پاکستان اور طالبان دو الگ الگ نظریات کا نام ہے ۔پاکستان اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بناکر عالمی برداری کو علمی دلائل سے قائل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن طالبان اپنے ہر بچے کو اسلحہ تھما کراپنا نظریہ پوری دُنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
صاحبزادہ حامد رضا صاحب (سربراہ سنی اتحاد کونسل) نے ارشاد فرمایا کہ جو مولوی ٹی وی پہ آکر کہہ رہے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے بهی کافروں سے معاہدے کیے تهے تو انہیں بتادو کہ ان طالبان کو کافر مانو تو ہم مذاکرات کی مخالفت نہیں کرینگے۔
میں اس میں ایک اضافہ کرنا چاہتا ہوں ایک ٹاک شو میں میں نے طالبان حمایتی ٹولے کی طرف سے یہ دلیل بھی سنی تھی کہ پہلے حضرت علیؑ نے بھی خارجیوں کو مذاکرات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی پر وہ معاہدے پر پورے نہ اترے تو جنگ کی تو ان ہی کی سنت پر چلتے ہوئے طالبان کو بھی مذاکرات کا موقع ملنا چاہیئے اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو انکے خلاف آپریشن کرنا چاہیئے تو میں یہ کہتا ہوں کہ پھر پہلے طالبان کو خارجی سمجھنا ہوگا اور وہ جو شریعت لانا چاہتے ہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ خارجیوں ہی کی شریعت ہے اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مذاکرات صحیح ہیں۔
اور یہ بھی مد نظر رہے کہ جب خلافت اسلامی کے ابتدائی دن تھے۔۔ اور بقول تاریخ بعض لوگوں نے زکات دینے سے انکار کیا تھا۔۔ تو کیا حضرت ابوبکر نے ان سے مذاکرات کیے، کمیٹیاں بنائیں، سمجھانے کی کوشش کی۔۔ یا ان پر لشکرکشی کی۔۔ اور کہا کہ خدا کی قسم اک اک پائی ان سے وصول کروں گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
یہ تو صرف زکات کے مانعین تھے۔۔ جبکہ ظالمان کے مظالم اور حکومت و عوام مخالف کاروائیوں کی اک لمبی لسٹ ہے۔
اگر طالبان کو آئین کی بالادستی چاہیے۔۔ جیسا کہ پدر طالبان سمیع الحق کا بیان تھا۔۔ تو یہ لوگ آئین میں رہ کر کیوں کام نہیں کرتے۔۔ کیوں انتخابات میں نہیں آتے۔ کیوں اسمبلی میں آکر آئین یا قوانین تبدیل کر کے بقول ان کے "اسلامی" نہیں بناتے؟