الف عین
@سیّد عاطف علی
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
--------------
فعولن فعولن فعولن فعولن
-----------
مجھے بات دل میں چھپانی نہ آئی
سلیقے سے لیکن بتانی نہ آئی
-------------
غموں کی کہانی جو لکھنے کو بیٹھا (غموں کی کہانی میں لکھنے جو بیٹھا )
تو لفظوں میں میرے روانی نہ آئی
-----------
کبھی بھول پائی نہ پہلی محبّت
مگر وہ بھی ہم کو نبھانی نہ آئی
----------
ارادہ کیا تھا کریں عشق پھر سے
ضرورت پڑی تو جوانی نہ آئی
------
وہ پہلو میں آیا فقط رات بھر کو
کبھی رات پھر وہ سہانی نہ آئی
---------
وہ سنتا تھا باتیں توجہ سے میری
مجھے بات دل کی سنانی نہ آئی
----------
ہوئی ہر محبّت جو ناکام اپنی ( ہوئی ہر محبّت ہے ناکام اپنی )
کبھی شمع الفت جلانی نہ آئی
--------
جو ہوتا ہے دل میں وہ کہتا ہے ارشد
اسے بات سچی چھپانی نہ آئی
-----------یا
اسے بات جھوٹی بتانی نہ آئی
---------
 
آخری تدوین:
شکریہ خلیل بھائی، پہلے مصرعے میں آپ نے درست تصحیح فرمائی ،دوسرے مصرعے میں لفظ ہے لکھنے سے رہ گیا تھا ( ہوئی ہرمحبّت ہے ناکام اپنی )
اس آخری "ہے" نے کام خراب کردیا ورنہ ہم سوچ رہے تھے کہ ماشاء اللہ خوب روانی آئی تھی ان اشعار میں!
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بات دل میں چھپانی نہ آئی
سلیقے سے لیکن بتانی نہ آئی
------------- درست

غموں کی کہانی جو لکھنے کو بیٹھا (غموں کی کہانی میں لکھنے جو بیٹھا )
تو لفظوں میں میرے روانی نہ آئی
----------- خلیل الرحمٰن بھائی کا مصرعہ بہتر ہے

کبھی بھول پائی نہ پہلی محبّت
مگر وہ بھی ہم کو نبھانی نہ آئی
---------- یہ objective case میں بھولنا میرے گلے سے نہیں اترتا۔ اس صورت میں بھلانا فعل ہوتا ہے۔ 'میں پہلی محبت کو بھول نہ پایا' سبجیکٹیو
'مجھ سے پہلی محبت بھلائی نہ جا سکی' آبجیکٹیو
اس لحاظ سے درست یوں کہہ سکتے ہیں کہ 'کبھی بھول پایا...'( یا 'کبھی بھول پائے..') لیکن دوسرے مصرعے میں 'مگر وہ ہم سے نبھائی نہ گئی تھی' درست اظہار بیان ہوتا نہ کہ 'نبھانی نہ آئی' جیسا حال کا جملہ۔

ارادہ کیا تھا کریں عشق پھر سے
ضرورت پڑی تو جوانی نہ آئی
------ 'ضرورت پڑی' اچھا نہیں، 'مگر واپس اپنی جوانی نہ آئی' بہتر ہو گا

وہ پہلو میں آیا فقط رات بھر کو
کبھی رات پھر وہ سہانی نہ آئی
--------- درست

وہ سنتا تھا باتیں توجہ سے میری
مجھے بات دل کی سنانی نہ آئی
---------- دونوں مصرعوں میں تعلق پیدا کرنے کے لیے' مگر' وغیرہ ضروری ہے
مگر مجھ کو دل کی سنانی....

ہوئی ہر محبّت جو ناکام اپنی ( ہوئی ہر محبّت ہے ناکام اپنی )
کبھی شمع الفت جلانی نہ آئی
-------- یہ شعر زبردستی قافیہ استعمال کرنے کی غرض سے کہا گیا لگتا ہے

جو ہوتا ہے دل میں وہ کہتا ہے ارشد
اسے بات سچی چھپانی نہ آئی
-----------یا
اسے بات جھوٹی بتانی نہ آئی
--------- پہلا متبادل ہی بہتر ہے
 

akhtarwaseem

محفلین
کبھی بھول پائی نہ پہلی محبّت
مگر وہ بھی ہم کو نبھانی نہ آئی
---------- یہ objective case میں بھولنا میرے گلے سے نہیں اترتا۔ اس صورت میں بھلانا فعل ہوتا ہے۔ 'میں پہلی محبت کو بھول نہ پایا' سبجیکٹیو
'مجھ سے پہلی محبت بھلائی نہ جا سکی' آبجیکٹیو
اس لحاظ سے درست یوں کہہ سکتے ہیں کہ 'کبھی بھول پایا...'( یا 'کبھی بھول پائے..') لیکن دوسرے مصرعے میں 'مگر وہ ہم سے نبھائی نہ گئی تھی' درست اظہار بیان ہوتا نہ کہ 'نبھانی نہ آئی' جیسا حال کا جملہ۔

بہت باریک سا نقطہ ہے جس کی طرف میرا بھی کبھی دھیان نہیں گیا ۔ آپ نے بہت خوبصورت
انداز میں سمجھایا، سر اِسی مصرعے کو کیا ہم یوں بھی باندھ سکتے ہیں؟

کبھی بھول پائے نہ پہلی محبت
اگرچہ وہ ہم کو نبھانی نہ آئی
 

الف عین

لائبریرین
بہت باریک سا نقطہ ہے جس کی طرف میرا بھی کبھی دھیان نہیں گیا ۔ آپ نے بہت خوبصورت
انداز میں سمجھایا، سر اِسی مصرعے کو کیا ہم یوں بھی باندھ سکتے ہیں؟

کبھی بھول پائے نہ پہلی محبت
اگرچہ وہ ہم کو نبھانی نہ آئی
ضرور کہہ سکتے ہیں
 
Top