مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ
بھئی آپ مجھے اس طرح کیا گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے؟ نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ کیونکہ اس وقت کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو ان چاہتوں کا شکار ہوتا چیخ اٹھتا۔ ع
اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے تو دوست کا مارا دوستوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگتا ہے کہ حق دوستی ادا کرنے کے لئے اب کون پر تول رہا ہے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ آج کل حق دوستی ادا کرتے وقت دوست احباب حق و ناحق کی تمیز کے چکر میں نہیں پڑتے ویسے بھی حق تو صرف ایک ہی ذات ہے جس کی ضیا پاشیوں نے سارے عالم کو حق پرست بنا رکھا ہے خواہ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار۔
نفسا نفسی کے اس دور میں کسی دوست کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً محال بھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہے جو شخص لوگوں کے درمیان رہتا ہو اس کے دوست احباب تو ہوں گے دس بیس نہیں تو دو چار تو کہیں نہیں گئے۔ پھر یہ دوست کی عدم دستیابی چہ معنی دارد؟ ہم ایسے تمام خوش فہم حضرات کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ع
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے مطلب یہ کہ کوئی فرد اپنی عادت ثانیہ کو یکسر ترک نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کر بھی لے تو کبھی نہ کبھی اپنی اس عادت کا اظہار ضرور کرے گا۔ اسی طرح دوست کے بارے میں آجکل یہ بات بلا کھٹکے کہی جا سکتی ہے کہ دوست دوستی سے جائے خود غرضی سے باز نہ آئے۔ اگر کسی دوست کو ہماری یہ بات بری لگے تو وہ فوراً سمجھ لے کہ ہماری یہ بات سچی ہے کیونکہ سچ کے بارے میں ماہر حسیات پہلے ہی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ سچ تلخ تو ہوتا ہےمگر دافع امراض خبیثہ ہوتا ہے۔ اور اس کا تادم مرگ استعمال آدمی کو تمام برائیوں سے پاک رکھتا ہے۔ چچا غالب تو رہنے دیجئے کہ وہ اپنے قول میں صادق تھے (خدا گواہ ہے) مگر پطرس بخاری مرحوم جیسے "جھوٹے" بھی سچ کہنے پر مجبور تھے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا تھا بلکہ وہ خود کہہ گئے ہیں۔ ع
کہتا ہوں سچ گرچہ عادت نہیں مجھے
ذکر ہو رہا تھا، دوست کی دوستی کا اور بات پہنچی جا کر۔۔۔ خیر یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ آخر جب قیامت کا ذکر چھڑتا ہے تو اس وقت بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور اگر بات کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی بنفس نفیس وہیں پہنچ جائیں تو آپ کا یہ اقدام قاب دست اندازی پولیس بھی ہے۔ ہاں تو ہم عدم دستیابی دوست کا تذکرہ کر رہے تھے اور تذکرہ کیا کر رہے تھے حقیقت بیان کر رہے تھے اگر آپ اپنے ارد گرد جمع تمام دوستوں کو دوستی کی کسوٹی پر ذرا سا بھی آزما کر دیکھیں تو حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ ویسے ایک دانشور کا قول ہے کہ آپ اپنے دوست کو کبھی نہ آزمائیں ہو سکتا ہے کہ بوجوہ وہ آپ کی آزمائش پر پورا نہ اتر سکے اور آپ ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ دانشور صاحب نے دوست کو آزمانے سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ اس طرح دوست کا بھرم کھل جائے گا اور آپ اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے کہ آپ کا بھی کوئی دوست ہے۔ اب آپ بتلائیں ایسے میں ہم، "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ" کی صدا نہ لگائیں تو کیا کریں۔ ویسے ہم دوست کے وجود کے یکسر منکر بھی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ کالم لکھا ہی تلاش دوست کے لئے ہے کیونکہ اس کی پہنچ بہرکیف مجھ سے زیادہ وسیع ہے۔ سوائے مری پیاری تحریر! تو ع
اب "انہیں" ڈھونڈ چراغ رخ زیباِ لے کر