اسماعیل ولی اخگر
محفلین
کویی افسر، کویی نوکر، کویی چپڑاسی
طاقت ہو جس میں کھانے کی ذرا سی
نوچتے ہیں مجھے دن میں رات کو بھی
تاریخ ہے گواہ نواسا ہو نواسی
یاروں نے ،اپنوں نے، پیاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کک بیکس کبھی کمیشن کے نام پر
ہاں کبھی اینٹی کرپشن کے نام پر
بریلوی یا دیو بندی ، سندھی یا بلوچی
کبھی مذہب اور کبھی نیشن کے نام پر
طاقت کے، دوستو! پرستاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
رہتا ہے گرم بازار سیاست کا
باڑ میں جاے تصور ریاست کا
ممبری رہے سات پشتوں میں
یہی تو مزہ ہے سیاست میں حکمت کا
مختصر ،مال بنانے کے متوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کیسی مشکل ، ناخدا ہے خواب میں
پھنس گیی کشتی میری گرداب میں
تعبیر اس کی امروں کی گود میں
لیگ نے بچے دیے پنجاب میں
چودھریوں نے تو کبھی نوازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
روٹی ، کپڑا ، اور مکان کی باتیں
خود ہیں امیر غریب انسان کی باتیں
سادہ لوح لوگوں کو پھنسانے کے لیے
سینہ تان کر پھر زندان کی باتیں
بے نامی کھاتوں کے رکھوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشاروں نے
مصور کا خواب دہشت کی علامت
اپنوں کی سازش کس کو کریں ملامت
اب تو راکھ میں چنگاریاں بھی نہیں
سیاست کی اگ میں جل گیی امامت
خون میں نہلایا کس کے پرستاروں نے؟
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
یہاں ہر طرف ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے
اور مذہب کے نام پر بھی تجارت ہے
کام ہیں سارے ناپاکی کے یہاں
صرف پاک کا لفظ براے تلاوت ہے
تاجروں نے ،دوکان داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
پیروں نے بھی اور مریدوں نے
امیروں نے بھی اور غریبوں نے
الحمد ا للہ کی تکرار سے اور
معصوم بن کے شریفوں نے
ہاںمعصوم بن کے شریفوں نے
عام باز بھی نہیں شاہبازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروںنے
مختلف لبادوں میں جگ پرستوں نے
ملک دشمنوں نے الگ پرستوں نے
خدا پرستی کو چھوڑ کر خود پرست والے
جعلی پیروں نے ، مسلک پرستوں نے
داڑھی کے سایوں میں ریاکاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کہیں پگڑی والے، کہیں پتلوں والے
کہیں تصویر والے، کہیں کارٹون والے
کوڑا کرکٹ سے وہ بجلی بناتے ہیں
جو چیز بناتے ہیں اصلی بناتے ہیں
پاک وطن میں میرے صنعتکار
ہر ناپاک شی سے گھی بناتے ہیں
صنعت کاروں نے پیسے کے بیماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کرتے ہیں بعض لوگ لکڑی کا دھندا
کہیں لوہے کا پھاندا ، کہیں مسجد کا چندہ
یہی تو طریقے ہیں "طریقتوں" کے
کہیں تسبیح ، کہیں ستارہ ' ہاتھ میں ڈنڈا
پھندے الگ لگاے ہیں یاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل ہوشیاروں نے
مریض کی جیب پر جراحوں کی نظر
ڈوپتی کشتی پر ملاحوں کی نظر
فیس کی اڑن سے ہے طبیب کا مقام
کب لگے کی اس کو بیما روں کی نظر
زندگی برباد کی میری مسیحاوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر گلی میں، دوستو ! تعلیم کی دکان ہے
بگتی ہے ایسی انگریزی زبان ہے
منزل نا معلوم مقصد بھی ہے معدوم
طالب جو خوش ہے استاد مہربان ہے
ڈرامہ ایسا رچایا بے روزگاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
بے روز گار لوگ سیاست کرتے ہیں
سیاست کے ذریعے تجارت کرتے ہیں
اگر تجارت نہ چمکے با وجوہ نا معلوم
اگ لگانے کی شرارت کرتے ہیں
میرے سینے کو داغ دیا ان غداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
چترال تا کراچی علوم کا جال ہے
اگر سچ کہوں تو علم کا بد حال ہے
سوال کیا میں نے ایک سیانے سے
تو کہا، ووٹ لینے کی موثر چال ہے
