سید شہزاد ناصر
محفلین
7فروری کے نوائے وقت میں ”دوگز زمین“ کے عنوان سے برادرم فضل حسین اعوان کا ایک کالم شائع ہوا ہے۔جس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی ایک مشہور غزل بھی شائع کی ہے۔ اس غزل میں انہوں نے درج ذیل شعر بھی شامل کر دیا ہے
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یہ شعر ہماری نصابی کتابوں میں غلطی سے بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ خود میں بھی اس غلطی کا مرتکب ہو چکا ہوں۔ میری ایک تالیف ”جب میرا انتخاب نکلے گا“ کے نام سے 1995ءمیں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں تین سو سالوں کی منتخب اور مشہور غزلیں شائع کی گئی تھیں ظاہر ہے اس میں بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شامل تھا اور کچھ نصابی کتب پر انحصار کرتے ہوئے میں نے بھی متذکرہ بالا شعر بہادر شاہ ظفر ہی کا سمجھتے ہوئے اپنے انتخاب میں شائع کر دیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ شعر سیماب اکبر آبادی کا ہے اور ان کے شعری مجموعہ ”کلیم عجم“ میں وہ پوری غزل شامل ہے جس کا یہ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے۔ سیماب اکبر آبادی کی کتاب ”کلیم عجم“ پہلی دفعہ 1936ءمیں شائع ہوئی تھی اور اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن 1985ءمیں ان کے بےٹے مظہر صدیقی نے شائع کیا تھا جو اب میری ذاتی لائبریری میں بھی موجود ہے۔ سیماب اکبر آبادی کے دیوان ”کلیم عجم“ میں 1898ء سے 1908ءتک کی جو غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک غزل کا وہ زبان زدعام شعر ہے جو سہواً ہم لوگ بہادر شاہ ظفر کا سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔ ادبی رسالہ ”نگار“ کا جنوری1941ء میں جو خود نوشت نمبر شائع ہوا تھا اس میں مذکورہ بالا شعر سیماب اکبر آبادی کے نام ہی سے شامل اشاعت ہے جبکہ بہادر شاہ ظفر کے کسی مستند دیوان میں یہ شعر ان سے منسوب نہیں کیا گیا۔ اتنی زیادہ تفصیل سے لکھنے کی ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ ہماری اردو کی نصابی کتب میں بھی یہ غلطی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ مذکورہ بالا شعر بہادر شاہ ظفر کی غزل میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ میں یہاں سیماب اکبر آبادی کے زیر بحث شعر سمیت غزل کے مزید دو اشعار کا حوالہ دینا چاہتا ہوں
تم نے تو ہاتھ جوروستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا رہا ستمِ روز گار میں
اے پردہ دار‘ اب تو نکل آ کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یہ وضاحت یہاں ضروری ہے کہ سیماب اکبر آبادی نے اپنے شعر میں ”لائے تھے“ نہیں بلکہ ”لائی تھی“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اگر کوئی محقق دوست بہادر شاہ ظفر کے کسی مستند دیوان کے حوالہ سے میری گزارشات کی تردید میں کچھ لکھنا پسند کریں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔
میں یہاں نئی نسل کی آگاہی کے لئے علامہ سیماب اکبر آبادی کا مختصر سا تعارف تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیماب 1880ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین تھا۔ وہ داغ کے شاگرد تھے اور خود ایک مسلم الثبوت استاد بھی تھے۔ ان کے دامنِ تربیت سے ہزاروں شاگرد فیضیاب ہوئے۔ وہ کئی ادبی رسائل و جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ 1948ءمیں پاکستان آ گئے تھے اور یہاں 1951ءمیں ان کا انتقال ہوا۔ سیماب اکبر آبادی کی تقریباً14 تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے قرآن حکیم کا جو منظوم ترجمہ کیا تھا۔ اسے بھی بڑی شہرت نصیب ہوئی تھی۔ ان کے بہت زیادہ اشعار مقبول خاص وعام ہیں اور کچھ تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ اپنے باذوق قارئین کےلئے سیماب اکبر آبادی کے چند اشعار
محبت میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر
٭٭٭٭
ہر چیز پر بہار‘ ہر اک شے پہ حسن تھا
دنیا جوان تھی میرے عہدِ شباب میں
٭٭٭٭
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
٭٭٭٭
