ناعمہ عزیز
لائبریرین
ڈر اور خوف د و ایسے احساسات ہیں جو کسی بھی انسان کو کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں ، مگر میرا ڈر بڑا عام سا ہے مگر میرے لئے یہ ڈر کسی بھی عذاب سے کم نہیں۔ اور اس ڈر کا ذمہ لوگوں کے سر جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ! لوگوں کے کہنے کے ڈر سے ہم وہ نہیں کر سکتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں ، وہ کہہ نہیں سکتے جسے ہم ٹھیک سمجھتے ہیں ، تو پھر لوگوں کے ڈر سے محسوس کرنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے ؟
ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھ سکتے ؟ ہم کیوں معاشرے کے ننگے سچ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں ؟ ہمیں آزادی رائے کا اختیار نہیں ہوتا تو ہم ان سوچوں سے آزاد کیوں نہیں ہو سکتے ! اور پھر جو سب سے بڑی اور اہم بات وہ ایک عورت ہونا ہے ، مردوں کو سب کہنے کرنے کی آزادی حاصل ہو تی ہے مگر ایک عورت ہونے کے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ،
عورت کو اپنی حددود میں رہنا ہے ۔ مجھے یاد ہیں عنیقہ ناز! ایک بہادر خاتون بلاگر، بے دھڑک سچ کہہ دینے والی، کسی سے نا ڈرنے والی ، لوگ انکی تعریف کرتے تھے ، انہیں سراہتے تھے ، اور کچھ انہیں بے باک عورت کا خطاب دیتے تھے ، مجھے وہ بہت پسند تھیں، میں تو بلاگنگ کے نام پر شاید دھبہ ہوں ، میں نے شاید آج تک اپنی ذات سے باہر جا کر کچھ نہیں لکھا کہ کہیں لوگ کچھ کہہ نا دیں ، مگر مجھے لگتا تھا عنیقہ ناز اپنا نہیں میرا موقوف بھی بیان کر دیتی ہیں ، مجھے ان کے اندر ااپنی ذات دکھائی دیتی تھی ، میں ان کے بلاگ کی ایک خاموش قاری تھی ، ان کی کسی بھی تحریر پر میں نے کوئی کمنٹ نہیں کیا ، بس چپ چاپ انکی تحریریں اور تبصرے پڑھتی ، اور جوش و خروش سے خوش ہوتی ، صرف اس لیے کہ میں انکی طرح باہمت نہیں تھی مگر انکی ہمت کو اپنا سمجھتی ، جس دن میں نے انکی وفا ت کی خبر پڑھی ! مجھے لگا وہ نہیں میرے اندر کوئی مر گیا ہے ! کافی دیر تک میں سُن بیٹھی رہی کہ اب کیا ہو گا! وہ صرف ایک عورت نہیں تھی ، وہ ایک ہمت تھی جو میرے علاوہ بہت ساری بزدل خواتین بلاگزر انکی وجہ سے تھی ۔ مگر وہ اتنی جلدی چپ چاپ چلی گئیں کہ سوچنے سمجھنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔
عرصہ دراز تک مجھے سوشل میڈیا پر ان جیسی خاتون نظر نہیں آئیں اور پھر یہی کوئی دو سال پہلے میں نے عفاف اظہر کو ایڈ کیا، مجھے لگا ووہ عنیقہ ناز سے بھی زیادہ باہمت ہیں وہ ہر سچ کو باریکی سے دیکھتی ہی نہیں بلکل اسی طرح بیان کر دیتی ہیں ، پڑھنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے مگر لکھنے والی کو نہیں ، وہ اپنے قلم کے ساتھ اتنی مخلص ہیں جیسے ایک ماں اپنی اولاد کے ساتھ ، ان کے اندر کوئی کرپشن نہیں ۔ بارہا انہوں نے اپنے سٹیٹس پر لکھا کہ انکے ایسا لکھنے پر لوگ انہیں دھکمیاں دیتے ہیں ، ذاتی پیغامات گندی باتیں کرتے ہیں ، اور ننگی تصاویر بھیجتے اور گھٹیا فقرے کستے ہیں مگر انہیں ان باتوں کی کوئی پروا نہیں وہ جو دیکھتی ہیں وہ ہی لکھتی ہیں ، بہرحال وہ ناعمہ جسے لگتا تھا کہ صرف عنیقہ ناز نہیں گئیں بلکہ ناعمہ کے جذبات بھی ان کے ساتھ ہی مر گئے ہیں وہ عفاف اظہر کے لفظوں نے زندہ کر دئیے ، دو سال ان کو پڑھنے کے بعد میں پہلی بار تین دن پہلے ہمت کی انکے ایک سٹیٹس پر تبصرہ کرنے کے۔ اور پھر اسی تبصرے کو اپنے پروفائل پر پوسٹ کر دیا ،بہت سال لگے مجھے اپنے کو باہمت کرنے میں ، اس سوچ سے آزاد کروانے میں کہ نہیں میں جو دیکھتی ہوں لکھ سکتی ہوں مگر چند گھنٹوں بعد بھائی کا میسج آیا کہ یہ کس قسم کے سٹیٹس لگا رہی ہیں آپ اور اس پر لوگ تبصرے کر رہے ہیں ؟
بس پھر ساری ہمت ٹُھس ہو گئی ! میں نے وہ سٹیٹس ڈیلیٹ نہیں کیا مگر اس وقت میں جان گئی تھی کہ اب میں کبھی کچھ نہیں لکھ پاؤں گی ، جیسے میں لوگوں سے ڈرتی آ ئی ہوں وہ بھی میرے لیے لوگوں سے ڈرتے ہیں اور یہ کہ کوئی میرے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا اور نا یہ کہے کا کہ جو دل میں آئے کہہ دو ، پہلے ہی کرپشن بہت ہے اب تم لکھنے میں کرپشن نا کرنا۔
بس پھر کل میں نے اپنا بیس صفحات پر شروع کردہ ناول چپکے سے ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ میں ڈر گئی تھی کہ اگر یہ ٹھکرایا گیا تو مجھے اس سٹیٹس سے کہیں زیادہ تکلیف کا سامنا ہو گا۔
ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھ سکتے ؟ ہم کیوں معاشرے کے ننگے سچ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں ؟ ہمیں آزادی رائے کا اختیار نہیں ہوتا تو ہم ان سوچوں سے آزاد کیوں نہیں ہو سکتے ! اور پھر جو سب سے بڑی اور اہم بات وہ ایک عورت ہونا ہے ، مردوں کو سب کہنے کرنے کی آزادی حاصل ہو تی ہے مگر ایک عورت ہونے کے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ،
عورت کو اپنی حددود میں رہنا ہے ۔ مجھے یاد ہیں عنیقہ ناز! ایک بہادر خاتون بلاگر، بے دھڑک سچ کہہ دینے والی، کسی سے نا ڈرنے والی ، لوگ انکی تعریف کرتے تھے ، انہیں سراہتے تھے ، اور کچھ انہیں بے باک عورت کا خطاب دیتے تھے ، مجھے وہ بہت پسند تھیں، میں تو بلاگنگ کے نام پر شاید دھبہ ہوں ، میں نے شاید آج تک اپنی ذات سے باہر جا کر کچھ نہیں لکھا کہ کہیں لوگ کچھ کہہ نا دیں ، مگر مجھے لگتا تھا عنیقہ ناز اپنا نہیں میرا موقوف بھی بیان کر دیتی ہیں ، مجھے ان کے اندر ااپنی ذات دکھائی دیتی تھی ، میں ان کے