مجھے عادت ہے چاہے جانے کی - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

مجھے عادت ہے چاہے جانے کی
اسے عادت ہے دل لگانے کی

ایک خواہش تهی گهر بسانے کی
ایک حسرت تهی آشیانے کی

مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی

وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی

چار سو پهیلتا اندھیرا ہے
رات ہے زخم دل جلانے کی

کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی

شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے
بات ایسے نہیں بتانے کی
 

الشفاء

لائبریرین
کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری​
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی​

واہ۔ کیا خوب کہا ہے۔۔۔
 
مجھے عادت ہے چاہے جانے کی
اسے عادت ہے دل لگانے کی

ایک خواہش تهی گهر بسانے کی
ایک حسرت تهی آشیانے کی

مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی

وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی

چار سو پهیلتا اندھیرا ہے
رات ہے زخم دل جلانے کی

کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی

شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے
بات ایسے نہیں بتانے کی

-----------------------------------------------------------------------

بہت خوب، بہت اعلی
 

بھلکڑ

لائبریرین
بہت خوب سارہ صاحبہ لاجواب ۔۔۔بہت ساری ڈاڈ۔۔۔۔۔۔۔ ہی ہی ہی
بہت خوب سارہ صاحبہ !
اُستاد محترم اس شعر میں
وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی
میں اُس کا نام یا اس طرح کا کوئی جملہ اگر آئے ۔۔۔۔تو
اور دوسرا اس شعر کے بارے میں واضح کیجئے گا ک. شاعر ایسا کیوں کہنا چاہ رہا ہے۔۔۔۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
اُستاد محترم اس شعر میں
اسے ایسے لکھیں، (یعنی سیدھا سیدھا سوال پوچھیں، کوئی تمہید نہ باندھیں، خاص طور پر اس طرح کی تمہید)
میں اُس کا نام یا اس طرح کا کوئی جملہ اگر آئے ۔۔۔ ۔تو
آپ کے خیال سے یہاں شاعر کو خود کے بارے میں یہ کہنا چاہئے، کہ "میں اس کا نام لے کر جیتا (جیتی) ہوں"؛ لیکن شاعرہ کا خیال شاید یہ نہ ہو۔ :)
اور دوسرا اس شعر کے بارے میں واضح کیجئے گا ک. شاعر ایسا کیوں کہنا چاہ رہا ہے۔۔۔ ۔۔
یہ تو آپ شاعرہ سے ہی پوچھیں۔ کہ وہی بہتر بتا سکتی ہیں :)

غالب کا ایک شعر دیکھیں:
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
یہاں عام طور پر ہم "اگر" استعمال کریں، لیکن غالب نے (شاید قصداً) مگر استعمال کیا ہے۔۔
:) مثال کا مقصد یہ ہے کہ شاعر کچھ مضامین، یا الفاظ کسی خاص وجہ سے استعمال کرتا ہے۔ اور یہ اس کا حق ہے۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
چلیں
اسے ایسے لکھیں، (یعنی سیدھا سیدھا سوال پوچھیں، کوئی تمہید نہ باندھیں، خاص طور پر اس طرح کی تمہید)

آپ کے خیال سے یہاں شاعر کو خود کے بارے میں یہ کہنا چاہئے، کہ "میں اس کا نام لے کر جیتا (جیتی) ہوں"؛ لیکن شاعرہ خیال شاید یہ نہ ہو۔ :)

یہ تو آپ شاعرہ سے ہی پوچھیں۔ کہ وہی بہتر بتا سکتی ہیں :)

آخری نکتہ پر غالب کا ایک شعر دیکھیں:
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
یہاں عام طور پر ہم "اگر" استعمال کریں، لیکن غالب نے (شاید قصداً) مگر استعمال کیا ہے۔۔
:) مثال کا مقصد یہ ہے کہ شاعر کچھ مضامین، یا الفاظ کسی خاص وجہ سے استعمال کرتا ہے۔ اور یہ اس کا حق ہے۔
چلیں بھائی جان !
اب تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔بہت شکریہ اور شاعرہ ن. بھی پڑھ ہی لیا ہوگا جب آئیں گی تو بتلا دیں گی۔۔۔۔۔۔۔!
 
مجھے عادت ہے چاہے جانے کی
اسے عادت ہے دل لگانے کی

ایک خواہش تهی گهر بسانے کی
ایک حسرت تهی آشیانے کی

مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی

وہ میرا نام لے کے جیتا ہے
کیا ضرورت کسی بہانے کی

چار سو پهیلتا اندھیرا ہے
رات ہے زخم دل جلانے کی

کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی

شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے
بات ایسے نہیں بتانے کی


کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی

سبحان اللہ۔
کیا ہی سچ کہا ہے۔

باقی غزل میں وزن تو درست ہے مگر اصلاح کی اچھی خاصی ضرورت ہے۔ کچھ مصاریع میں ربط نہیں ہے، کہیں ابلاغ نہیں ہو رہا۔ کہیں کوئی دوسرا سقم در پیش ہے۔
 
کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی

سبحان اللہ۔
کیا ہی سچ کہا ہے۔

باقی غزل میں وزن تو درست ہے مگر اصلاح کی اچھی خاصی ضرورت ہے۔ کچھ مصاریع میں ربط نہیں ہے، کہیں ابلاغ نہیں ہو رہا۔ کہیں کوئی دوسرا سقم در پیش ہے۔

جی بہت شکریہ :)
آپ ہی کچھ بتا دیجئے کہاں correction کی ضرورت ہے پلیز
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب سارہ۔ اسقام کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔ تم خود ترمیم کرنے کی کوشش کرو۔
مجھے عادت ہے چاہے جانے کی​
اسے عادت ہے دل لگانے کی​
۔۔دونوں مصرعوں میں ایک ہی لفظ ’عادت‘ کا استعمال اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ایک جگہ ’فطرت‘ کیا جا سکتا ہے۔

ایک خواہش تهی گهر بسانے کی​
ایک حسرت تهی آشیانے کی​
÷÷دونوں مصرعوں میں ربط؟


مجھ میں جرات ہے جاں سے جانے کی​
تجه میں ہمت ہو آزمانے کی​
÷÷دوسرے مصرع میں ’ہو‘ کے استعمال سے مراد؟

وہ میرا نام لے کے جیتا ہے​
کیا ضرورت کسی بہانے کی​
۔۔یہاں صرف ’مرا‘ کا محل ہے، جیسا شوکت پرویز نے کہا ہے۔

چار سو پهیلتا اندھیرا ہے​
رات ہے زخم دل جلانے کی​
÷÷زخم دل کا جلانا!!!

کچھ کمی غم گسار کی ٹهہری​
کچھ مری خو ہے غم چهپانے کی​
۔۔درست

شوخ لمحوں کی نذر ہو جائے​
بات ایسے نہیں بتانے کی​
÷÷شعر میں ابلاغ کی کمی ہے۔​
 
Top