میں بعدِ مرگ بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل مِرا مزار نہ پوچھ
٭٭٭٭
مَیں ہوں اک مستقل عنوان ہستی کے فسانے میں
مجھے تاریخ دہراتی رہے گی‘ ہر زمانے میں
٭٭٭٭
یہ کس نے شاخِ گل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی
٭٭٭٭
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
٭٭٭٭
ہے غارتِ چمن میں یقیناً کسی کا ہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں
میں یہاں ایک اور غلط فہمی کی بھی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بہت مشہور غزل جس کا مطلع درج ذیل ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
یہ غزل بھی بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دی گئی ہے حالانکہ یہ غزل انڈیا کے مشہور شاعر جاں نثار اختر کے والد مضطر خیر آبادی کی ہے۔ نول کشور نے 1887ءمیں کلیات ظفر کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تھا اور 1918ءمیں پانچواں ایڈیشن۔ یہ غزل کسی بھی ایڈیشن میں شائع نہیں۔ جاں نثار اختر نے 1938ءمیں اپنے ایک مضمون میں واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ یہ غزل ان کے والد مضطر خیر آبادی ہی کی ہے جو ان کے پاس مضطر خیر آبادی کے غیر مطبوعہ دیوان میں مقطع سمیت موجود ہے۔ غزل کے باقی چار اشعار بھی ملاحظہ ہوں
میں نہیں ہوں نغمہ جاں فزا‘ مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا‘ میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا‘ میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں‘ کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں‘ نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں‘ جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن غیر مستند کتابوں میں درج بالا غزل بہادر شاہ ظفر سے منسوب کی گئی۔ ان میں مضطر خیر آبادی کا مقطع تو غائب کر ہی دیا جاتا ہے لیکن ظفر کا مقطع کسی بھی کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظفر جیسا استاد شاعر مقطع کے بغیر غزل کہتا جبکہ اس دور میں مقطع کے بغیر غزل مکمل ہی نہیں سمجھی جاتی تھی۔
ربط
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/02-Mar-2010/113693
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یہ شعر ہماری نصابی کتابوں میں غلطی سے بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ خود میں بھی اس غلطی کا مرتکب ہو چکا ہوں۔ میری ایک تالیف ”جب میرا انتخاب نکلے گا“ کے نام سے 1995ءمیں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں تین سو سالوں کی منتخب اور مشہور غزلیں شائع کی گئی تھیں ظاہر ہے اس میں بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شامل تھا اور کچھ نصابی کتب پر انحصار کرتے ہوئے میں نے بھی متذکرہ بالا شعر بہادر شاہ ظفر ہی کا سمجھتے ہوئے اپنے انتخاب میں شائع کر دیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ شعر سیماب اکبر آبادی کا ہے اور ان کے شعری مجموعہ ”کلیم عجم“ میں وہ پوری غزل شامل ہے جس کا یہ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے۔ سیماب اکبر آبادی کی کتاب ”کلیم عجم“ پہلی دفعہ 1936ءمیں شائع ہوئی تھی اور اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن 1985ءمیں ان کے بےٹے مظہر صدیقی نے شائع کیا تھا جو اب میری ذاتی لائبریری میں بھی موجود ہے۔ سیماب اکبر آبادی کے دیوان ”کلیم عجم“ میں 1898ء سے 1908ءتک کی جو غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک غزل کا وہ زبان زدعام شعر ہے جو سہواً ہم لوگ بہادر شاہ ظفر کا سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔ ادبی رسالہ ”نگار“ کا جنوری1941ء میں جو خود نوشت نمبر شائع ہوا تھا اس میں مذکورہ بالا شعر سیماب اکبر آبادی کے نام ہی سے شامل اشاعت ہے جبکہ بہادر شاہ ظفر کے کسی مستند دیوان میں یہ شعر ان سے منسوب نہیں کیا گیا۔ اتنی زیادہ تفصیل سے لکھنے کی ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ ہماری اردو کی نصابی کتب میں بھی یہ غلطی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ مذکورہ بالا شعر بہادر شاہ ظفر کی غزل میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ میں یہاں سیماب اکبر آبادی کے زیر بحث شعر سمیت غزل کے مزید دو اشعار کا حوالہ دینا چاہتا ہوں