بلاگ کی ایک خاموش قاری تھی ، ان کی کسی بھی تحریر پر میں نے کوئی کمنٹ نہیں کیا ، بس چپ چاپ انکی تحریریں اور تبصرے پڑھتی ، اور جوش و خروش سے خوش ہوتی ، صرف اس لیے کہ میں انکی طرح باہمت نہیں تھی مگر انکی ہمت کو اپنا سمجھتی ، جس دن میں نے انکی وفا ت کی خبر پڑھی ! مجھے لگا وہ نہیں میرے اندر کوئی مر گیا ہے ! کافی دیر تک میں سُن بیٹھی رہی کہ اب کیا ہو گا! وہ صرف ایک عورت نہیں تھی ، وہ ایک ہمت تھی جو میرے علاوہ بہت ساری بزدل خواتین بلاگزر انکی وجہ سے تھی ۔ مگر وہ اتنی جلدی چپ چاپ چلی گئیں کہ سوچنے سمجھنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔
عرصہ دراز تک مجھے سوشل میڈیا پر ان جیسی خاتون نظر نہیں آئیں اور پھر یہی کوئی دو سال پہلے میں نے عفاف اظہر کو ایڈ کیا، مجھے لگا ووہ عنیقہ ناز سے بھی زیادہ باہمت ہیں وہ ہر سچ کو باریکی سے دیکھتی ہی نہیں بلکل اسی طرح بیان کر دیتی ہیں ، پڑھنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے مگر لکھنے والی کو نہیں ، وہ اپنے قلم کے ساتھ اتنی مخلص ہیں جیسے ایک ماں اپنی اولاد کے ساتھ ، ان کے اندر کوئی کرپشن نہیں ۔ بارہا انہوں نے اپنے سٹیٹس پر لکھا کہ انکے ایسا لکھنے پر لوگ انہیں دھکمیاں دیتے ہیں ، ذاتی پیغامات گندی باتیں کرتے ہیں ، اور ننگی تصاویر بھیجتے اور گھٹیا فقرے کستے ہیں مگر انہیں ان باتوں کی کوئی پروا نہیں وہ جو دیکھتی ہیں وہ ہی لکھتی ہیں ، بہرحال وہ ناعمہ جسے لگتا تھا کہ صرف عنیقہ ناز نہیں گئیں بلکہ ناعمہ کے جذبات بھی ان کے ساتھ ہی مر گئے ہیں وہ عفاف اظہر کے لفظوں نے زندہ کر دئیے ، دو سال ان کو پڑھنے کے بعد میں پہلی بار تین دن پہلے ہمت کی انکے ایک سٹیٹس پر تبصرہ کرنے کے۔ اور پھر اسی تبصرے کو اپنے پروفائل پر پوسٹ کر دیا ،بہت سال لگے مجھے اپنے کو باہمت کرنے میں ، اس سوچ سے آزاد کروانے میں کہ نہیں میں جو دیکھتی ہوں لکھ سکتی ہوں مگر چند گھنٹوں بعد بھائی کا میسج آیا کہ یہ کس قسم کے سٹیٹس لگا رہی ہیں آپ اور اس پر لوگ تبصرے کر رہے ہیں ؟
بس پھر ساری ہمت ٹُھس ہو گئی ! میں نے وہ سٹیٹس ڈیلیٹ نہیں کیا مگر اس وقت میں جان گئی تھی کہ اب میں کبھی کچھ نہیں لکھ پاؤں گی ، جیسے میں لوگوں سے ڈرتی آ ئی ہوں وہ بھی میرے لیے لوگوں سے ڈرتے ہیں اور یہ کہ کوئی میرے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا اور نا یہ کہے کا کہ جو دل میں آئے کہہ دو ، پہلے ہی کرپشن بہت ہے اب تم لکھنے میں کرپشن نا کرنا۔
بس پھر کل میں نے اپنا بیس صفحات پر شروع کردہ ناول چپکے سے ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ میں ڈر گئی تھی کہ اگر یہ ٹھکرایا گیا تو مجھے اس سٹیٹس سے کہیں زیادہ تکلیف کا سامنا ہو گا۔
آخری تدوین: