مجلسِ ادب (جون 20 تا جون 30) 2007ء

نوید صادق

محفلین
مجلسِ ادب کے توسط سے جو آراء وصول ہوتی ہیں۔ وہ تو ہم اردومحفل میں اپلوڈ کر دیتے ہیں۔اس بار ہم بحث کے آغاز سے ہی غزل یہاں پیش کر رہے ہیں کہ جو آراء اردو محفل میں موصول ہوں وہ بھی دونوں فورمز پر اپلوڈ کی جا سکیں۔
اس بار امجد شہزاد کی غزل پیش کی جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں ، اردو محفل اس پر کیا رائے قائم کرتی ہے۔

نوید صادق
 

نوید صادق

محفلین
غزل- امجد شہزاد

غزل

میں بوریا نشیں ہوں مرا گھر نہیں کہیں
اے تو! مرے نصیب، مجھے مل یہیں کہیں

یوں تو ہر ایک سمت اندھیرا ہے اور بس
لیکن دکھائی دے ہے اجالا کہیں کہیں

آکاش دیکھ اپنی پناہوں میں رکھ مجھے
ایسا نہ ہو کہ بھینچ لے مجھ کو زمیں کہیں

اک راہ دوسری سے مگر منسلک تو ہے
میرا گمان اور کہیں ہے یقیں کہیں

ایسا بھی ہے کہ کوئی تصادم نہیں ہوا
لیکن مکان اور کہیں ہے مکیں کہیں

سر پر مرے قریب کا سورج چمکتا ہے
اور دور تک شجر کا نشاں تک نہیں کہیں

(امجد شہزاد)
واہ کینٹ
 

نوید صادق

محفلین
مسعود منور غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں

مسعود منور غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں:
امجد شہزاد کے لیے ایک مشورہ
تازہ غزل،ہوا کا تازہ جھونکا،نو شگفتہ گل اور ایک نامانوس چہرا میرے لیے یکساں نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔میں نے امجد شہزاد صاحب کا نام ایک دو بار سنا لیکن شعری خلوتوں میں اُن سے کبھی مصاحبہ نہیں ہوا۔

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

میں تخلیقِ فن کے باب میں عجزِ بیان پر ایمان رکھتا ہوں ، قادرالکلامی پر نہیں۔ تاہم ، آدابِ سخن کا پاس ضرور رکھتا ہوں اور لکھنے والے سے اِس کی توقع باندھ لیتا ہوں۔ان دنوں صوت و آہنگ کے بازار میں عدم توازن کا سکہ چلتا ہے۔شعر کہنے والامشقِ سخن کی چکی کی مشقت کے بغیر فضیلت کا جامہ زیبِ تن کرتا ہے ۔ کبھی کبھی سخت مندے کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔ایسے میں کوئی اچھی غزل پڑھنے کوملے توغزل کے مستقبل کی تابناکی کی بشارت بنتی ہے۔آج یہی ہوا ہے۔امجد شہزاد نے ایک اچھی غزل کہی ہے جس کا متن عصری مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔
میرے مطالعاتی ماحصل کے مطابق نامعلوم کا خوف، بے سروسامانی کا شدید احساس، انہونی کے امکان کا اندیشہ اور بے سمتی اس غزل کے تاروپود ہیں۔امجد شہزاد نے اضداد و تناقضات کو بہم کر کے خیر اور شر کی قوتوں کا البم مرتب کیا ہے ، چنانچہ بوریہ نشینی اور گھر،اندھیرا اور اجالا،آکاش اور زمین،گمان اور یقین ، سورج اور شجر جیسے متضادات کی کہکشاں اُن کے ہاں ارژنگ آثار لسانی فضا تعمیر کرتی ہے۔یہ فضا اُن کے ہاں لفظ و معنی کے ایک متمول خزانے کا پتہ دیتی ہے جن کی بنیاد پر اُن کے شعری رویوں کو شناخت کرنا سہل لگتا ہے۔
مگر امجد شہزاد صاحب ! آخری شعر کا مصرع اولیٰ لڑکھڑاہٹ کی شکایت نہین کرتا آپ سے؟
سر پر مرے قریب کا سورج چمکت ہے
’’الف ‘‘ حذف کر کے ہی مصرع پڑھ پایا ہوں۔ممکن ہے جنابِ یعقوب آسی میری رہنمائی کریں تو شاید میری بصیرت و بصارت محولہ بالا مصرعے کے باب میںکوئی نئی تفہیم اخذ کر سکے۔
غزل اپنے subject matter کے اعتبار سے اپ ٹو ڈیٹ ہے لیکن آغاز سے انجام تک تخلیق کار سے یہی گلہ کرتی ہے کہ ذرا میری نوک پلک سنوارنے میں لا پرواہی سے کام نہ لیا ہوتا تو میری نزاکت اور بانک پن کی صورت دگر ہوتی۔
میں اصلاح کا ر یا ادبی مصلح نہیں ہوں لیکن مفت مشورہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔اگر مطلع میں بوریہ نشین کو بادیہ نشین کہہ دیا جاتا تو زیادہ اچھا لگتا کیونکہ بوریہ بچھانے کے لیے حجرہ نما جگہ چاہئے جو گھر کا استعارہ ہوگی لیکن بادیہ نشینی میں بوریہ کے تکلف کی ضرورت نہیں رہتی۔اسی طرح پانچویں شعر کی فضا بھی ذرا سی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے مگر سردست ان وضاحتوں کی گنجائش نہیں۔
مجھے غزل مجموعی طور پر اچھی لگی اور میں امجد صاحب کی مزید چیزیں پڑھنے کی خواہش میں مبتلا ہو گیا ہوں۔امجد شہزاد سے تعارف آج کے دن کا حاصل ہے۔اس غزل کا یہ شعر مجھے بہت بھایا مگر "بھینچ "کو کسی طرح بدل دیا جاتا تو اور اچھا لگتا:

آکاش! دیکھ اپنی پناہوں میں رکھ مجھے
ایسا نہ ہو کہ بھینچ لے مجھ کو زمیں کہیں

مسعود مُنّور
ناروے
 

نوید صادق

محفلین
طارق بٹ لکھتے ہیں

مسعود منور صاحب بڑے صاحب دل انسان ہیں انہیں بات کہنے کا ہنر آتا ہے،وہ بڑی شائستگی سے بین السطور بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔امجد شہزاد کی غزل کی بابت مسعود منور کا یہ جملہ ’’ غزل اپنے subject matter کے اعتبار سے اپ ٹو ڈیٹ ہے لیکن آغاز سے انجام تک تخلیق کار سے یہی گلہ کرتی ہے کہ ذرا میری نوک پلک سنوارنے میں لا پرواہی سے کام نہ لیا ہوتا تو میری نزاکت اور بانک پن کی صورت دگر ہوتی۔‘‘ ایک مکمل تبصرہ ہے، اور اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجا ئش نہیں رہی۔ مسعود کا مشورہ صائب ہے۔ مطلع میں بوریہ نشیں ، کسی نہ کسی ٹھکانے کے ہونے کا پتا دیتا ہے ، اس کے بعد ’مرا گھر نہیں کوئی ‘ کہنے کا جواز نہیں رہتا۔ بادیہ نشینی، بھی گر چہ مکان و مقام کا استعارہ ہے مگر بادیہ گردی، دربدری اور بے گھری کی علامت ہے ۔ مقطع میں الف کا سکوت کھل رہا ہے ، اس کے علاوہ ، قریب کا سورج ، جو کہ شاعر دوسرے مصرے میں دور دور کے تلازمہ میں لائے ہیں ،اس سے ان کی کیا مراد ہے یہ میں نہیں سمجھ سکا۔ دیکھا جائے تو تمام اشعار کا تانا بانا جھول کا شکار ہے۔ ذرا سی توجہ سے اسے باآسانی کسا جا سکتا تھا۔

طارق بٹ
 

نوید صادق

محفلین
محمود شاہد کی رائے

امجد شہزاد کی غزل میں ایسی کوئی بات نظرنہیں آتی کہ اس پر بحث کی جائے۔
اس غزل میں روایتی غزل کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور اگر ان خوبیوں کوغزل کے معیارکی بنیاد تسلیم کرلیا جائے تو یہ غزل اس نقطۂ نگاہ سے اچھی کہی جاسکتی ہے۔
بہر حال،ایک لمحے کے لئے نظر اس شعر پر ٹہرتی ہے

ایسا بھی ہے کہ کوئی تصادم نہیں ہوا
لیکن مکان اور کہیں ہے مکیں کہیں

محمود شاہد
 

نوید صادق

محفلین
آصف شفیع کی رائے

آصف شفیع لکھتے ہیں:

