مجھے ایک حاص قسم کی شاعری کی تلاش ہے ۔ آپ یہ جند مثالیں ملاحظہ کریں
پہلی مثال
دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم
ایک خواب تھا دیروز اک فُسون تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب جنون ہے اپنا گوشہ گیرِ تنہائی
سو دیار و صحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم
حرف زَن نہ ہوں گے لب جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم
دوسری مثال
الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں
ہونہی بات کرتے کرتے کبھی
جب کچھ کہنے کو باقی نہ بچے
تو چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں ہم بھی
ہر ملاقات پر گمان ہوتا تھا کہ شاید آخری ہو
الودہ کہنے میں بھی برسوں لگادئے ہم نے یونہی
اب کے تمہاری بزم میں ہم نہ دکھائی دینگے
محفلیں سجاتے رہنا تم اب ایسے ہی
جہاں رہو خوش رہو کامیاب رہو کمران رہو
دل کو تمہاری خوشی مقدم ہے اب بھی
تمہیں دیکھنے کی چاہ بہت تھی مگر
ہم نے یہ خواہش بھی دل سے مٹا دی ہے ابھی ابھی
تیسری مثال
بھلا دیں گے انہیں اب ہم بھلا دینا ضروری ہے
امیدوں کے محل کو اب گرا دینا ضروری ہے
جو جلتی دھوپ میں سایہ میسر کر نہ سکتا ہو
تو آگ ایسے شجر کو بھی لگا دینا ضروری ہے
جو چادر بے حسّی کی اوڑھ کر سوئے ہیں دنیا میں
اب ان میّت مزاجوں کو جگا دینا ضروری ہے
وفا کے تذکرے جو اب سرِ بازار کرتا ہے
کریمیؔ اس کو سولی پر چڑھا دینا ضروری ہے
آخری مثال
گزر گیا وہ وقت جب ہم تمہارے طلبگار تھے
اب زندگی بھی بن جاو تو قبول نہیں کرینگے ۔
یعنی کہ شاعری میں انکارِ محبت کے ساتھ ساتھ ایک ناراضگی سی بھی ظاہر ہو۔ بندے نے فیصلہ کیا ہے کہ محبت کے کھیلوں میں شرکت نہیں کرنے کا۔
پہلی مثال
دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم
ایک خواب تھا دیروز اک فُسون تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب جنون ہے اپنا گوشہ گیرِ تنہائی
سو دیار و صحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم
حرف زَن نہ ہوں گے لب جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم
دوسری مثال
الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں
ہونہی بات کرتے کرتے کبھی
جب کچھ کہنے کو باقی نہ بچے
تو چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں ہم بھی
ہر ملاقات پر گمان ہوتا تھا کہ شاید آخری ہو
الودہ کہنے میں بھی برسوں لگادئے ہم نے یونہی
اب کے تمہاری بزم میں ہم نہ دکھائی دینگے
محفلیں سجاتے رہنا تم اب ایسے ہی
جہاں رہو خوش رہو کامیاب رہو کمران رہو
دل کو تمہاری خوشی مقدم ہے اب بھی
تمہیں دیکھنے کی چاہ بہت تھی مگر
ہم نے یہ خواہش بھی دل سے مٹا دی ہے ابھی ابھی
تیسری مثال
بھلا دیں گے انہیں اب ہم بھلا دینا ضروری ہے
امیدوں کے محل کو اب گرا دینا ضروری ہے
جو جلتی دھوپ میں سایہ میسر کر نہ سکتا ہو
تو آگ ایسے شجر کو بھی لگا دینا ضروری ہے
جو چادر بے حسّی کی اوڑھ کر سوئے ہیں دنیا میں
اب ان میّت مزاجوں کو جگا دینا ضروری ہے
وفا کے تذکرے جو اب سرِ بازار کرتا ہے
کریمیؔ اس کو سولی پر چڑھا دینا ضروری ہے
آخری مثال
گزر گیا وہ وقت جب ہم تمہارے طلبگار تھے
اب زندگی بھی بن جاو تو قبول نہیں کرینگے ۔
یعنی کہ شاعری میں انکارِ محبت کے ساتھ ساتھ ایک ناراضگی سی بھی ظاہر ہو۔ بندے نے فیصلہ کیا ہے کہ محبت کے کھیلوں میں شرکت نہیں کرنے کا۔