فرخ منظور
لائبریرین
غزل
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام اُلٹا
تو کِیا بہک کے میں نے اسے ایک سلام اُلٹا
سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے اُن نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظِ شام اُلٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا
بڑھوں اُس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دل کو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام اُلٹا
درِ میکدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا وہاں دلِ تشنہ کام اُلٹا
نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام اُلٹا
لگے کہنے، آبِ مایع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا
مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تُو نے اسے لفظِ رام الٹا
نرے سیدھے سادھے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود -------- * اُلٹا
تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام اُلٹا
فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشا یہ ترا ہی نام الٹا
* سنسر کر دیا گیا
(انشا اللہ خان انشا)
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام اُلٹا
تو کِیا بہک کے میں نے اسے ایک سلام اُلٹا
سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے اُن نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظِ شام اُلٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا
بڑھوں اُس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دل کو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام اُلٹا
درِ میکدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا وہاں دلِ تشنہ کام اُلٹا
نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام اُلٹا
لگے کہنے، آبِ مایع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا
مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تُو نے اسے لفظِ رام الٹا
نرے سیدھے سادھے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود -------- * اُلٹا
تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام اُلٹا
فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشا یہ ترا ہی نام الٹا
* سنسر کر دیا گیا
(انشا اللہ خان انشا)