نوید صادق
محفلین
(مجلس ادب ایک یاہو گروپ ہے جس میں ہر ہفتہ ایک ممبر کی غزل، نظم یا افسانہ تنقید کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔بعدازاں اس غزل اور احباب کے تبصروں کو ایک شمارہ کی شکل میں اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔اس بار ہم نے سوچا کیوں نہ اس بحث کو اردو محفل میں بھی پیش کیا جائے۔اگر یہ کاوش پسندیدہ قرار پائی تو آئندہ بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا جائے گا۔ نوید صادق
مجلسِ ادب
(فروری04 تافروری15)
2007ء
ترتیب:نوید صادق
ost message at
majlis-e-adab@yahoogroups.com
.......................................................................
غزل
دلشاد نظمی
شرکائے بحث
مسعود منور
سید اقبال طالب
محمد اشفاق
محمد یعقوب آسی
نسیمِ سحر
وسیم انور
.......................................................................
غزل
خرد کا صفحۂ تدبیر سادہ کر لیا جائے
مری دیوانگی سے استفادہ کر لیا جائے
کسی کی خامشی کا تجزیہ ایسے بھی ممکن ہے
کسی کا ذکر محفل میں زیادہ کر لیا جائے
کبھی تا عمر اک وعدہ وفا ہوتا نہیں، لیکن
بہت آسان ہے ہر اک سے وعدہ کر لیا جائے
پیادے کیا بتائیں گے مزاجِ آبلہ پائی
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
یہ چھوٹے ذہن والوں نے اٹھا رکھی ہیں دیواریں
چلو دلشاد اپنا دل کشادہ کر لیا جائے
(دلشاد نظمی)
.......................................................................
جناب مسعود منور غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں:
دلشاد نظمی کی کشادہ دل غزل
تھوڑے لکھے کو بہت جاننا ، اور خط کو تار سمجھنا۔ کمیونی کیشن کا یہ کلیہ ہمارے دہقانی معاشرت کی دین ہے،جس کے ڈانڈے ہمارے قدیم نظامِ مواصلات سے ملتے ہیں۔دلشاد نظمی نے اس مختصر غزل میں غزل کی روایت کو نبھانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے، لیکن زبان کی گرفت چوتھے شعر میں ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ان کا مصرع :
پیادے کیا بتائیںگے مزاجِ آبلہ پائی
٭ مصرع ثانی کی مبتدا ہی بنتا ہے اور نہ خبر۔
چنانچہ
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
٭ والا مصرع غزل میں نظریۂ ضرورت کے تحت وضع کی گیامحسوس ہوتا ہے۔
اگر وہ غزل گوئی کا خمار اترنے کے بعد اس شعر پر نظرِ ثانی کرتے اور اس کا نک سک درست کرتے تو غزل میںلٹک پیدا ہو سکتی تھی۔مجھے غزل کا مجموعی تاثر اخذ کرتے ہوئے فنیشنگ ٹچ کی کمی محسوس ہوئی ہے۔
داد و تحسین کے لوازمات کو پیشِ نطر رکھا جائے تودلشاد نطمی کی یہ پنج رس غزل ،غزل کی روایت کی امین ہے۔خرد ، دیوانگی،خامشی،محفل،وفا اور مزاجِ آبلہ پائی جیسے تلازمات غزل کا مزاج متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں مگر اس غزل میں مضمون آفرینی کی جدت نظر نہیں آتی۔سب کچھ سنا سنایا لگتا ہے۔البتہ مقطع اس سلیقے سے کہا گیا ہے کہ بھلا لگتا ہے۔
با ایں ہمہ ایک اعتراف کرنا ضروری ہے کہ دلشاد نظمی(غزلی نہیں) اظہار و آہنگ کے اسرارورموز سے آشنا ہیں۔انہیں بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔
مسعود مُنّور
ناروےًًًًًًَ
.......................................................................
