مجھے ابھی جینا ھے

مجھے ابھی جینا ھے

خودکش مجھے مت مار
مجھے ابھی جینا ھے
زھر ھے زندگی
وہ تو پہلے سے
طے ھے
میں جانتا ھوں
زھر یہ پینا ھے
مجھے ابھی جینا ھے

دودھ بخش سکے گی
تیری ماں تجھ کو
کتنی ماؤں کی گود سے
معصوم لختِ جگر
جو آنکھ کھول نہ پایا تھا
"ماں" کا لفظ بول نہ پایا تھا
تو نے چھینا ھے
مجھے ابھی جینا ھے

سر پہ خاک ڈالے
اجڑی سی یہ لڑکی
اس کی ماں اسے
دلہن بنانے نکلی تھی
اسکا جوڑا لانے نکلی تھی
تو نے اسکو اڑا دیا
منوں مٹی گڑا دیا
آج یہ حزینہ ھے
مجھے ابھی جینا ھے

ارے بے غیرت سوچ
اس اولاد کا دکھ
کہ جس کی چھت
شفیق سا باپ
قتل کیا تو نے
کمانے نکلا تھا
خرچ گھر کا چلانے نکلا تھا
خون اسکا کیا پسینا ھے
مجھے ابھی جینا ھے

یہ جو مللہ تجھے پڑھاتا ھے
کبھی پوچھ اس سے
ایک بیلٹ باندھ کہ
کیوں نہیں خود کو
یہ اڑاتا ھے
نفرتیں بیچتا ھے
جھنم کماتا ھے
کیسا یہ کمینہ ھے
مجھے ابھی جینا ھے
 

مغزل

محفلین
شکریہ اظہر ، جذبات کی داد حاضر ہے ، املا کی اغلاط سے گریز کیجے ، باقی یہ کہ یہ نثری شاعر ی کہلائے گی ، ( بابا جانی سمیت دیگر اساتذہ کے نزدیک یہ شاعری نہیں ) مگر کہیں‌کہیں ردھم موجود ہے جو نثری شاعری کا حسن بھی تباہ کر رہا ہے ۔ والسلام
 
Top