مجھے پتا ہے تمہارا موزہ کہاں ہے

جاسم محمد

محفلین
ڈالر اور روپیوں کے فرق سے کس کافر کو انکار ہے:LOL:۔
یہ اصل وجہ نہیں مغرب بھاگنے کی۔ دیسیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنی محنت اور لگن سے وہ مغرب کی سب سے بڑی کمپنیوں گوگل، مائکروسافٹ میں چیف ایگزیکٹو تک لگ سکتے ہیں۔ جبکہ اپنے ہی ملک میں تمام تر محنت کے باوجود صرف سفارش اور کرپشن چلتی ہے۔ اسی لئے ویزہ ملتے ہی وہ رفو چکر ہو جاتے ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
وگرنہ مغرب کا ویزا ملنے پر جس طرح دیسیوں کی دوڑیں لگتی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں :)
انتہائی احترم سے غیر متفق۔ سعودی عرب آنے سے پہلے بھی 2008 میں یو ایس کے غالبا ایچ ون ویزہ کی آفر تھی (میری سابقہ یو اس بیسڈ کمپنی کی طرف سے)، کینیڈین بیسڈ وائس اوور آئی پی کمپنی کے لیے کام کرتا تھا وہ سپونسر کرنے کے لیے تیار تھے۔ سعودی عرب آنے کے بعد بھی وہ رابطہ کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر ہوں۔ مادیت پرستی نسبتا بڑھ گئی ہے لیکن ابھی بھی لوگوں کی ترجیحات ایک جیسی نہیں۔ سب کو ایک ہی ترازو میں تولنا درست نہیں۔ یہ واضح کردوں کہ میرا تعلق کسی مذہبی گھرانے سے نہیں۔ جو فیصلے کیے ہیں وہ خود اپنی سمجھ کے مطابق بغیر کسی انتہا پسندی کے کیے ہیں۔اور الحمدللہ ان پر مطمئن ہوں۔ جن چند لوگوں کی بات آپ یا زیک فرما رہے ہیں ان کہ وجہ سے سب کو ایک چھڑی سے ہانکنا درست نہیں۔ مغرب کے ویزے کی غیر معمولی خواہش نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ ہاں سیر سپاٹے کی غرض سے اللہ پاک نے موقع دیا تو ضرور جاوں گا۔
 

شکیب

محفلین
انتہائی احترم سے غیر متفق۔ سعودی عرب آنے سے پہلے بھی 2008 میں یو ایس کے غالبا ایچ ون ویزہ کی آفر تھی (میری سابقہ یو اس بیسڈ کمپنی کی طرف سے)، کینیڈین بیسڈ وائس اوور آئی پی کمپنی کے لیے کام کرتا تھا وہ سپونسر کرنے کے لیے تیار تھے۔ سعودی عرب آنے کے بعد بھی وہ رابطہ کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر ہوں۔ مادیت پرستی نسبتا بڑھ گئی ہے لیکن ابھی بھی لوگوں کی ترجیحات ایک جیسی نہیں۔ سب کو ایک ہی ترازو میں تولنا درست نہیں۔ یہ واضح کردوں کہ میرا تعلق کسی مذہبی گھرانے سے نہیں۔ جو فیصلے کیے ہیں وہ خود اپنی سمجھ کے مطابق بغیر کسی انتہا پسندی کے کیے ہیں۔اور الحمدللہ ان پر مطمئن ہوں۔ جن چند لوگوں کی بات آپ یا زیک فرما رہے ہیں ان کہ وجہ سے سب کو ایک چھڑی سے ہانکنا درست نہیں۔ مغرب کے ویزے کی غیر معمولی خواہش نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ ہاں سیر سپاٹے کی غرض سے اللہ پاک نے موقع دیا تو ضرور جاوں گا۔
زبردست بھئی۔ اللہ برکت دے۔
ویسے میرے خیال میں جاسم بھائی نے عام رویے کی بات کی ہے، جس میں مغرب کی مرعوبیت کا بھی ہاتھ ہے۔
تو اب تک 3 وجوہات:
پیسہ
ترقی
مرعوبیت
 