جناب سید اقبال طالب لکھتے ہیں:
دلشاد نظمی کی غزل اچھی ہے۔تاہم قافیہ مشکل ہونے کی وجہ سے شائد غزل پانچ اشعار تک محدود رہی۔لیکن اچھی ہے اور حاصلِ غزل مقطع ہے۔
یہ چھوٹے ذہن والوں نے اٹھا رکھی ہیں دیواریں
۔۔۔۔۔سچ بات کہی ہے۔
خوب کہا، دلشاد!!
جاری رکھئے۔
(سید اقبال طالب)
.......................................................................
جناب محمد اشفاق کی رائے:
غزل اچھی ہے۔خاص کر دوسرا شعر
کسی کی خامشی کا تجزیہ ایسے بھی ممکن ہے
کسی کا ذکر محفل میں زیادہ کر لیا جائے
باقی شعر بھی بہتر ہیں۔
دلشاد صاحب کو اس اچھی غزل پر مبارکباد!
محمد اشفاق
ٹیکسلا
.......................................................................
جناب محمد یعقوب آسی اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں:
سادہ سی بات
دل شاد نظمی کی زیرِ نظر غزل اپنی ردیف کے حوالے سے اہم بن جاتی ہے۔ ’کر لیا جائے‘ کی معنویت میں امکان، تمنا، دعوت اور تحکم سب کچھ سما سکتا ہے۔ سادہ سے قوافی کے ساتھ اس زمین میں اظہار کی بہت گنجائش ہے، صاحبِ غزل چاہتے تو مزید اشعار بھی لا سکتے تھے، تاہم یہ ان کی اپنی صواب دید ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ معروف اور مانوس بحروں میں ہم بہت سی فنی مشقت سے دوچار ہوئے بغیر اپنی توجہ مضامین اور اظہار پر مرکوز کر سکتے ہیں، جیسا کہ بحر ہزج مثمن سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)میںکہی گئی اس غزل میں ہے۔
مطلع اچھا ہے۔ خرد کے سادہ ورق اور دیوانگی سے استفادہ کرنے کی روایت میں ایک خوبصورت اظہار ہے۔ دوسرا شعر معنوی اعتبار سے امکانی ہے، خاموشی کے پیچھے کارفرما عوامل کا مکمل تجزیہ تو خیر ایک بہت مشکل عمل ہے تاہم ایک امکانی عمل کا ذکر مناسب انداز میں آ گیا ہے۔ تیسرا شعر وعدہ کر لینے اور اس کے ایفاء کے حوالے سے اچھا ہے تاہم اس کوعمومیت کی جو سطح درکار تھی وہ حاصل نہیں ہو پائی۔ پیادے، مزاجِ آبلہ پائی اور سوار! یہاں ایک سوال ہے کہ پیادہ جسے آبلہ پائی سے عملاً واسطہ پڑا ہے، وہ اس کا مزاج بہتر جانتا ہے یا سوار؟ یہ کہنا مطلوب ہو کہ ’پیادوں کا کہا سواروں کی سمجھ میں تب آئے اگر ان کو بھی پیادہ کر دیا جائے‘ تو پھر پہلے مصرعے کو بھی بہتر کرنا ہو گا، ردیف کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ مقطع اچھا ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک چھی غزل ہے اور اس کی ردیف اسے تازہ رکھنے میں یقینا ممد ثابت ہو گی۔اس غزل کی ایک اور خوبی اس کی مجموعی فضا ہے۔ سارے شعر انفرادی مضامین رکھتے ہوئے بھی مزاجاً باہم متصل ہیں۔
محمد یعقوب آسی
ٹیکسلا ۔پاکستان
۱۲! فروری ۲۰۰۷ء
.......................................................................
