غزل
غزل
سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے
دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے
تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے
لفظوں کو مفہوم بدلنا یاد نہیں
رنگ دھنک کی قوس سجانا بھول گئے
جب قحطِ اجناس ٹلا ، احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
سسکی سسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے
تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
بے صبری یادیں رستے میں آن مِلیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے
بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لیئے
ہم بھی احمد گیت سُہانا بھول گئے
(محمد احمد)