فلسفی
محفلین
ایسے بابوں کو جب کہیں نا کہ بابا جی کچھ تو خیال کریں قبر میں آپ کی ٹانگیں ہیں، تو آگے سے کہتے ہیں کوئی بات نہیں بیٹا منہ تو باہر ہے نااس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے
ایسے بابوں کو جب کہیں نا کہ بابا جی کچھ تو خیال کریں قبر میں آپ کی ٹانگیں ہیں، تو آگے سے کہتے ہیں کوئی بات نہیں بیٹا منہ تو باہر ہے نااس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دیسی لبرل ایسے ہی ہیں۔کوئی بات نہیں بیٹا منہ تو باہر ہے
اب آ رہا ہے مزا۔ :ڈویسے میرا اس عورت مارچ کے ساتھ کچھ لینا دینا تو نہیں لیکن ان بھائی صاحبان نے جو کہا ہے وہ مجھ سمیت بہت سے لوگ خود ہی کرتے ہیں۔ میں کیوں بھلا کسی سے کہوں گی کہ مجھے فریج سے برف نکال کر دو۔ شدید سست ہونے کے باوجود میں یہ کام خود کر سکتی ہوں۔ سیرپ کی بوتل کا ڈھکن کھولنے میں کیا راکٹ سائنس ہے بھلا۔ اس لیے میں یہ کام بھی خود کر لیتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میک اپ بھی خود کے لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھا دیکھنا چاہتا ہے۔ باقی رہی چھپکلی مارنے کی بات تو اگر کبھی چھپکلی نظر آ جائے تو مجھے نہیں یاد کہ اسے کسی نے مارا ہو۔ میں تو اسے وائپر سے دیوار پر ٹھک ٹھک کر کے بھگا دیتی ہوں۔
افسوسناک۔ شکل سے ویسا ہی ہے جیسے لڑکے ہم آس پاس دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ ذہنیت کیسے ہو جاتی ہے اللہ اللہ!اس قسم کے دردناک کیسز میں دیسی لبرلز کو چپ لگ جاتی ہے۔
لاہور میں اسکول سے نکالنے پرطالبعلم نے خاتون ٹیچر کو قتل کردیا
شکل میں کیا رکھاہے جناب۔ یہ تو بیمار ذہنیت کے نتائج ہیں۔ شکل سے ویسا ہی ہے جیسے لڑکے ہم آس پاس دیکھتے ہیں
وٹزایپ پہ یہ ویڈیو دیکھی تو بے حد حیرانی اور افسوس ہوا۔ان لله وان اليه راجعون
ہاہاہا۔۔۔ یہ چیز۔۔۔ویسے میرا اس عورت مارچ کے ساتھ کچھ لینا دینا تو نہیں لیکن ان بھائی صاحبان نے جو کہا ہے وہ مجھ سمیت بہت سے لوگ خود ہی کرتے ہیں۔ میں کیوں بھلا کسی سے کہوں گی کہ مجھے فریج سے برف نکال کر دو۔ شدید سست ہونے کے باوجود میں یہ کام خود کر سکتی ہوں۔ سیرپ کی بوتل کا ڈھکن کھولنے میں کیا راکٹ سائنس ہے بھلا۔ اس لیے میں یہ کام بھی خود کر لیتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میک اپ بھی خود کے لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھا دیکھنا چاہتا ہے۔ باقی رہی چھپکلی مارنے کی بات تو اگر کبھی چھپکلی نظر آ جائے تو مجھے نہیں یاد کہ اسے کسی نے مارا ہو۔ میں تو اسے وائپر سے دیوار پر ٹھک ٹھک کر کے بھگا دیتی ہوں۔
بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی۔عورت مارچ سے سب سے زیادہ سلگی بھی اس لیے کہ عورتوں نے کھل کر جگتیں لگائیں۔ ہمارے تھکے ہارے مردوں میں بھی بڑے انقلابی ہیں لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کے نعرے ان سے بھی زیادہ تھکے ہارے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کی معراج ’تیرے جانثار بے شمار بے شمار‘ ہے۔
بہت اعلیٰ.ایک اور "مارچ"
مارچ کو مارچز کا مہینہ قرار دے دینا چاہیےایک اور "مارچ"
تو اور کیا۔ یہ بھی کوئی طعنے ہوئے۔ ان سارے کاموں میں مرد اور عورت کی تو کوئی تخصیص ہے ہی نہیں۔ حتی کہ میک اپ میں بھی نہیں۔ ٹی وی پر دیکھیں ڈرامے میں اکثر ہیرو کا میک اپ ہیروئین سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور اب تو خواتین کے سیلون کے برابر ہی حضرات کے سیلون بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہاہاہا۔۔۔ یہ چیز۔۔۔
