حسیب نذیر گِل
محفلین
مجھے کون روک رہا ہے؟...چوراہا …حسن نثار
پچھلے دنوں دورہ برطانیہ کے دوران کسی صحافی نے ہمارے وزیر اعظم سے پوچھا کہ… ”پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک سے ہجرت کرنا چاہتی ہے تو80لاکھ روپے میں تین کوٹ خریدنے والے مفلوک الحال اور مقروض ترین ملک کے وزیر اعظم” مغل“ یوسف رضا گیلانی نے کمال بے نیازی سے جواب دیتے ہوئے کہا…… "Who is stopping them? " یعنی”انہیں کون روک رہا ہے؟“ یہ جواب کسی زناٹے دار تھپڑ کی طرح میرے منہ پر لگا تھا، میں مسلسل اس کے بارے میں سوچتا رہا کہ مجھے یہ ملک چھوڑنے سے کون روک رہا ہے؟ اب جواب مل گیا ہے اس لئے میں وزیر اعظم کا یہ”قرض“ مع سود واپس کررہا ہوں اور وہ بھی بذریعہ کالم تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ہاں تو پیارے یوسف رضا گیلانی! آپ یوسف بھی ہوں گے، اپنے بڑوں کی رضا بھی ہوں گے اور گیلانی بھی ضرور ہوں گے لیکن آپ پاکستانی وزیر اعظم کسی طرف سے بھی نہیں ہیں ورنہ پاکستانیوں کے بارے اتنی حقارت سے ذکر نہ کرتے۔ آپ کے اندر پاکستان تو کیا تھوڑا سا مقامی انسان بھی ہوتا تو اس سوال کے جواب میں آپ کا سر مع ہیئر سٹائل شرم سے جھک جاتا، زبان گنگ ہوجاتی، آنکھوں میں ندامت اور خجالت سے آنسو بھرآتے، پیشانی عرق آلود ہوجاتی، ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ جاتی، ٹانگیں بیجان سی محسوس ہونے لگتیں، دماغ پھٹنے لگتا، کنپٹیاں چٹخنے لگتیں، دل ڈوبنے لگتا لیکن آپ پاکستانی نہیں گیلانی ہیں، وطین نہیں گدی نشین ہیں اور پیرا سائیٹس کے بارے میرا علم بہت ہی محدود ہے۔ کاش کسی گدی نشین کی جگہ کوئی بوریا نشین وزیر اعظم ہوتا تو اپنے اور سابقہ حکمرانوں کے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا…… ”ہاں یہ سچ ہے اور اس سچ پر میں شرمندہ ہوں، پاکستان کے حکمران طبقات کی بے غیرتی، بے ایمانی، بے حسی اور بے عقلی نے میر ے ہم وطنوں کو اس حال تک پہنچایا ہے لیکن میرے ہم وطنوں سمیت ساری دنیا سن لے کہ ہم بہت جلد سارا منظر مکمل طور پر تبدیل کردینگے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جائیں گے، اک دنیا اپنے اوطان چھوڑ کر رزق کی تلاش میں پاکستان آئے گی“ ہاں تو مسٹر یوسف رضا گیلانی المعروف منتخب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان! تمہیں بتاؤں کہ مجھے ملک چھوڑنے سے کون روک رہا ہے؟ بتاؤں تمہیں کہ میرے جیسوں کے بزرگوں کے بنائے ہوئے ملک کو چھوڑنے سے تمہیں کون روک رہا ہے؟ Who is stopping me? Who is stoopping us ? غور سے سن مجھے کون روک رہا ہے؟ مجھے میرے باپ اور دادا کی قبریں روک رہی ہیں کہ ان کے پرکھوں کی قبریں پاکستان کے شوق میں جالندھر میں ویران ہوچکیں اور کیا اس لئے کہ یہاں گدیاں قائم رہیں؟ مجھے جی بلاک ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں میرے بیٹے کی قبر روک رہی ہے؟ مجھے میاں چنوں میں مالٹوں کا وہ باغ روک رہا ہے جس کے کچے ہر ے کھٹے مالٹے کبھی میرا جنون تھے۔ لائلپور کا گھنٹہ گھر اور آٹھ بازار میرے گلے کا ہار نہیں طوق بن چکے ،اس کا پاکستان ماڈل ہائی سکول میرے ہاتھ کی ہتھکڑی اور گورنمنٹ کالج لائلپور میرے پاؤں کی بیڑی ہے۔ یوسف رضا! مجھے بچپن کے ساتھی نصرت فتح علیخان کے گیت، صفدر سعید مرحوم کی محبت، ڈاکٹر ریاض مجید کی شفقت، خلیل مرحوم کا خلوص، بابالسوڑھی شاہ کے مزار کی لسوڑھیاں ،ریگل سینما میں دیکھی گئی فلمیں، بچپن کی دوست خالدی جسے دیکھے پچاس برس بیت گئے، بوٹا کباب فروش،جہانگیر کا مرغ پلاؤ، دھوبی گھاٹ میں آپس کی لڑائیاں، دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ابا کی گاڑی چرانا، صوفی عبدالرحمن صاحب سے مار کھانا مجھے روک رہا ہے…… یوسف رضا گیلانی! مجھے وہ شام روک رہی ہے جب میرے والد مرحوم حفیظ خان اور مجھے نیو کیمپس کے ہاسٹل نمبر1میں چھوڑنے آئے، میرا اور حفیظ خان کا سامان گاڑی کی ڈگی میں ٹھنسا تھا پھر حفیظ خان یونیورسٹی کا لیجنڈ صدر منتخب ہوا اور جاوید ہاشمی اس کا سیکرٹری لیکن اس شام میں اور حفیظ خان اجنبی جگہ پر حیران پریشان تھے لیکن پھر اسی ہاسٹل اور نیو کیمپس نے مجھے رجب علی تپافی، سہیل ضیاء، جاوید اقبال قریشی، مسعود داڑھو ،راجہ انور، طارق چڑی، مقبول ملک مرحوم، جاوید بائی گاڈ مرحوم، انور چودھری، عنایت اور افضل قصوریا، اصغر رضا گردیزی، راشد بٹ مرحوم، شیر قادر، میاں اشرف(مرحوم) امتیاز تاجی(مرحوم) یوسف زمان شنواری(مرحوم) اوسط رضا زیدی، ڈاکٹر مجاہد کامران جیسے بہترین دوست دئیے……جو زندہ ہیں ان کی محبتیں اور جو اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی قبریں ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح میرے سامنے کھڑی ہیں اور مجھے روک رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی! مجھے وہ ریڑھی روک رہی ہے جو گھر سے ناراض ہو کر گھر چھوڑنے کے بعد میں نے ماڈل ٹاؤن میں لگائی تھی، مجھے ماہنامہ”دھنک“ کے دفتر کی چھت والا وہ کمرہ روک رہا ہے جسے میں آج بھی سلام کرنے جاتا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر عزیز الحق کے جسم میں پیوست گولیاں اور وہ گلیاں روک رہی ہیں جہاں میں اور عدیم ہاشمی گھوما کرتے تھے، مجھے ریڈیو پاکستان لاہور کی وہ سیڑھیاں روک رہی ہیں جہاں مجھے اخلاق دہلوی ،اے حمید، استاد امانت علی خان، سلیم ناصر، حسن رضوی، امجد اسلام امجد، نگار زریں اور جانے کون کون ملا کرتا تھا۔ مجھے منیر نیازی کی کھوئی کھوئی آنکھیں اور پراسرار لہجہ روک رہا ہے، مجھے بابا ظہیر کاشمیری کے انقلابی لیکچر روک رہے ہیں، مجھے احمد ندیم قاسمی کا تبسم، کشور ناہید اور یوسف کامران کی حوصلہ افزائی روک رہی ہے، مجھے کیمپس کی نہر روکتی ہے، لبرٹی کا راؤنڈ اباؤٹ، اندرون شہر کی تاریخ ،پاک ٹی ہاؤس کا ماحول روک رہا ہے، مجھے مہاراج کتھک کے رقص اور صادقین کی مصوری نے روک رکھا ہے۔ ”تجھے اپنا کہنے کی چاہ میں کبھی ہوسکے نہ کسی کے ہم“……ورنہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، مواقع بھی بہت ملے، دوستوں نے ضد بھی بہت کی، خاندان کا بیشتر حصہ یورپ اور امریکہ میں آسودہ ہی نہیں ماشاء اللہ بہت آسودہ کہ نہ وہاں یہ لوڈ شیڈنگ، نہ بدامنی نہ گندگی نہ ملاوٹ نہ بے ترتیبی نہ آئین و قانون کی بے حرمتی نہ جعلی دوائیں نہ کوئی یوسف رضا گیلانی، نہ کوئی زرداری نہ کوئی نواز نہ شہباز لیکن پھر وہی بات ظالما!”اسے اپنا کہنے کی چاہ میں کبھی ہوسکے نہ کسی کے ہم“ اک اور حقیقت بھی مجھے روک رہی ہے کہ ملک ہمارا ہے اور قبضہ تم جیسوں کا اور تمہارا ہے… یہ قبضہ چھڑانا ہے اور ان لوگوں کے لئے رستہ ہموار کرنا ہے جو سچے سوال کے جواب میں یہ نہ کہیں کہ "Who is stopping them?" سمجھ آئی مجھے کون روک رہا ہے یا اگلی ڈوز تیار کروں؟