جاسم محمد

محفلین
ضروری نہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر ہوں۔ مادیت پرستی نسبتا بڑھ گئی ہے لیکن ابھی بھی لوگوں کی ترجیحات ایک جیسی نہیں۔ سب کو ایک ہی ترازو میں تولنا درست نہیں
گستاخی معاف! میں نے آپ کی بات نہیں کی۔ عوام کا عمومی رویہ بیان کیا ہے۔ جس میں ظاہر ہے بہت سے لوگوں کو (آپ جیسے) استثنا حاصل ہے :)
 

فلسفی

محفلین
زبردست بھئی۔ اللہ برکت دے۔
ویسے میرے خیال میں جاسم بھائی نے عام رویے کی بات کی ہے، جس میں مغرب کی مرعوبیت کا بھی ہاتھ ہے۔
تو اب تک 3 وجوہات:
پیسہ
ترقی
مرعوبیت
پیسے کے لیے تو انگریزوں کو یہاں سعودی عرب میں دھکے کھاتے دیکھا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس چھڑی کو دیسیوں کے لیے مخصوص کرنا مناسب نہیں۔ ہاں ترقی اور مرعوبیت (احساس کمتری) قابل ذکر عوامل ہیں۔
 

Rehan Ahmed

محفلین
  1. اپنی ملت کا قیاس اقوامِ عالم سے نہ کر
  2. خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِﷺ ہاشمی یہ اقبال کا نظریہ ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اللہ پاک سب کی عزت و ناموس کی حفاظت فرمائے۔ ورنہ ذاتی مشاہدے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو فقط مذہب سے ضد (اصل مسئلہ مذہب کی پابندیوں کا ہے، پابندی نہیں تو سب ٹھیک) کی بنیاد پر ایک دوسری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان کی ہی ایک روشن خیال خاتون ۔۔۔ (نام لینا نہیں چاہوں گا کیونکہ وہ دنیا میں نہیں) سے ویلنٹائن کے بارے میں سوال کیا کہ "محترمہ!، کیا آپ کو اچھا لگے گا اگر میں آپ کی جوان بیٹی کو پھول پیش کروں اور آئی لو یو بولوں؟" ۔۔۔ محترمہ کا جواب تھا کہ بیٹی کو بعد میں دینا پہلے مجھے وِش کرو۔ (اس کے کچھ عرصہ بعد محترمہ کا انتقال ہو گیا)۔ بے شک اللہ پاک ہی خطاؤں کو معاف فرمانے والا ہے۔
کیا یہ سوال آپ نے کیا تھا؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مجھے پتا ہے تمہارا موزہ کہاں ہے
09/03/2019 ظفر عمران

zeffer-imran-283x300.jpg


انسانی حقوق پر جزوی اختلاف ہیں کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں، لیکن اکثریت تسلیم کرتی ہے، کہ تمام انسانوں کے حقوق یک ساں ہیں؛ انسانی حقوق و شہری حقوق، مثلا؛ ان میں سے چند کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آزادی، اظہار رائے کی آزادی، انسان کے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، ووٹ کا حق، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، برابری کی بنیاد پر معاوضہ، پسند کی شادی کا حق، اولاد پیدا کرنے کا حق، جائداد رکھنے کا حق، اور تعلیم کا حق، وغیرہ۔ انسانوں میں مرد عورت کی تخصیص نہیں؛ گویا انسانی حقوق ہی نسوانی حقوق ہیں، اس میں کچھ تخصیص ہے، تو ایسے ہی جیسے بچوں کے حقوق، مریضوں کے حقوق، بزرگوں کے حقوق۔

عورت اور مرد کی تقسیم کرتے ہمارے یہاں دو انتہائیں ہیں۔ ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں، جو عورت اور مرد کی تقسیم کرتے، عورتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مقدس کتابوں سے حوالے لے آتے ہیں، اور دوسری طرف وہ انتہا پسند ہیں جو مغرب سے مثالیں لاتے ہیں، اور اصرار کرتے ہیں کہ بس انھی کو حتمی تسلیم کیا جائے۔ ان دو انتہاوں کے بیچ میں پاکستانی معاشرہ ہے، جو نہ مذہبی معاشرے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، نہ مغربی معاشرے کی طرح کا ہے (اگر مغرب کو مذہب اور پاکستان کے متضاد رکھ کے سمجھا جائے)۔