جناب نسیمِ سحر لکھتے ہیں:
دلشاد نظمی کی غزل پرمیری رائے
محترم دلشاد نظمی کی غزل میں نے غور سے پڑھی۔ اس رواںزمین میں یہ ایک خوبصورت غزل ہے، پانچوں اشعار میں الگ الگ مضمون عمدہ طور سے باندھا گیا ہے۔ البتہ مطلع میں ’’خرد کا صفحۂ تدبیر سادہ کر لیا جائے‘‘ سے میری ناچیز رائے میں بات بنی نہیں کیونکہ اگر ’’مری دیوانگی سے استفادہ کر لیا جائے‘‘ تو پھر خرد کے صفحۂ تدبیر پر ’’کچھ اور‘‘ تحریر ہونا چاہئے، اسے ’’سادہ‘‘ کر لینا دیوانگی سے استفادہ کرنے کا صرف اولیں مرحلہ ہے۔ اِسی طرح یہ شعر کچھ حقیقتِ حال کی نفی کرتا محسوس ہوتا ہے :
پیادے کیا بتائیں گے مزاجِ آبلہ پائی
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
کیونکہ مزاجِ آبلہ پائی تو صرف پیادے ہی بتا سکتے ہیں۔ اور اگر وہ نہیں بتا سکتے تو جب سوار بھی پیادہ ہو کر انہی کی صف میں آ جائیں گے تو گویا کہ ان سے بھی مزاجِ آبلہ پائی معلوم ہونے کاامکان عبث ٹھیرا !
مقطع کے پہلے مصرعے میں دیواریں اٹھانے والے ’’چھوٹے ذہن ‘‘ کے لوگ ہیں مگر مصرعۂ ثانی میں ان سے نمٹنے کے لئے ’’دل ‘‘کو کشادہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلے مصرعے میں بھی دل ہی کی تنگی کے حوالے سے بات کی جاتی اور دونوں مصرعے پوری طرح مربوط ہوجاتے۔
نسیمِ سحر
۱۳ فروری ۲۰۰۷ء
.......................................................................
جناب وسیم انور اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں:
گویا کہ جو میں سوچ تھا رہاتھااور لکھنے والا تھا، نسیم صاحب نے پہلے لکھ ڈالا ہے۔
پیادے والا شعر مجھے خاص طور پر کھٹک رہا تھا۔
باقی بھائی نظمی! یہ تنقید ادبی گروپوں والی تنقید ہرگز نہیں۔ہم سب خلوص سے ایک دوسرے کی غزل دیکھتے ہیں۔
یہ غزل اچھی ہے لیکن آپ میں مزید بہتر لکھنے کا جوہر موجود ہے۔
وسیم انور
ٹھٹھہ
.......................................................................
احباب کی آراء کا انتظار رہے گا!!!!
مجلسِ ادب
(فروری04 تافروری15)
2007ء
ترتیب:نوید صادق
ost message at
majlis-e-adab@yahoogroups.com
.......................................................................
غزل
دلشاد نظمی
شرکائے بحث
مسعود منور
سید اقبال طالب
محمد اشفاق
محمد یعقوب آسی
نسیمِ سحر
وسیم انور
.......................................................................
غزل
خرد کا صفحۂ تدبیر سادہ کر لیا جائے
مری دیوانگی سے استفادہ کر لیا جائے
کسی کی خامشی کا تجزیہ ایسے بھی ممکن ہے
کسی کا ذکر محفل میں زیادہ کر لیا جائے
کبھی تا عمر اک وعدہ وفا ہوتا نہیں، لیکن
بہت آسان ہے ہر اک سے وعدہ کر لیا جائے
پیادے کیا بتائیں گے مزاجِ آبلہ پائی
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
یہ چھوٹے ذہن والوں نے اٹھا رکھی ہیں دیواریں
چلو دلشاد اپنا دل کشادہ کر لیا جائے
(دلشاد نظمی)
.......................................................................
