ضیاء حیدری
محفلین
ڈیئر تمیم
آداب
میں خیریت سے ہوں اور آپکی خٰریت نیک مطلوب ہے- میری آنکھہ آج بھی خوش گمان کہ تم خوش ہو، میں تم کو پیڑوں کے پیچھے، درختوں کے جھنڈ میں، اور سہیلیوں کے جھرمٹ میں، اٹکھیلیاں کرتا دیکھتا ہوں، اللہ کرے تم اسی طرح ہستی مسکراتی رہو۔
خط لکھنے کی وجہ یہ کہ میں تم کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں تمھیں بھول گیا ہوں- محبت کی سچائی کا کلیہ ہی یہ ہےکہ چپ چاپ اپنی محبت پر قربان ہوجانا، میں اپنا جیون تم پر وار کر، اب الگ تھلگ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہوں، جس میں کوئی رقیب نہ ہو، ظالم سماج نہ ہو، اور اور تم بھی۔ ۔ ۔ ۔
میں نے تمہاری گلی تمہارا محلہ‘ حتیٰ کہ شہر تک چھوڑ دیا ہے- ایک جنگل میں آبسا ہوں‘ ہاں جنگل میں- یہاں کوئی مجھے نہیں جانتا ہے- یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جو تم سے وابسطہ ہو- پھر بھی اس جنگل میں‘ تمہاری یاد کسی نہ کسی طرح راستہ بنا کر پہنچ جاتی ہے-
تم مجھے تنہا چھوڑ دو- پلیز میرا پیچھا چھوڑ دو- تم سے کس نے کہا ہے کہ آج بھی تم مجھے یاد آتی ہو- خوش فہمی ہے تمہاری- میری آنکھوں کی سرخی کا یہ مطلب نہیں کہ میں شب بھر تمہاری یاد میں بے چین رہتا ہوں- اور بھی غم روزگار ہو سکتے ہیں- صبح صبح جاب پر جانا ہوتا ہے- پھر فضا میں اتنی پلوشن ہوتی ہے- ان سے بھی آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں-
تم خوش رہا کرو میری فکر چھوڑو- تم نے کہا تھا نا کہ اپنا خیال رکھنا- مجھے تمہارا حکم یاد ہے- اگر میں باتیں کرتا کرتا کہیں کھو جاتا ہوں- اداس ہوجاتا ہوں‘ تو اس کا سبب تم نہیں ہو پگلی- دور ہی ایسا ہے سکھ کی تلاش رہتی ہے مجھے- احباب تو ہر بات کا فسانہ بنا دیتے ہیں- ان کا دلاسہ بھی نشتر کی طرح لگتا ہے مجھے- بس یہی وجہ کہ کھویا کھویا رہتا ہوں
-میری زندگی‘ میری بے کلی‘ میری بے بسی کا سبب تم نہیں ہو- یہ دنیا والے پاگل ہیں مجھے دیوانہ سمجھتے ہیں- تم ان کی باتوں کو نظر انداز کردیا کرو- اپنا خیال رکھو- میری فکر کرنا چھوڑدو- ان لوگوں کی باتوں میں نہ آؤ، یہ لوگ بس ایسے ہی پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں۔۔۔۔ انہیں کیا پتا،انہیں کیا خبر؟ کسی راہ کے کسی موڑ پر جو ذرا لڑکھڑا جاتا ہوں، تو اس کا سبب تمھیں سمجھتے ہیں،
تمھیں کسی نے ایسے ہی کہہ دیا ہے کہ مجھے تم یاد آتی ہو۔ پرانی بات ہے جو لوگ اکثر نکالتے رہتے ہیں، جنھیں ہم بھول چکے ہیں انہیں ہم کیوں یاد کریں۔ میں تو بھول چکا ہوں تم بھی بھول جاؤ۔ عجب پاگل سی لڑکی ہو، مجھے یوں خط نہ لکھا کرو مری مصروفیت دیکھو، تمھیں یاد کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملتی ہے۔ تمھارے خط کا اِک ایک جملہ۔۔۔۔۔
" تمھیں میں یاد آتی ہوں "
عجب سوال کرتی ہو، ایسا کیوں لکھتی ہو؟
تمھیں کیا معلوم، تمھین کیا پتہ چلے گا!!!! تم اس طرح نہ سوچو‘ یہ سب جھوٹ ہے- یا پھر میں ہی جھوٹا ہوں- میں پل پل ٹوٹا ہوں.
زندگی کتنی باقی ہے؟ یہ ہزاروں پل تمہارے بن کاٹنے ہیں،کبھی یادیں ستاتی ہیں، لیکن جانتا ہوں کہ ایک مرد ہوں، اپنی مردانگی کا مان رکھنا ہے، میری محبت تو عبادت ہے، عبادت کا چرچا نہیں کرتے ہیں،زمانے سے چھپاتے ہیں۔ اسے رسوا نہیں کرتے، سنو ایسا نہیں کرتے، سنو، سنو، سنو ایسا نہیں کرتے!!!!!!!!!!!!!
تم بھی ایسا نہ کرو اور مجھے بھول جاؤ۔-
فقط
ضیاء حیدری