53745116_10218139503540045_3368036447838797824_n-300x225.jpg


اسلامی فقہہ میں عورت وراثت میں حصے دار ہے، حق مہر، نان نفقے کی حق دار ہے، بچے کی دودھ پلائی کا معاوضہ طلب کر سکتی ہے، لیکن ہمارے یہاں علما نے کبھی اس پیغام کو عام نہیں کیا، نا ہی مسلمانان ہند و پاک ان فرائض کی ادائی میں مستعد ہیں۔ عورت نا فرمانی کرے تو اسے ہلکی مار دینی ہے، یا زیادہ اس کا بیان سننے میں آتا ہے۔ (نا ہی مرد، عورت پر ہاتھ اٹھانے کے لیے قران کی آیت کے حوالے کا محتاج پاتا ہے)۔ عورت کی قران سے شادی کر دی جائے، اس کی رضا مندی کے بنا بیاہ دیا جائے، وراثت سے بے دخل کر دیا جائے، تو اسلام خطرے میں پڑتا دکھائی نہیں دیتا، لیکن حقوق نسواں بل کی منظوری کا معاملہ ہو، تو علما کو یاد آ جاتا ہے، کہ یہ غیر اسلامی قانون ہے۔ ان کی طرف سے کہنے کو کہا جا سکتا ہے، پاکستان میں عورت کو وراثت سے بے دخل کرنے کا قانون بھی تو نہیں ہے، لہاذا اس پر بات کرنے کے کیا معنی۔ ایسا ہی ہے تو گویا انھیں قانون سے مطلب ہے، عمل ہو نہ ہو، پروا نہیں۔

53383225_10218139502580021_836084696348622848_n-300x225.jpg


اب اُس دوسری انتہا کی خبر لیجیے؛ مغربی معاشروں میں women’s right movement اور feminist movement ان کے حالات کے تناظر میں ابھریں اور انھی کے سماجی و اخلاقی حالات کے تناظر میں حقوق نسواں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں مغربی معاشرے کی خوبیوں کا معترف ہوں۔ مغرب سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، لیکن ان کے قوانین ’جیسا ہے‘ کی بنیاد پر یہاں لاگو نہیں ہوتے اور اگر کر بھی دیے جائیں، تو پہلے وہ حالات پیدا کرنے ہوں گے۔

بد قسمتی سے ہمارے یہاں فیمن ازم کے زیادہ تر وکیل وہ ہیں، جو فیمنسٹ کم اور مذہب مخالف زیادہ ہیں۔ ان کی تان مذہب مخالفت پر ٹوٹتی ہے (سب نہیں، اکثر کا احوال یہی ہے)۔ مثالیں یہ دیں گے کہ پاکستان میں عورت کا وراثتی حصہ دبا لیا جاتا ہے، یا یہ کہ اسلام میں عورت کا وراثت میں نصف حصہ کیوں‌ ہے۔ وہ یہ بات جانتے نہیں یا جاننا نہیں چاہتے کہ feminism movement کے مطالبوں میں عورت کا وراثت میں حق شامل نہیں ہے، کیوں کہ مغرب میں وراثت وصیت کے مطابق منتقل ہوتی ہے، وصی جس کا حصہ جتنا مقرر کر جائے، اتنا ملتا ہے؛ چاہے تو کچھ بھی مقرر نہ کرے۔ مذہب اسلام نے تو پھر عورت کو نصف حصے کا حق دار ٹھیرایا ہے۔

دیکھا یہ گیا ہے، کہ جوش خطابت میں فیمن ازم کے وکیل عورت کے مساوی حقوق کا نعرہ بلند کرتے، مرد کے حقوق کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، بعض اوقات تو یہ لگتا ہے، کہ ہمارے یہا‌ں فیمن ازم کا مطلب مرد کے حقوق کم کرنے کی تحریک ہے، یا مرد کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں کسی قضیے کے دوران کوئی ”مرد“ کا ذکر چھیڑ دے، تو اس ’ذاکر‘ کو ”عورت کا دشمن“ قرار دیا جاتا ہے۔ کوڑے برسائے جاتے ہیں (محاورتاً)۔ یہ بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے۔