جناب مسعود منور غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں:
دلشاد نظمی کی کشادہ دل غزل
تھوڑے لکھے کو بہت جاننا ، اور خط کو تار سمجھنا۔ کمیونی کیشن کا یہ کلیہ ہمارے دہقانی معاشرت کی دین ہے،جس کے ڈانڈے ہمارے قدیم نظامِ مواصلات سے ملتے ہیں۔دلشاد نظمی نے اس مختصر غزل میں غزل کی روایت کو نبھانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے، لیکن زبان کی گرفت چوتھے شعر میں ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ان کا مصرع :
پیادے کیا بتائیںگے مزاجِ آبلہ پائی
٭ مصرع ثانی کی مبتدا ہی بنتا ہے اور نہ خبر۔
چنانچہ
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
٭ والا مصرع غزل میں نظریۂ ضرورت کے تحت وضع کی گیامحسوس ہوتا ہے۔
اگر وہ غزل گوئی کا خمار اترنے کے بعد اس شعر پر نظرِ ثانی کرتے اور اس کا نک سک درست کرتے تو غزل میںلٹک پیدا ہو سکتی تھی۔مجھے غزل کا مجموعی تاثر اخذ کرتے ہوئے فنیشنگ ٹچ کی کمی محسوس ہوئی ہے۔
داد و تحسین کے لوازمات کو پیشِ نطر رکھا جائے تودلشاد نطمی کی یہ پنج رس غزل ،غزل کی روایت کی امین ہے۔خرد ، دیوانگی،خامشی،محفل،وفا اور مزاجِ آبلہ پائی جیسے تلازمات غزل کا مزاج متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں مگر اس غزل میں مضمون آفرینی کی جدت نظر نہیں آتی۔سب کچھ سنا سنایا لگتا ہے۔البتہ مقطع اس سلیقے سے کہا گیا ہے کہ بھلا لگتا ہے۔
با ایں ہمہ ایک اعتراف کرنا ضروری ہے کہ دلشاد نظمی(غزلی نہیں) اظہار و آہنگ کے اسرارورموز سے آشنا ہیں۔انہیں بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔
مسعود مُنّور
ناروےًًًًًًَ
.......................................................................
جناب سید اقبال طالب لکھتے ہیں:
دلشاد نظمی کی غزل اچھی ہے۔تاہم قافیہ مشکل ہونے کی وجہ سے شائد غزل پانچ اشعار تک محدود رہی۔لیکن اچھی ہے اور حاصلِ غزل مقطع ہے۔
یہ چھوٹے ذہن والوں نے اٹھا رکھی ہیں دیواریں
۔۔۔۔۔سچ بات کہی ہے۔
خوب کہا، دلشاد!!
جاری رکھئے۔
(سید اقبال طالب)
.......................................................................
جناب محمد اشفاق کی رائے:
غزل اچھی ہے۔خاص کر دوسرا شعر
کسی کی خامشی کا تجزیہ ایسے بھی ممکن ہے
کسی کا ذکر محفل میں زیادہ کر لیا جائے
باقی شعر بھی بہتر ہیں۔
دلشاد صاحب کو اس اچھی غزل پر مبارکباد!
محمد اشفاق
ٹیکسلا
.......................................................................
جناب محمد یعقوب آسی اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں:
سادہ سی بات
دل شاد نظمی کی زیرِ نظر غزل اپنی ردیف کے حوالے سے اہم بن جاتی ہے۔ ’کر لیا جائے‘ کی معنویت میں امکان، تمنا، دعوت اور تحکم سب کچھ سما سکتا ہے۔ سادہ سے قوافی کے ساتھ اس زمین میں اظہار کی بہت گنجائش ہے، صاحبِ غزل چاہتے تو مزید اشعار بھی لا سکتے تھے، تاہم یہ ان کی اپنی صواب دید ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ معروف اور مانوس بحروں میں ہم بہت سی فنی مشقت سے دوچار ہوئے بغیر اپنی توجہ مضامین اور اظہار پر مرکوز کر سکتے ہیں، جیسا کہ بحر ہزج مثمن سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)میںکہی گئی اس غزل میں ہے۔
مطلع اچھا ہے۔ خرد کے سادہ ورق اور دیوانگی سے استفادہ کرنے کی روایت میں ایک خوبصورت اظہار ہے۔ دوسرا شعر معنوی اعتبار سے امکانی ہے، خاموشی کے پیچھے کارفرما عوامل کا مکمل تجزیہ تو خیر ایک بہت مشکل عمل ہے تاہم ایک امکانی عمل کا ذکر مناسب انداز میں آ گیا ہے۔ تیسرا شعر وعدہ کر لینے اور اس کے ایفاء کے حوالے سے اچھا ہے تاہم اس کوعمومیت کی جو سطح درکار تھی وہ حاصل نہیں ہو پائی۔ پیادے، مزاجِ آبلہ پائی اور سوار! یہاں ایک سوال ہے کہ پیادہ جسے آبلہ پائی سے عملاً واسطہ پڑا ہے، وہ اس کا مزاج بہتر جانتا ہے یا سوار؟ یہ کہنا مطلوب ہو کہ ’پیادوں کا کہا سواروں کی سمجھ میں تب آئے اگر ان کو بھی پیادہ کر دیا جائے‘ تو پھر پہلے مصرعے کو بھی بہتر کرنا ہو گا، ردیف کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ مقطع اچھا ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک چھی غزل ہے اور اس کی ردیف اسے تازہ رکھنے میں یقینا ممد ثابت ہو گی۔اس غزل کی ایک اور خوبی اس کی مجموعی فضا ہے۔ سارے شعر انفرادی مضامین رکھتے ہوئے بھی مزاجاً باہم متصل ہیں۔
محمد یعقوب آسی
ٹیکسلا ۔پاکستان
۱۲! فروری ۲۰۰۷ء
.......................................................................