مرا گھر نہیں کہیں

امجد شہزاد کی غزل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ یہ جدید نسل کے شاعر کی غزل ہے۔تمام احساسات جدت سے بھر پور ہیں۔شاعر کا پیرایۂ اظہار دلکش ہے لیکن بقول اساتذہ اسے اور بہتر کیا جا سکتا ہے۔ غزل کے حوالے سے کچھ معروضات گوش گزار ہیں۔
روایت میں اگرچہ بوریا نشین ہونا بے گھری کی علامت نہیں رہی ہے جیسے ۔
آٓج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
لیکن یقینا یہاں شاعر کی مثال سرِراہ بیٹھے ہوئے فقیر کی سی ہے جس کے پاس گھر نہیں ہوتا اور اس کا بوریا ہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔اور جہاں چاہا بسیرا کر لیا۔شاعر کو بے گھری اور در بدری کا دعوٰے ہے لہٰذا وہ اپنے نصیب سے مخاطب ہو کر اسے اسی حا لت میں ملنے کو کہہ رہا ہے ۔
دوسرے شعر میں مفہوم کے اعتبار سے ۔’ اور بس‘ زاید ہے ۔اس سے اجالا دکھائی دینے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔تیسرا اور چوتھا شعر نہایت عمدہ ہے۔خاص طور پر یہ مصرعہ تو نہایت ہی خوبصورت ہے۔

اک راہ دوسری سے مگر منسلک تو ہے

پانچویں شعر میں ۔ ’تصادم‘ غیر واضح ہے۔اس کی نوعیت کیا ہے، اس کیا محرکات تھے اور مکان اور مکین سے اس کا کیا ربط بنتا ہے؟
آخری شعر میں ’قریب کا سورج‘ کا استعمال نا مانوس ساہے ا ور ۔ ’ چمکتا ‘ میں الف نہایت برے انداز میں گر رہا ہے ۔یوں کہیے کہ مصرعے کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ اور آخری مصرعے میں ’تک‘ کی تکرار بھی اچھی نہیں لگ رہی ۔ باقی ،اساتذہ کی آرا زیادہ معتبر اور اہم ہیں ۔
آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ نوید صادق صاحب کی غزل پر جس گرمجوشی سے بحث ہوئی، یہاں وہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔ میرے خیال میں تمام احباب کو اس بحث میں حصہ لینا چاہیے اس سے ہم جیسے ادب کے طالب علموں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

آصف شفیع
مکہ المکرمہ۔سعودی عرب
 

نوید صادق

محفلین
فرحت پروین لکھتی ہیں

فرحت پروین لکھتی ہیں:

مجلسِ ادب کے رکن بننے سے پہلے ہم یہ تو جانتے تھے کہ شاعری مرصع کاری کا بہت نازک و نفیس فن ہے، اظہار کا سب سے خوبصورت وسیلہ ہے،مگر یہ ہرگز نہیں جانتے تھے کہ یہ اس قدر جان جوکھم کام ہے۔ اتنا ٹیکنیکل اور مکینیکل۔
ہمیں تو شاعری اتنی اچھی لگی تھی کہ ہم نے اللہ کا نام لے کر کئی نظمیں اور کچھ غزلیں تک کہہ ڈالیں۔یہ ضرور معلوم تھا کہ ایک عروض کا جن ہوتا ہے جسے اس میدان میں قدم رکھنے سے پہلے قابو میں لانا ضروری ہوتا ہے۔
سو فکر لاحق ہوئی کہ ہم تو اسے قابو میں لانے کے جنتر منتر سے قطعی نابلد ہیں۔ یہ نظمیں غزلیں تو بے کار گئیں نا!! سو احمدندیم قاسمی صاحب سے پوچھا کہ کچھ نظمیں کہی ہیں،مگر نہ عروض سے واقف ہیں اور نہ ہونا چاہتے ہیں۔ بس ردھم کے حساب سے لکھ دی ہیں۔کہ ٹیکنیکل چیزوں سے ہماری جان جاتی ہے۔ہمیشہ ایڈوانس اردو لیتے تھے مگر قواعدوانشاء کی کتاب خریدتے تک نہیں تھے۔ٹیسٹ میں وہ سوال ہمیشہ چھوڑ دیتے تھے۔ ایک دن ٹیچر کو غصہ آ گیا، بولیں ’’ قواعدوانشاء کی کتاب کیا بنک کے لاکر میں رکھ چھوڑی ہے؟‘‘۔ ہم نے مودبانہ عرض کی ’’ نہیں مس، خریدی ہی نہیں تھی‘‘۔ اب تو ٹیچر کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔ بولیں ’’ سالانہ امتحان میں کیا کرو گی‘‘؟ ہم نے دست بستہ عرض کی’’ سوال چھوڑ دیں گے مس!‘‘ وہ گرجیں، ’’ جانتی ہو ، بعض دفعہ انہی پانچ دس نمبروں سے رہ جاتے ہیں‘‘۔ ہم چپ رہے کہ ہم جانتے تھے کہ انی وی گل نئیں۔ خیر تو بات ہو رہی تھی شاعری کی تو ہم نے جراتِ رندانہ سے کام لیتے ہوئے قاسمی صاحب کو اپنی ایک نظم سنا دی(ویسے نادانی بھی کام کی چیز ہے) انہوں نے سن کر فرمایا، ۔’’ ہاں اچھی ہے۔بات نبھا لی ہے‘‘
ایک بار وسیلہ کے محمود شاہد کے سامنے بھی اپنی عروض سے عدم واقفیت کا رونا رویا کہ وہ وسیلہ کے لئے نظمیں مانگ رہے تھے۔ بولے، شاعری تو آپ لوگوں کی ہی ہوتی ہے، orginality اور تازگی برقرار رہتی ہے۔ ہم تو بحروں کے چکر میں ہی الجھ جاتے ہیں۔ایک اور معتبر شخص نے مزید حوصلہ بڑھایا کہ ساحر بھی اپنی موزونی طبع کے باعث اتنی اچھی شاعری کر گئے جبکہ عروض میں کمزور تھے اور یہ کمزوری ان کی شاعری میں اب بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔یہاں تک کہ فیض احمد فیض بھی عروض کے بہت پکے نہیں تھے۔اور اقبال کے ہاں بھی بعض اشعار میں یہ کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر ان شعراء کی عظمت میں کلام نہیں۔ مگر مجلسِ ادب کی رکنیت کے بعد میں خوب جان گئی ہوں کہ وہ سب طفل تسلیاں تھیں اور اس شیریں کو پانے کے لئے پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے جوئے شیر لانی پڑتی ہے۔ اور ہمارے پاس فرہاد جیسا جگر نہیں!! سو ہم شاعری سے ہمیشہ کے لئے توبہ تائب ہو گئے ہیں۔
مجلس کے مستند اور شاعری کے رمز شناس معزز اراکین کی رائے کے بعد میری رائے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے نہ گنجائش۔ مگر مجھے ہمیشہ سے اپنی سوت کی اٹی لے کر یوسف کے خریداروں میں شامل ہونے کا شوق رہا ہے۔سو میں مجلس میں اپنی رکنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہہ دیتی ہوں۔
جناب امجد شہزاد کی غزل سماعت کو بھلی لگتی ہے۔انہوں نے مضامین بھی وہی برتے ہیں جو آجکل کم و بیش سبھی شعراء برت رہے ہیں۔، کہ بے یقینی، بے سکونی، بے گھری، بیداری کا احساس اس پر الم و مصائب دور کی دین ہیں جو سب کا مشترک درد ہے۔ اور بہتری کی گنجائش تو بہترین تک میں ہوتی ہے۔ سو اس کا ذکر ہی کیا؟ ہاں ایک جگہ وہی قریب کے سورج والے مصرعہ میں لفظوں کے کم توجہ انتخاب کی وجہ سے ابہام پیدا ہو گیا ہے۔اصل میں کہنے والا خود پر اتنا واضح ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے بھی اس کی بات اسی طرح سمجھ لیں گے۔خود میرے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
میرے جیسے عام قاری کو یہ غزل اچھی لگی۔

فرحت پروین
 

نوید صادق

محفلین
سید اقبال طالب کی رائے

سید اقبال طالب کی رائے:

بھائی اچھی غزل ہے۔آپ ہرگز دل چھوٹا نہ کریں۔بلکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔
مسعود منور اور طارق بٹ صاحب نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ان قابل قدر لوگوں کی آراء پر غور کریں۔اور پھر چند دنوں کے بعد دوسری غزل بھیجیں۔
بس ہندی الفاظ سے پرہیز کریں۔
دوست اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت الفاظ کا انتخاب کرتے وقت دھیان رکھیں،شاعر کا دل شیشے کی طرح ہوتا ہے۔

دعا گو
سید اقبال طالب
 

نوید صادق

محفلین
مہتاب قدر لکھتے ہیں

مہتاب قدر لکھتے ہیں:

جناب مسعود منور صاحب کے بے حد مناسب تبصرے کے بعد مزید کسی کہنے سننے کی ضرورت نہیں۔

مہتاب قدر
 
Top