محمد امین
لائبریرین
حزیں صدیقی مرحوم و مغفور میرے نانا جان کے ددھیالی رشتہ دار تھے۔ 1920 میں روہتک میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ طبیعتا درویش اور مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل لاہور میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوئےاور یہاں جناب احسان دانش مرحوم کی شاگردی اختیار کی۔ بعد ازاں ملتان کو مستقل مسکن بنایا اور اسی شہرِاولیاء میں 1995 میں جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ زیرِ نظر غزل انکی وفات کے بعد شایع ہونے والے مجموعے "حرفِابد" سے اقتباس ہے:
مجنوں کی خوشہ چیں مری دیوانگی نہیں،
جو ضابطے میں رہ نہ سکے عشق ہی نہیں،
جلوت کے قمقمے ہوں کہ خلوت کے آئنے،
دل میںاگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں،
مجھکو دکھائے خواب وہ میرے نصیب نے،
جن کے نصیب میں کوئی تعبیر ہی نہیں،
دنیا بہت حسیںہے بہت دلفریب ہے،
یہ اور بات میری نظر میں جچی نہیں،
بندہ ہوں اور عہدِ ازل مجھکو یاد ہے،
حدِّ تعیّنات سے گزروں؟ کبھی نہیں،
آیا نہ میرے کام کمالِ مصوری،
تصویر تری لاکھ بنائی، بنی نہیں،
لوگو! یہ نفرتوں کے شرارے سمیٹ لو،
اس آگ سے ڈرو جو ابھی تک لگی نہیں،
تیرے نگار خانے میں دو چار کے سوا،
تصویر ایک بھی مرے معیار کی نہیں،
پرچھائیوں کے دشت سے باہر نکل کے دیکھ،
بزمِ حیات عرصہء بے چہرگی نہیں،۔۔۔
مجنوں کی خوشہ چیں مری دیوانگی نہیں،
جو ضابطے میں رہ نہ سکے عشق ہی نہیں،
جلوت کے قمقمے ہوں کہ خلوت کے آئنے،
دل میںاگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں،
مجھکو دکھائے خواب وہ میرے نصیب نے،
جن کے نصیب میں کوئی تعبیر ہی نہیں،
دنیا بہت حسیںہے بہت دلفریب ہے،
یہ اور بات میری نظر میں جچی نہیں،
بندہ ہوں اور عہدِ ازل مجھکو یاد ہے،
حدِّ تعیّنات سے گزروں؟ کبھی نہیں،
آیا نہ میرے کام کمالِ مصوری،
تصویر تری لاکھ بنائی، بنی نہیں،
لوگو! یہ نفرتوں کے شرارے سمیٹ لو،
اس آگ سے ڈرو جو ابھی تک لگی نہیں،
تیرے نگار خانے میں دو چار کے سوا،
تصویر ایک بھی مرے معیار کی نہیں،
پرچھائیوں کے دشت سے باہر نکل کے دیکھ،
بزمِ حیات عرصہء بے چہرگی نہیں،۔۔۔