فرحت آپی چھپکلی سے بھلا کون ڈرتا۔۔۔ بقول میرے۔۔ جتنی دیر میں چھپکلی نے آپ کے پاس پہنچنا آپ نے محفوظ مقام تک پہنچ جانا۔۔
فرج سے برف نکالتے وقت کونسا نمک کی کان کھودنی پڑتی ۔۔۔
بس تھوڑا سا زور ہی لگتا ۔۔۔ اب مرد حضرات سمجھتے سارے بادام شادام صرف انہوں نے ہی کھائے ہوئے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہی ہے۔۔
میک اپ کی بات میں نے نہیں کرنی۔۔ پہلے ہی میک اپ کی وجہ سے میری جنگ ہوگئی تھی۔۔۔
یور آر گریٹ۔۔۔ سارے تھریڈ میں آپ کے تبصرے سب سے اچھے تھے۔
ہالی وڈ میں بھی یہی حال ہےٹی وی پر دیکھیں ڈرامے میں اکثر ہیرو کا میک اپ ہیروئین سے زیادہ ہوتا ہے۔
قطع نظر عورت مارچ کے متنازعہ اقدامات کے، محمد حنیف نے جو کہا، اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ وہی شدت پسندانہ سوچ۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے ہر دو طبقوں میں عورت کا ذکر انتہائی تحقیرانہ انداز میں کرنے کو بہت بہادری سمجھنے والے بہت ملیں گے۔ دور کیوں جائیں ابھی چند دن پہلے ہی ہمارے اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب وزیر خزانہ نے اسمبلی میں بلاول بھٹو کو اپنی ماں کے نام کو اپنانے پر طعنے دیتے ہوئے اپنے "مرد/نر کے بچے" ساتھی کی تعریفیں کرتے ہوئے کیا اعلی مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح ہمارے روشن خیال پاکستان کے بانی پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں کچھ ایسی ہی مثال دی تھی جس پر شاہ زیب خانزادہ نے ان کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی تھی۔مردانہ ہدایت نامہ برائے عورت مارچ
محمد حنیف صحافی و تجزیہ کار
عورتوں نے مارچ کیا اور مردوں کو بلایا تک نہیں۔ نہ کوئی دعوت نامہ نہ کوئی صاحب صدر۔ پورے ملک میں کوئی ایک مرد بھی ایسا نہ ملا جسے بلوا کر فیتہ کٹوا لیتیں۔ آغاز میں تلاوت کروا لی ہوتی۔ وہاں پر مردانگی کے جنازے بھی اٹھائے گئے۔ اب جنازے بھی خود اٹھانے اور پڑھانے لگیں تو مرد کا آخر کیا کام رہ گیا۔
چلیں مان لیا کہ عورتوں کے مارچ میں مردوں کا کیا کام لیکن ہمارا دل رکھنے کے لیے کسی جبران ناصر ٹائپ کو بلا لیا ہوتا۔ ہم بھی ٹی وی کے پروگراموں میں جب چھ لوگوں کا پینل ہوتا ہے تو ان میں ایک آدھ عورت ڈال ہی دیتے ہیں۔
اگر پروگراموں میں ایڈجسٹ نہ کر سکیں تو کم از کم وقفے میں جو اشتہار چلتے ہیں ان میں عورتیں ہوتی ہیں۔ کبھی برتن دھو کر خوشی سے بدحال، کبھی وسیم اکرم کی قیادت میں پرانے داغ نکال کر مست۔
آپ لوگوں کو اگر یہ توقع تھی کہ سال میں ایک ہی تو دن ہے۔۔ سارا سال ٹر ٹر کرنے والے مرد اگر ایک دن چُپ کر کے گزارنے کی کوشش کریں اور عورت کی بھی سُن لیں تو یہ ہم سے نہ ہوگا۔
اگر کوئی اس بات پر حیران ہے کہ اتنے سارے مرد موزے ڈھونڈنے والی بات پر کیوں برہم ہیں تو انھوں نے نہ صرف مرد کی شناخت، اُن کی مردانگی، بلکہ تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور ہمارے مکمل ضابطہ حیات پر حملہ کیا ہے۔
انھوں نے یقیناً کبھی وہ آسمانی صحیفہ نہیں پڑھا جس کا آغاز ہمیشہ اس طرح سے ہوتا ہے کہ ’جب تھکا ہارا مرد گھر واپس آتا ہے۔۔۔‘
اب ہو سکتا ہے کہ مرد گھر سے کہیں گیا ہی نہ ہو، مرد مرد ہے، ٹی وی روم سے باتھ روم تک جاتے ہوئے بھی تھک ہار سکتا ہے۔ جب تھکا ہارا مرد گھر واپس آئے اور موزے نظر نہ آنے کی صورت میں پوچھے کہ ’وہ میری جرابیں کدھر گئیں‘ اور آپ نے کہہ دیا مجھے نہیں پتہ!