53379713_2307313286261177_7443932421440929792_n-300x225.jpg


اب مذہب کو بھی ایک طرف رکھیے اور مغرب کی خوبیوں خامیوں کو بھی۔ عورت اپنی کفیل خود ہو، مرد کی محتاج نہ رہے، تو کَہ سکتی ہے، میں اپنا کماتی ہوں، تم اپنا کماتے ہو، اس لیے اپنے اپنے کام خود کرو (ایسے خواتین ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں گی)۔ اور دوسری مثال یہ دیکھیں، شوہر کما کر لاتا ہے، اپنی کمائی سے گھر میں راشن ڈالتا ہے، یوٹیلٹی بل ادا کرتا ہے، بیوی گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، وہ شوہر سے کہے، ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘، تو؟۔۔ جواب میں فیمن ازم کئ وکیل یہ کہتے ہیں، ’’عورت آپ کی ملازمہ تو نہیں‘‘، ان سے پوچھا جانا چاہیے، ’’مرد، عورت کا خادم کیسے ہو گیا، کہ کمائے، لائے اور آپ کھائیں؟ کیا یہی انصاف ہے؟‘‘ ان نیک نام فیمنسٹ سے جب ایسا پوچھیے، جنھیں میں نے انتہا پسندوں کی فہرست میں رکھا ہے، تو وہ کہیں گے، ’’ہاں! تو اور کیا؛ یہی تو مطلوب ہے۔‘‘ یہ انتہا پسند ’بقلم خود‘ فیمن ازم کا ٹھٹھا اُڑاتے ہیں۔

ہمارے یہاں کتنی عورتیں ہیں جو خود کما کر لاتی ہیں، اور باپ، بھائی، یا شوہر کی محتاج نہ ہوں؟ (باپ کما کر لائے، تو کھانا گرم کر دیں، شوہر کما کے نہیں لائے تو کھانا گرم نہیں کرو)۔ تو کیا یہ معاملہ بحث طلب ہے، کِہ ’’مرد‘‘ سے کیا مراد ہے؟ سمجھ یہ آتا ہے، کِہ باپ، بھائی، چچا، ماموں، تایا، مرد نہیں ہوتا، یہاں ’شوہر‘ کو ’مرد‘ کہا جا رہا ہے۔ شوہر اپنا کھانا خود گرم کرے۔

53435329_10218139501980006_3518982433506590720_n-195x300.jpg


شوہر کی کمائی پر بھروسا کرنے والی ایسی عورت ”ایسی فیمن ازم“ کا حوالہ دے، تو اسے خود کمانے پر غور کرنا ہو گا، ناقدین کی نظر میں نسائیت کی تحریک کا ایک یہ محرک بتایا گیا ہے، کہ صنعت کار کو مزدور کی صورت میں، مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی بھی ضرورت ہے؛ اس لیے وہ عورت کو چار دیواری سے باہر نکالنے کے لیے فیمن ازم پر انویسٹ منٹ کرتا ہے۔ (اگر یہی محرک ہے تو بھی میرا اعتراض نہیں ہے)۔

ہر سماج کی کئی پرتیں ہوتی ہیں، ہر سماج کا ایک مخصوص تانا بانا ہوتا ہے، کہیں سے کوئی بھی دھاگا یونھی یا ایک دم سے نہیں کھینچ لیا جاتا۔ ’’مجھے کیا پتا تمھارا موزہ کہاں ہے‘‘، ’’کھانا میں گرم کر دوں گی، اپنا بستر خود گرم کرو‘‘، جیسے لا یعنی نعرے بجائے خود سود مند ہونے کے، ان حقیقی مسائل پر پردہ ڈالتے ہیں، جنھیں واقعی ہمارے یہاں کی عورت کو سامنا ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا کے مصداق، اپنا مضحکہ خود نہ اڑائیں۔ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق؛ بنتے بنتے یہ مشرقی سماج ایسا بن جائے، جہاں ’مغرب‘ کی طرح کے حالات ہوں، وہی سماجی و اخلاقی قدریں ہوں، تو مغربی قوانین کو اسی طرح نافذ کر دیں، جیسا کہ مغرب کا چلن ہے۔

