں میں نے انہیں یہ بھی ہدایت کر دی تھی کہ گھر کے باہر کچھ مشکوک حرکات ضرور کرتے رہنا کہ جس سے جیسوال کے والد پورب کمار کو یقین ہو جائے کہ آج جیسوال زندہ نہیں بچے گا اور وہ اسے بچانے کے لئے بہانہ بنا کر گھر سے باہر بھیج دیں ۔۔۔اورپھرجیسے ہی مجھے یہ خبر ملی کہ جیسوال کے والد نے بہانہ بنا کر اسے گھر سے باہر بھیج دیا ہے اور پھر اس کے گھر دھماکا ہو چکا ہے اور جیسوال خود دھماکے سے چند منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آیا ہے اور اس نے منظور کو بھی گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو میں نے اپنے آدمیوں کے ذریعے شہباز احمد کو دفتر سے اغوا کروا لیا۔۔۔اغوا کرنے کے بعد انہیں فیکٹری میں پہنچا دیا گیا۔۔۔ موقع واردات سے مجھے خبر مل گئی کہ منظور کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے ۔۔۔ویسے بھی اگر اسے گرفتار نہ بھی کیا جاتا توبھی جیسوال اسے رنگے ہاتھوں دیکھ ہی چکا تھا اور یہ سب کچھ میرے منصوبے میں شامل بھی تھا۔۔۔ جیسوال کے والد کو فون کرنے کی ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھاکہ انہیں نے جیسوال کو گھر سے باہر بھیجا اور اس نے منظور کو بم لگانے کے بعد بھاگتے ہوئے دیکھ لیا۔۔۔ اب منظور کا گرفتار ہونا لازمی تھا کیونکہ اس کی گرفتاری کے بعد ہی شہباز احمد اس کا کیس لڑتے اور پھر جیسوال کی طرف شک کی انگلی جاتی اور اسے عمر قید کی سزا ہوتی ۔۔۔ اس طر ح میرا بدلہ پورا ہوتا۔۔۔تو بہرحال فیکٹری میں میری شہباز احمد سے بات چیت ہوئی ۔۔۔ میں نے انہیں سادیہ کی موت کی دھمکی دی اور ان کے سامنے سادیہ کو رسی کے سہارے الٹا لٹکا ہوا دکھایا ۔۔۔ شہباز احمد کانپ گئے اور بالآخر یہ کیس لڑنے پر مجبوراً تیار ہوگئے۔۔۔میں نے انہیں اپنے آدمیوں کے ذریعے وہاں بے ہوش کر کے ایک بار پھر انہیں ان کے دفتر میں پہنچا دیا ۔۔۔ اس کے بعد کے سارے حالات تو آپ سب جانتے ہی ہیں ‘‘ یہاں تک کہہ کر عظیم شفقت خاموش ہوگیا۔
دفاعی وکیل سرخرو ہوتا ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمدتھوڑا سا جھک کر بولے۔ پھر جج صاحب نے اپنے قلم سے فیصلہ لکھ دیا اور پھر قلم توڑ دی گئی۔
یہ عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عظیم شفقت کے اقبال جرم کے بعد عظیم شفقت کو جیسوال صاحب کے بھائی آکاش ان کے والد پورب کمار ان کی والدہ انایا کمار اور مشہور وکیل جن میں توفیق راشد، عمران اسماعیل اور کامران عرفان شامل ہیں،ان کے قتل میں گناہ گار پاتی ہے ۔۔۔اور اسے ان سارے لوگوں کے قتل میں ملوث دیکھ کر پھانسی کی سزا سناتی ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ شہباز احمد کوعدالت کو گمراہ کرنے میں قصور وار سمجھتی ہے اگرچہ انہیں نے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر یہ قدم اٹھایا اور بعد میں جیسوال صاحب کو بے گناہ ثابت کرکے اپنی غلطی کا ازالہ بھی کر دیا لیکن قانون کے مطابق عدالت کو گمراہ کرنابہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی بڑی سزا ملتی ہے لیکن شہباز احمد کی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر یہ عدالت انہیں صرف ایک ماہ تک وکالت کرنے پر پابند ی عائد کرتی ہے ۔۔۔ کیس کی فائل بند ہوتی ہے ‘‘ جج صاحب شکیل الرحمان نے ہتھوڑا لکڑی کی پلیٹ پر مارا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ دوسری طرف عظیم شفقت کی آنکھوں میں ندامت بالکل نہیں تھی۔ اسے تو یقین تھا کہ وہ پھانسی کے بعد اپنے خاندان سے جاملے گا لیکن اس کی آنکھوں میں مایوسی بھی نظر آرہی تھی کہ وہ اپنا بدلہ پورا نہیں کر پایا تھا۔جیسوال کٹہرے سے مسکراتے ہوئے باہر نکلا اور بے اختیار شہباز احمد کو گلے لگا لیا۔شہباز احمد بھی مسکرا دئیے ۔