سیکھ لیا ہے جسکو غربت کے ماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
دے کر مرکز میں مقابلے کا امتحان
بن جاتا ہے افیسر جب کویی انسان
جمع اتنا کرتا ہے نوٹوں کا انبار
شمار کرتے ہوے تھکتی ہیں انگلیاں
کرپشن کے پس منظر میں کرداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
بنتا ہے جو بھی ایک بڑا منصوبہ
ہوتا ہے بعد میں ثابت وہ ملغوبہ
سامنے اتے ہیں پھر ایسے پردہ نشین
شیطان بھی کہتا ہے توبہ میری توبہ
اور جو ہیر پھیر کیا ٹھیکہ داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
نانوں سے لیکر نواسوں کی مرادیں
ایڈیٹر سے کہیں وہ ذرا کلپس چلا دیں
دوبیی میں دکانیں سویس بنک میں پیسے
دادوں سے لیکر پوتوں کی جایدادیں
سیاست کی گھوڑی کے سواروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر دل میں ایک چور بس رہا ہے
چھپ کے سے وہ کمر کس رہا ہے
کبھی مذہب کا لبادہ پہن کر
سیاست سانپ ہے ڈس رہا ہے
سمو چا ہی نگلا جعلی خداوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ٹکنالوجی کا دور ہے بایٹس کی باتیں
میڈیا پہ ہوتی ہیں رایٹس کی باتیں
بھو ل کر بھی نہ ہو ں فرایض کی باتیں
دن جا باڑ میں فری نایٹس کی باتیں
چراغوں نے رومانس کے پروانوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر جامعہ میں ہے کوالٹی کا ادارہ
معیار مر گیا ابھی نکلا ہے جنازہ
بی ایس فزکس کو نیوٹن نہیں معلوم
یہ ہے امریکہ کی غلامی کا خمیازہ
نام ہے اعلی غلامی کے اداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
وزیروں نے بھی اور مشیروں نے
مریدوں نے بھی اور پیروں نے
غریبوں نے بھی اور امیروں نے
شریفوں نے بھی اور کمینوں نے
قسم کھا کر جی ہاں اللہ کے حضور
ایوان میں بیٹھے ہوے امینوں نے
پردہ نشیوں نے با ضمیروں نے
ایک تو عیان ہے کیی حسینوں نے
معلوم ہے تجھے اخگر کے شراروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے شراروں نے
طاقت ہو جس میں کھانے کی ذرا سی
نوچتے ہیں مجھے دن میں رات کو بھی
تاریخ ہے گواہ نواسا ہو نواسی
یاروں نے ،اپنوں نے، پیاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کک بیکس کبھی کمیشن کے نام پر
ہاں کبھی اینٹی کرپشن کے نام پر
بریلوی یا دیو بندی ، سندھی یا بلوچی
کبھی مذہب اور کبھی نیشن کے نام پر
طاقت کے، دوستو! پرستاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
رہتا ہے گرم بازار سیاست کا
باڑ میں جاے تصور ریاست کا
ممبری رہے سات پشتوں میں
یہی تو مزہ ہے سیاست میں حکمت کا
مختصر ،مال بنانے کے متوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کیسی مشکل ، ناخدا ہے خواب میں
پھنس گیی کشتی میری گرداب میں
تعبیر اس کی امروں کی گود میں
لیگ نے بچے دیے پنجاب میں
چودھریوں نے تو کبھی نوازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
روٹی ، کپڑا ، اور مکان کی باتیں
خود ہیں امیر غریب انسان کی باتیں
سادہ لوح لوگوں کو پھنسانے کے لیے
سینہ تان کر پھر زندان کی باتیں
بے نامی کھاتوں کے رکھوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشاروں نے
مصور کا خواب دہشت کی علامت
اپنوں کی سازش کس کو کریں ملامت
اب تو راکھ میں چنگاریاں بھی نہیں
سیاست کی اگ میں جل گیی امامت
خون میں نہلایا کس کے پرستاروں نے؟
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
یہاں ہر طرف ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے
اور مذہب کے نام پر بھی تجارت ہے
کام ہیں سارے ناپاکی کے یہاں
صرف پاک کا لفظ براے تلاوت ہے
تاجروں نے ،دوکان داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
پیروں نے بھی اور مریدوں نے
امیروں نے بھی اور غریبوں نے
الحمد ا للہ کی تکرار سے اور
معصوم بن کے شریفوں نے
ہاںمعصوم بن کے شریفوں نے