تم نے تو ہاتھ جوروستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا رہا ستمِ روز گار میں
اے پردہ دار‘ اب تو نکل آ کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یہ وضاحت یہاں ضروری ہے کہ سیماب اکبر آبادی نے اپنے شعر میں ”لائے تھے“ نہیں بلکہ ”لائی تھی“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اگر کوئی محقق دوست بہادر شاہ ظفر کے کسی مستند دیوان کے حوالہ سے میری گزارشات کی تردید میں کچھ لکھنا پسند کریں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔
میں یہاں نئی نسل کی آگاہی کے لئے علامہ سیماب اکبر آبادی کا مختصر سا تعارف تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیماب 1880ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین تھا۔ وہ داغ کے شاگرد تھے اور خود ایک مسلم الثبوت استاد بھی تھے۔ ان کے دامنِ تربیت سے ہزاروں شاگرد فیضیاب ہوئے۔ وہ کئی ادبی رسائل و جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ 1948ءمیں پاکستان آ گئے تھے اور یہاں 1951ءمیں ان کا انتقال ہوا۔ سیماب اکبر آبادی کی تقریباً14 تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے قرآن حکیم کا جو منظوم ترجمہ کیا تھا۔ اسے بھی بڑی شہرت نصیب ہوئی تھی۔ ان کے بہت زیادہ اشعار مقبول خاص وعام ہیں اور کچھ تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ اپنے باذوق قارئین کےلئے سیماب اکبر آبادی کے چند اشعار
محبت میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر
٭٭٭٭
ہر چیز پر بہار‘ ہر اک شے پہ حسن تھا
دنیا جوان تھی میرے عہدِ شباب میں
٭٭٭٭
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
٭٭٭٭
میں بعدِ مرگ بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل مِرا مزار نہ پوچھ
٭٭٭٭
مَیں ہوں اک مستقل عنوان ہستی کے فسانے میں
مجھے تاریخ دہراتی رہے گی‘ ہر زمانے میں
٭٭٭٭
یہ کس نے شاخِ گل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی
٭٭٭٭
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
٭٭٭٭
ہے غارتِ چمن میں یقیناً کسی کا ہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں
میں یہاں ایک اور غلط فہمی کی بھی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بہت مشہور غزل جس کا مطلع درج ذیل ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
یہ غزل بھی بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دی گئی ہے حالانکہ یہ غزل انڈیا کے مشہور شاعر جاں نثار اختر کے والد مضطر خیر آبادی کی ہے۔ نول کشور نے 1887ءمیں کلیات ظفر کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تھا اور 1918ءمیں پانچواں ایڈیشن۔ یہ غزل کسی بھی ایڈیشن میں شائع نہیں۔ جاں نثار اختر نے 1938ءمیں اپنے ایک مضمون میں واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ یہ غزل ان کے والد مضطر خیر آبادی ہی کی ہے جو ان کے پاس مضطر خیر آبادی کے غیر مطبوعہ دیوان میں مقطع سمیت موجود ہے۔ غزل کے باقی چار اشعار بھی ملاحظہ ہوں
میں نہیں ہوں نغمہ جاں فزا‘ مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا‘ میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا‘ میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں‘ کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں‘ نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں‘ جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن غیر مستند کتابوں میں درج بالا غزل بہادر شاہ ظفر سے منسوب کی گئی۔ ان میں مضطر خیر آبادی کا مقطع تو غائب کر ہی دیا جاتا ہے لیکن ظفر کا مقطع کسی بھی کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظفر جیسا استاد شاعر مقطع کے بغیر غزل کہتا جبکہ اس دور میں مقطع کے بغیر غزل مکمل ہی نہیں سمجھی جاتی تھی۔
ربط
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/02-Mar-2010/113693