جناب نسیمِ سحر لکھتے ہیں:
دلشاد نظمی کی غزل پرمیری رائے
محترم دلشاد نظمی کی غزل میں نے غور سے پڑھی۔ اس رواںزمین میں یہ ایک خوبصورت غزل ہے، پانچوں اشعار میں الگ الگ مضمون عمدہ طور سے باندھا گیا ہے۔ البتہ مطلع میں ’’خرد کا صفحۂ تدبیر سادہ کر لیا جائے‘‘ سے میری ناچیز رائے میں بات بنی نہیں کیونکہ اگر ’’مری دیوانگی سے استفادہ کر لیا جائے‘‘ تو پھر خرد کے صفحۂ تدبیر پر ’’کچھ اور‘‘ تحریر ہونا چاہئے، اسے ’’سادہ‘‘ کر لینا دیوانگی سے استفادہ کرنے کا صرف اولیں مرحلہ ہے۔ اِسی طرح یہ شعر کچھ حقیقتِ حال کی نفی کرتا محسوس ہوتا ہے :
پیادے کیا بتائیں گے مزاجِ آبلہ پائی
ضرورت ہے سواروں کو پیادہ کر لیا جائے
کیونکہ مزاجِ آبلہ پائی تو صرف پیادے ہی بتا سکتے ہیں۔ اور اگر وہ نہیں بتا سکتے تو جب سوار بھی پیادہ ہو کر انہی کی صف میں آ جائیں گے تو گویا کہ ان سے بھی مزاجِ آبلہ پائی معلوم ہونے کاامکان عبث ٹھیرا !
مقطع کے پہلے مصرعے میں دیواریں اٹھانے والے ’’چھوٹے ذہن ‘‘ کے لوگ ہیں مگر مصرعۂ ثانی میں ان سے نمٹنے کے لئے ’’دل ‘‘کو کشادہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلے مصرعے میں بھی دل ہی کی تنگی کے حوالے سے بات کی جاتی اور دونوں مصرعے پوری طرح مربوط ہوجاتے۔
نسیمِ سحر
۱۳ فروری ۲۰۰۷ء
.......................................................................
جناب وسیم انور اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں:
گویا کہ جو میں سوچ تھا رہاتھااور لکھنے والا تھا، نسیم صاحب نے پہلے لکھ ڈالا ہے۔
پیادے والا شعر مجھے خاص طور پر کھٹک رہا تھا۔
باقی بھائی نظمی! یہ تنقید ادبی گروپوں والی تنقید ہرگز نہیں۔ہم سب خلوص سے ایک دوسرے کی غزل دیکھتے ہیں۔
یہ غزل اچھی ہے لیکن آپ میں مزید بہتر لکھنے کا جوہر موجود ہے۔
وسیم انور
ٹھٹھہ
.......................................................................
احباب کی آراء کا انتظار رہے گا!!!!