عاطف ملک
محفلین
تمام محفلین، بالخصوص استادِ محترم الف عین کی نذر:
طبیعت میں عجب اک سرخوشی ہے
توقع ہر کسی سے اٹھ گئی ہے
کہاں امید اب دل میں رہی ہے!
جو اک دیوار تھی، وہ گر چکی ہے
مری مرضی بھلا کس دم چلی ہے
سو جو تیری خوشی، میری خوشی ہے
بہار آئی تھی، آکر جا چکی ہے
کوئی ٹہنی کہیں اب بھی ہری ہے
خزاں ہے، آندھیاں خنجر بہ کف ہیں
مقابل ایک ننھی سی کلی ہے
تمہاری یاد کا جگنو ملا ہے
مرے ظلمت کدے میں روشنی ہے
پلٹنا اب مرا ممکن نہ ہوگا
مجھے شاید محبت ہو گئی ہے
وہی میں اور میری عرضِ مطلب
وہی وہ اور ان کی بے رُ خی ہے
تری مرضی تھی گر ترکِ تعلق
تو پھر آنکھوں میں یہ کیسی نمی ہے
سحر کے حسن کے گن گانے والے
کسی سے پوچھ تو، کیسے ہوئی ہے
ذرا دیکھ ان اسیرانِ ہوس کو
کہ جن کی کل کمائی خاک ہی ہے
نہ جس سے نفع ہو خلقِ خدا کو
بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے
خدائے عشق، عاطفؔ پر کرم کر
یہ کہتا تھا محبت بت گری ہے
اپریل ۲۰۱۸
توقع ہر کسی سے اٹھ گئی ہے
کہاں امید اب دل میں رہی ہے!
جو اک دیوار تھی، وہ گر چکی ہے
مری مرضی بھلا کس دم چلی ہے
سو جو تیری خوشی، میری خوشی ہے
بہار آئی تھی، آکر جا چکی ہے
کوئی ٹہنی کہیں اب بھی ہری ہے
خزاں ہے، آندھیاں خنجر بہ کف ہیں
مقابل ایک ننھی سی کلی ہے
تمہاری یاد کا جگنو ملا ہے
مرے ظلمت کدے میں روشنی ہے
پلٹنا اب مرا ممکن نہ ہوگا
مجھے شاید محبت ہو گئی ہے
وہی میں اور میری عرضِ مطلب
وہی وہ اور ان کی بے رُ خی ہے
تری مرضی تھی گر ترکِ تعلق
تو پھر آنکھوں میں یہ کیسی نمی ہے
سحر کے حسن کے گن گانے والے
کسی سے پوچھ تو، کیسے ہوئی ہے
ذرا دیکھ ان اسیرانِ ہوس کو
کہ جن کی کل کمائی خاک ہی ہے
نہ جس سے نفع ہو خلقِ خدا کو
بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے
خدائے عشق، عاطفؔ پر کرم کر
یہ کہتا تھا محبت بت گری ہے
اپریل ۲۰۱۸