کیاہوا جیسوال صاحب ۔۔۔ ہر بار کیس کے آخر میں تو آپ مجھے گھورتے ہوئے عدالت سے باہر نکل جاتے ہیں ۔۔۔ آج مجھے گلے لگارہے ہیں ‘‘ شہباز احمد چہک کر بولے۔
ہر بارآپ سچائی کو ہی فتح دلا کر کیس کو ختم کرتے ہیں ۔۔۔ اور اس بار بھی آپ نے سچائی کو ہی جیتایا ۔۔۔میں شرمندہ ہوں کہ میں نے پچھلی سنوائی کے آخر میں آپ کو کچھ تلخ جملے بو ل دئیے تھے ۔۔۔ آپ تو ہر بار کی طرح اس بار بھی اس دنیاکی عدالت میں بھی سرخروہوئے ہیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں بھی سرخرو ہوئے ہیں ۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگلی زندگی میں آپ اوپر والے کی عدالت میں بھی سرخرو ہونگے‘‘جیسوال نے خوشی سے لبریز اندا ز میں کہا۔
انشااللہ ‘‘ شہباز احمد کے منہ سے نکلا۔پھر جیسوال شہباز احمد سے ہاتھ ملاتا ہوا عدالت سے باہر نکل گیا۔ اب شہباز احمد کی نظریں اپنے بچوں کی طر ف گئیں۔ان سب کے چہروں پر زمانے بھر کی خوشی تھی۔ اسی خوشی کو ساتھ لئے وہ اپنے گھر پہنچے ۔ شہزاد بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ یہاں بیگم شہباز نے طرح طرح کے لوازمات تیار کر رکھے تھے ۔ وہ بھی ٹی وی نیوز چینل پر یہ ساری کاروائی سن چکی تھیں اور خوشی کا ایک سمندر ان کے چہرے پر تھا۔ اِسی عالم میں پکوڑے کھاتے ہوئے سلطان کے ذہن میں سوال اُبھرا۔
اباجان ۔۔۔ اب آپ کو ایک ماہ کی چھٹی مل چکی ہے تو شہزاد صاحب ایک ماہ تک کیا کریں گے ۔۔۔ انہیں تو مفت میں ایک ماہ کی تنخواہ مل جائے گی ‘‘ سلطان نے شہزاد کی طرف دیکھ کر چوٹ کی۔
تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔۔۔ جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں ۔۔۔ شہزاد صاحب کی بھی وہی مثال ہے ‘‘ عمران مسکرایا۔
آپ کے بچے بہت شریر ہیں ۔۔۔اگر آپ کہتے ہیں تو میں اس ماہ کی تنخواہ نہیں لوں گا۔۔۔ اور میں توویسے بھی مفت میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔ آپ کے ساتھ کام کرنے سے زیادہ خوش قسمتی میرے لئے کیا ہوسکتی ہے ‘‘ شہزاد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔ آپ مفت میں ہمارے لئے کام کر سکتے ہیں ‘‘ سلطان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا جس پر ان سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی البتہ شہزاد اکامنہ اور بن گیا۔
سلطان کی با ت کا برانہ مانئے گا شہزاد صاحب ۔۔۔ یہ تھوڑا شوخ مزاج واقعے ہوا ہے ‘‘ شہباز احمد مسکراکر بولے۔
اباجان ۔۔۔ تھوڑا تو نہ کہیں ۔۔۔ میں نے بہت زیادہ شوخ مزاج ہوں ‘‘ سلطا ن نے ناراضگی سے کہا۔
لگتا ہے ۔۔۔ آج سب نے ناراض ہونے کی ہی ٹھان رکھی ہے ۔۔۔ پھر تو یہ پکوڑے پلیٹ میں ہی بھلے ‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے جس پر وہاں ایک قہقہہ گونج اُٹھا۔اور پھر وہ سب یہ ایک ماہ کس طرح گزاریں گے ؟ اس بات پر غور کرنے لگے۔