نہ جانے کون ترے کاخ و کو میں آئے گا
جو آئے گا وہ مری آرزو میں آئے گا
میں جانتا ہوں مرے بعد میرے مرقد پر
کوئی غبار مری جستجو میں آئے گا
یہی تو سوچ کے جلتے ہیں مسجدوں کے چراغ
درون شب یہاں کوئی وضو میں آئے گا
ترے خیال کی لو سے چمک اٹھے ہیں حروف
ابھی تو تو مرے حرف نمو میں آئے گا
مجھے خدا سے ذرا ہم کلام ہونے دو
تمہارا ذکر بھی اس گفتگو میں آئے گا
الیاس بابر اعوان
عُمدہ شراکت!