فی الحال ہمیں موزہ تلاش کرنے میں عار نہیں محسوس ہونا چاہیے، خاص طور پہ اسے، جس نے گھر داری، یعنی کھانا پکانا، کپڑے دھونے، موزہ تلاش کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہ چنا ہو؛ اسے تو یہی کہنا ہے، ’’مجھے پتا ہے تمھارا موزہ کہاں ہے‘‘۔ اور ایسے میں اگر کسی نے ٹائر بدلنا سیکھ لیا ہے، تو اپنے پارٹنر کو زندگی کی گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ دینے میں کوئی حرج بھی نہیں؛ بھلے ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھی ہو۔
مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہم بنیادی طور پر شدت پسند لوگ ہیں۔ feminism کے حامی اور مخالفین اس حمایت و مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر کوئی حدود باقی نہیں رہتیں۔ جیسا کہ عورت مارچ میں ہو رہا ہے۔ اس فورم کو بہت موثر طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ عورتوں کو ونی، کاروکاری جیسی قبیح رسومات کا شکار بننے سے بچانے کے لیے، بیٹیوں کو جائیداد میں شرعی حصہ ملنے کو یقینی بنانے کے لیے، ضرورت مند عورتوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے لیے لیکن افسوس کہ فضول نعروں اور فضول ترجیحات نے سب کچھ ضائع کر دیا۔
سوشل میڈیا پر سرگرم بزعم خود روشن خیال گروہوں نے جس طرح کے نعرے بلند کیے انھوں نے عورت کو اپنا شرعی حق مانگنے کے موقعے سے بھی محروم کر دیا۔
اسی طرح جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان عورتوں کے لیے محفوظ ترین اور پاکستان سے باہر ہر جگہ عورت کے لیے غیر محفوظ ہے، انھیں بھی غیر جانبداری کی عینک لگا کر حالات دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مغربی معاشرے میں عورت بے راہ روی کی وجہ سے برے حالات کا شکار ہے تو انھیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بھی عورت اسی ظلم و زیادتی کا شکار ہے چاہے وہ پردہ دار ہے یا بے پردہ۔ گھر بیٹھی ہے یا گردش دوراں کے ہاتھوں گھر سے باہر نکلی ہے۔ کبھی اخبارات کے صفحہ نمبر 2 پر جائیں، تین سال کی بچی سے لے کر 70 سال کی عورت تک مار، زیادتی، قتل ہر طرح کے ظلم کی ان گنت مثالیں پڑھنے کو مل جائیں گی۔
قصہ مختصر یہ کہ حامیوں اور مخالفین دونوں کو اعتدال پسندی سے کام لے کر مسائل، ان کی وجوہات اور حل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بیچارے مرد حضرات بھی میدان میں آگئے :)
D1YhDJaX0AAxQ38.jpg
ویسے میرا اس عورت مارچ کے ساتھ کچھ لینا دینا تو نہیں لیکن ان بھائی صاحبان نے جو کہا ہے وہ مجھ سمیت بہت سے لوگ خود ہی کرتے ہیں۔ میں کیوں بھلا کسی سے کہوں گی کہ مجھے فریج سے برف نکال کر دو۔ شدید سست ہونے کے باوجود میں یہ کام خود کر سکتی ہوں۔ سیرپ کی بوتل کا ڈھکن کھولنے میں کیا راکٹ سائنس ہے بھلا۔ اس لیے میں یہ کام بھی خود کر لیتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میک اپ بھی خود کے لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھا دیکھنا چاہتا ہے۔ باقی رہی چھپکلی مارنے کی بات تو اگر کبھی چھپکلی نظر آ جائے تو مجھے نہیں یاد کہ اسے کسی نے مارا ہو۔ میں تو اسے وائپر سے دیوار پر ٹھک ٹھک کر کے بھگا دیتی ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوشل میڈیا پر سرگرم بزعم خود روشن خیال گروہوں نے جس طرح کے نعرے بلند کیے انھوں نے عورت کو اپنا شرعی حق مانگنے کے موقعے سے بھی محروم کر دیا۔
متفق ہوں۔ بلکہ دھاگہ کے پہلے ہی صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ اس قسم کے فضول پوسٹرز اور نعرے خواتین کا معاشرہ میں مقام و احترام بڑھانے کی بجائے اُلٹا کم کر رہے ہیں۔
خواتین کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے سے کوئی نہیں روک رہا۔ البتہ اس قسم کے مضحکہ خیز پوسٹرز کے ساتھ وہ اپنا کیس خود ہی کمزور کر رہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے میرا اس عورت مارچ کے ساتھ کچھ لینا دینا تو نہیں لیکن ان بھائی صاحبان نے جو کہا ہے وہ مجھ سمیت بہت سے لوگ خود ہی کرتے ہیں۔
یہ بھائی صاحبان کسی ’’مرد مارچ‘‘ سے ہو کر نہیں آرہے۔ بلکہ حقوق نسواں مارچ والوں کو ٹرول کر رہے ہیں :)
 
Top