بشکریہ:جنگ
پچھلے دنوں دورہ برطانیہ کے دوران کسی صحافی نے ہمارے وزیر اعظم سے پوچھا کہ… ”پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک سے ہجرت کرنا چاہتی ہے تو80لاکھ روپے میں تین کوٹ خریدنے والے مفلوک الحال اور مقروض ترین ملک کے وزیر اعظم” مغل“ یوسف رضا گیلانی نے کمال بے نیازی سے جواب دیتے ہوئے کہا…… "Who is stopping them? " یعنی”انہیں کون روک رہا ہے؟“ یہ جواب کسی زناٹے دار تھپڑ کی طرح میرے منہ پر لگا تھا، میں مسلسل اس کے بارے میں سوچتا رہا کہ مجھے یہ ملک چھوڑنے سے کون روک رہا ہے؟ اب جواب مل گیا ہے اس لئے میں وزیر اعظم کا یہ”قرض“ مع سود واپس کررہا ہوں اور وہ بھی بذریعہ کالم تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ہاں تو پیارے یوسف رضا گیلانی! آپ یوسف بھی ہوں گے، اپنے بڑوں کی رضا بھی ہوں گے اور گیلانی بھی ضرور ہوں گے لیکن آپ پاکستانی وزیر اعظم کسی طرف سے بھی نہیں ہیں ورنہ پاکستانیوں کے بارے اتنی حقارت سے ذکر نہ کرتے۔ آپ کے اندر پاکستان تو کیا تھوڑا سا مقامی انسان بھی ہوتا تو اس سوال کے جواب میں آپ کا سر مع ہیئر سٹائل شرم سے جھک جاتا، زبان گنگ ہوجاتی، آنکھوں میں ندامت اور خجالت سے آنسو بھرآتے، پیشانی عرق آلود ہوجاتی، ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ جاتی، ٹانگیں بیجان سی محسوس ہونے لگتیں، دماغ پھٹنے لگتا، کنپٹیاں چٹخنے لگتیں، دل ڈوبنے لگتا لیکن آپ پاکستانی نہیں گیلانی ہیں، وطین نہیں گدی نشین ہیں اور پیرا سائیٹس کے بارے میرا علم بہت ہی محدود ہے۔ کاش کسی گدی نشین کی جگہ کوئی بوریا نشین وزیر اعظم ہوتا تو اپنے اور سابقہ حکمرانوں کے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا…… ”ہاں یہ سچ ہے اور اس سچ پر میں شرمندہ ہوں، پاکستان کے حکمران طبقات کی بے غیرتی، بے ایمانی، بے حسی اور بے عقلی نے میر ے ہم وطنوں کو اس حال تک پہنچایا ہے لیکن میرے ہم وطنوں سمیت ساری دنیا سن لے کہ ہم بہت جلد سارا منظر مکمل طور پر تبدیل کردینگے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جائیں گے، اک دنیا اپنے اوطان چھوڑ کر رزق کی تلاش میں پاکستان آئے گی“ ہاں تو مسٹر یوسف رضا گیلانی المعروف منتخب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان! تمہیں بتاؤں کہ مجھے ملک چھوڑنے سے کون روک رہا ہے؟ بتاؤں تمہیں کہ میرے جیسوں کے بزرگوں کے بنائے ہوئے ملک کو چھوڑنے سے تمہیں کون روک رہا ہے؟ Who is stopping me? Who is stoopping us ? غور سے سن مجھے کون روک رہا ہے؟ مجھے میرے باپ اور دادا کی قبریں روک رہی ہیں کہ ان کے پرکھوں کی قبریں پاکستان کے شوق میں جالندھر میں ویران ہوچکیں اور کیا اس لئے کہ یہاں گدیاں قائم رہیں؟ مجھے جی بلاک ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں میرے بیٹے کی قبر روک رہی ہے؟ مجھے میاں چنوں میں مالٹوں کا وہ باغ روک رہا ہے جس کے کچے ہر ے کھٹے مالٹے کبھی میرا جنون تھے۔ لائلپور کا گھنٹہ گھر اور آٹھ بازار میرے گلے کا ہار نہیں طوق بن چکے ،اس کا پاکستان ماڈل ہائی سکول میرے ہاتھ کی ہتھکڑی اور گورنمنٹ کالج لائلپور میرے پاؤں کی بیڑی ہے۔ یوسف رضا! مجھے بچپن کے ساتھی نصرت فتح علیخان کے گیت، صفدر سعید مرحوم کی محبت، ڈاکٹر ریاض مجید کی شفقت، خلیل مرحوم کا خلوص، بابالسوڑھی شاہ کے مزار کی لسوڑھیاں ،ریگل سینما میں دیکھی گئی فلمیں، بچپن کی دوست خالدی جسے دیکھے پچاس برس بیت گئے، بوٹا کباب فروش،جہانگیر کا مرغ پلاؤ، دھوبی گھاٹ میں آپس کی لڑائیاں، دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ابا کی گاڑی چرانا، صوفی عبدالرحمن صاحب سے مار کھانا مجھے روک رہا ہے…… یوسف رضا گیلانی! مجھے وہ شام روک رہی ہے جب میرے والد مرحوم حفیظ خان اور مجھے نیو کیمپس کے ہاسٹل نمبر1میں چھوڑنے آئے، میرا اور حفیظ خان کا سامان گاڑی کی ڈگی میں ٹھنسا تھا پھر حفیظ خان یونیورسٹی کا لیجنڈ صدر منتخب ہوا اور جاوید ہاشمی اس کا سیکرٹری لیکن اس شام میں اور حفیظ خان اجنبی جگہ پر حیران پریشان تھے لیکن پھر اسی ہاسٹل اور نیو کیمپس نے مجھے رجب علی تپافی، سہیل ضیاء، جاوید اقبال قریشی، مسعود داڑھو ،راجہ انور، طارق چڑی، مقبول ملک مرحوم، جاوید بائی گاڈ مرحوم، انور چودھری، عنایت اور افضل قصوریا، اصغر رضا گردیزی، راشد بٹ مرحوم، شیر قادر، میاں اشرف(مرحوم) امتیاز تاجی(مرحوم) یوسف زمان شنواری(مرحوم) اوسط رضا زیدی، ڈاکٹر مجاہد کامران جیسے بہترین دوست دئیے……جو زندہ ہیں ان کی محبتیں اور جو اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی قبریں ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح میرے سامنے کھڑی ہیں اور مجھے روک رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی! مجھے وہ ریڑھی روک رہی ہے جو گھر سے ناراض ہو کر گھر چھوڑنے کے بعد میں نے ماڈل ٹاؤن میں لگائی تھی، مجھے ماہنامہ”دھنک“ کے دفتر کی چھت والا وہ کمرہ روک رہا ہے جسے میں آج بھی سلام کرنے جاتا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر عزیز الحق کے جسم میں پیوست گولیاں اور وہ گلیاں روک رہی ہیں جہاں میں اور عدیم ہاشمی گھوما کرتے تھے، مجھے ریڈیو پاکستان لاہور کی وہ سیڑھیاں روک رہی ہیں جہاں مجھے اخلاق دہلوی ،اے حمید، استاد امانت علی خان، سلیم ناصر، حسن رضوی، امجد اسلام امجد، نگار زریں اور جانے کون کون ملا کرتا تھا۔ مجھے منیر نیازی کی کھوئی کھوئی آنکھیں اور پراسرار لہجہ روک رہا ہے، مجھے بابا ظہیر کاشمیری کے انقلابی لیکچر روک رہے ہیں، مجھے احمد ندیم قاسمی کا تبسم، کشور ناہید اور یوسف کامران کی حوصلہ افزائی روک رہی ہے، مجھے کیمپس کی نہر روکتی ہے، لبرٹی کا راؤنڈ اباؤٹ، اندرون شہر کی تاریخ ،پاک ٹی ہاؤس کا ماحول روک رہا ہے، مجھے مہاراج کتھک کے رقص اور صادقین کی مصوری نے روک رکھا ہے۔ ”تجھے اپنا کہنے کی چاہ میں کبھی ہوسکے نہ کسی کے ہم“……ورنہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، مواقع بھی بہت ملے، دوستوں نے ضد بھی بہت کی، خاندان کا بیشتر حصہ یورپ اور امریکہ میں آسودہ ہی نہیں ماشاء اللہ بہت آسودہ کہ نہ وہاں یہ لوڈ شیڈنگ، نہ بدامنی نہ گندگی نہ ملاوٹ نہ بے ترتیبی نہ آئین و قانون کی بے حرمتی نہ جعلی دوائیں نہ کوئی یوسف رضا گیلانی، نہ کوئی زرداری نہ کوئی نواز نہ شہباز لیکن پھر وہی بات ظالما!”اسے اپنا کہنے کی چاہ میں کبھی ہوسکے نہ کسی کے ہم“ اک اور حقیقت بھی مجھے روک رہی ہے کہ ملک ہمارا ہے اور قبضہ تم جیسوں کا اور تمہارا ہے… یہ قبضہ چھڑانا ہے اور ان لوگوں کے لئے رستہ ہموار کرنا ہے جو سچے سوال کے جواب میں یہ نہ کہیں کہ "Who is stopping them?" سمجھ آئی مجھے کون روک رہا ہے یا اگلی ڈوز تیار کروں؟
بشکریہ:جنگ