عام باز بھی نہیں شاہبازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروںنے
مختلف لبادوں میں جگ پرستوں نے
ملک دشمنوں نے الگ پرستوں نے
خدا پرستی کو چھوڑ کر خود پرست والے
جعلی پیروں نے ، مسلک پرستوں نے
داڑھی کے سایوں میں ریاکاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کہیں پگڑی والے، کہیں پتلوں والے
کہیں تصویر والے، کہیں کارٹون والے
کوڑا کرکٹ سے وہ بجلی بناتے ہیں
جو چیز بناتے ہیں اصلی بناتے ہیں
پاک وطن میں میرے صنعتکار
ہر ناپاک شی سے گھی بناتے ہیں
صنعت کاروں نے پیسے کے بیماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کرتے ہیں بعض لوگ لکڑی کا دھندا
کہیں لوہے کا پھاندا ، کہیں مسجد کا چندہ
یہی تو طریقے ہیں "طریقتوں" کے
کہیں تسبیح ، کہیں ستارہ ' ہاتھ میں ڈنڈا
پھندے الگ لگاے ہیں یاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل ہوشیاروں نے
مریض کی جیب پر جراحوں کی نظر
ڈوپتی کشتی پر ملاحوں کی نظر
فیس کی اڑن سے ہے طبیب کا مقام
کب لگے کی اس کو بیما روں کی نظر
زندگی برباد کی میری مسیحاوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر گلی میں، دوستو ! تعلیم کی دکان ہے
بگتی ہے ایسی انگریزی زبان ہے
منزل نا معلوم مقصد بھی ہے معدوم
طالب جو خوش ہے استاد مہربان ہے
ڈرامہ ایسا رچایا بے روزگاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
بے روز گار لوگ سیاست کرتے ہیں
سیاست کے ذریعے تجارت کرتے ہیں
اگر تجارت نہ چمکے با وجوہ نا معلوم
اگ لگانے کی شرارت کرتے ہیں
میرے سینے کو داغ دیا ان غداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
چترال تا کراچی علوم کا جال ہے
اگر سچ کہوں تو علم کا بد حال ہے
سوال کیا میں نے ایک سیانے سے
تو کہا، ووٹ لینے کی موثر چال ہے
سیکھ لیا ہے جسکو غربت کے ماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
دے کر مرکز میں مقابلے کا امتحان
بن جاتا ہے افیسر جب کویی انسان
جمع اتنا کرتا ہے نوٹوں کا انبار
شمار کرتے ہوے تھکتی ہیں انگلیاں
کرپشن کے پس منظر میں کرداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
بنتا ہے جو بھی ایک بڑا منصوبہ
ہوتا ہے بعد میں ثابت وہ ملغوبہ
سامنے اتے ہیں پھر ایسے پردہ نشین
شیطان بھی کہتا ہے توبہ میری توبہ
اور جو ہیر پھیر کیا ٹھیکہ داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
نانوں سے لیکر نواسوں کی مرادیں
ایڈیٹر سے کہیں وہ ذرا کلپس چلا دیں
دوبیی میں دکانیں سویس بنک میں پیسے
دادوں سے لیکر پوتوں کی جایدادیں
سیاست کی گھوڑی کے سواروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر دل میں ایک چور بس رہا ہے
چھپ کے سے وہ کمر کس رہا ہے
کبھی مذہب کا لبادہ پہن کر
سیاست سانپ ہے ڈس رہا ہے
سمو چا ہی نگلا جعلی خداوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ٹکنالوجی کا دور ہے بایٹس کی باتیں
میڈیا پہ ہوتی ہیں رایٹس کی باتیں
بھو ل کر بھی نہ ہو ں فرایض کی باتیں
دن جا باڑ میں فری نایٹس کی باتیں
چراغوں نے رومانس کے پروانوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
ہر جامعہ میں ہے کوالٹی کا ادارہ
معیار مر گیا ابھی نکلا ہے جنازہ
بی ایس فزکس کو نیوٹن نہیں معلوم
یہ ہے امریکہ کی غلامی کا خمیازہ
نام ہے اعلی غلامی کے اداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
وزیروں نے بھی اور مشیروں نے
مریدوں نے بھی اور پیروں نے
غریبوں نے بھی اور امیروں نے
شریفوں نے بھی اور کمینوں نے
قسم کھا کر جی ہاں اللہ کے حضور
ایوان میں بیٹھے ہوے امینوں نے
پردہ نشیوں نے با ضمیروں نے
ایک تو عیان ہے کیی حسینوں نے
معلوم ہے تجھے اخگر کے شراروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے شراروں نے