سارہ بشارت گیلانی
محفلین
مجھے عادت ہے چاہے جانے کی
اسے عادت ہے دل لگانے کی
ایک خواہش تهی گهر بسانے کی
ایک حسرت تهی آشیانے کی
مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی
وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی
چار سو پهیلتا اندھیرا ہے
رات ہے زخم دل جلانے کی
کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی
شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے
بات ایسے نہیں بتانے کی
اسے عادت ہے دل لگانے کی
ایک خواہش تهی گهر بسانے کی
ایک حسرت تهی آشیانے کی
مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی
وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی
چار سو پهیلتا اندھیرا ہے
رات ہے زخم دل جلانے کی
کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی
شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے
بات ایسے نہیں بتانے کی