اس صورت میں تھکے ہارے مرد کے دل سے یہ آواز نکلتی ہے: ’تجھے نہیں پتہ؟ کیا ماں باپ نے تجھے پڑھایا لکھایا اس لیے تھا۔ اس لیے تجھے اسلام نے اتنے حقوق دیے کہ تو مجھے یہ بتائے کہ مجھے نہیں پتہ کہ تمہارے موزے کہاں ہیں؟ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے آزاد کرایا تھا، کیا ہندوؤں اور انگریزوں سے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ اپنے موزے خود دھونڈنے پڑیں!‘
یہ کھانا گرم کرنے کا کیا مذاق ہے؟ جب مرد تھکا ہارا واپس آئے اور میرے جیسے کئی مرد ہیں جو آدھا کلو دہی اور ایک کلو ٹماٹر لینے جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ غزوہِ ہند پر جا رہے ہیں اور واپس آتے ہیں تو امید کرتے ہیں کہ پھولوں، مسکراہٹوں اور میڈلوں سے اُن کا استقبال کیا جائے۔
مرد سگریٹ کے لیے لائٹر ڈھونڈنے نکلے تو تھک ہار سکتا ہے، اور مرد سے میری مراد چھ سال سے لے کر ستر سال تک کا ہر مرد شامل ہے جس کے مردانہ مذہب کا پہلا اصول یہ ہے کہ کپڑے جہاں اتارو وہیں چھوڑ دو، اگر اٹھا کر الماری میں رکھو گے تو مردانہ مذہب کے دائرے سے اپنے آپ کو خارج تصور کرنا۔
یہی مرد جب ابا کے پیسوں سے خریدے ہوئے موبائل فون پر سارا دن انجان لڑکیوں کی تصویروں پر لائیک مار کر، سارے لفافہ صحافیوں کو ’شٹ اپ کال‘ دے کر، ملالہ یوسفزئی کے بارے میں ایک بار پھر ’وٹ شی ڈن فار کنٹری’ لکھ کر جب تھکا ہارا واپس آئے تو مائکروویو کا بٹن بھی خود دبائے؟! کیا یہ ملک ہم نے اس لیے لیا تھا؟ کیا اسلام نے عورتوں کو اتنے حقوق اس لیے دیے تھے؟
ہمارا تھکا ہارا ہیرو ہمیشہ سے یہ سمجھتا آیا ہے کہ تقریر کرنا، جُگت لگانا اُس کا اور صرف اُس کا حق ہے۔ یہ ہیرو نویں جماعت کا انگریزی میڈیم طالب علم بھی ہو سکتا ہے اور ایم اے پاس دفاعی تجزیہ کار بھی۔
عورت مارچ سے سب سے زیادہ سلگی بھی اس لیے کہ عورتوں نے کھل کر جگتیں لگائیں۔ ہمارے تھکے ہارے مردوں میں بھی بڑے انقلابی ہیں لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کے نعرے ان سے بھی زیادہ تھکے ہارے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کی معراج ’تیرے جانثار بے شمار بے شمار‘ ہے۔
عورت مارچ میں نعروں، مطالبوں اور پوسٹروں کی ایسی نئی بہار دیکھی گئی جو پہلے کسی سیاسی تحریک میں بھی نظر نہیں آئی۔ یہی جگتیں اگر افتخار ٹھاکر لگائے تو ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ پائے اور عورت لگائے تو ہماری تہذیب کی بنیادیں ہل جائیں۔
بیچارا تھکا ہارا مرد گھر واپس آئے اور عورت کو کھلکھلا کر کسی دوسری عورت کی بات پر ہنستا پائے تو یہی سوچے گا کہ یہ ملک ہم نے اس لیے لیا تھا؟ کیا اسلام نے عورتوں کو۔۔۔۔۔!
جی بالکل ۔ ہالی ووڈ، بالی ووڈ ہا لالی ووڈ ہر جگہ یہی حالات ہیں۔ہالی وڈ میں بھی یہی حال ہے