عبدالحسیب
محفلین
مجسّمہ
اے سیاہ فام حسینہ ترا عریاں پیکر
کتنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں غلطیدہ ہے
جانے کس دورِالمناک سے لے کر اب تک
تو کڑے وقت کے زندانوں میں خوابیدہ ہے
تیرے شب رنگ ہیولے کے یہ بے جان نقوش
جیسے مربوط خیالات کے تانے بانے
یہ تیرے سانولی رنگت یہ پریشاں خطوط
بارہا جیسے مٹایا ہو انھیں دنیا نے
ریشئہ سنگ سے کھینچی ہوئی زلفیں جیسے
راستے سینئہ کہسار پہ بل کھاتے ہیں
آبروؤں کی جھکی محرابوں میں جامد پلکیں
جس طرح تیر کمانوں میں الجھ جاتے ہیں
منجمد ہونٹوں پہ سنّاٹوں کا سنگین تلسم
جیسے نایاب خزانوں پہ کڑے پہرے ہوں
تند جزبات سے بھر پور برہنہ سینہ
جیسے سستانے کو طوفان ذرا ٹھرے ہوں
جیسے یونان کے مغرور خداوندوں نے
ریگزارانِ حبش کی کسی شہزادی کو
تشنہ روحوں کے ہوسناک تعیّش کے لیے
حجلّہِ سنگ میں پابند بنا رکھا ہو