ہم ساری زندگی اپنے خول سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید زندگی کا مقصد یہ ہی ہے ۔ شاید اس ہی کا نام جدوجہد ہے۔ ہم میں سے کچھ اس میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو اس میں کامیاب ہوتے ہیں وہ اپنے خول سے نکل کر دوسروں کی پرواہ کرتے ہیں۔ ایسا کرنا ایک ہمت کی بات ہے ۔ دوسروں کی پرواہ کرو۔
جو دوسروں کی پرواہ کرتے ہیں ان کو اس بات کا پتہ ہوتا ہے کے ایسا کرنے سے ان کو تکلیف بھی پہنچ سکتی ہے دُکھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہے کے آپ اپنے کو کھول کر رکھ دو ، یا کسی ہاتھ میں اپنا دل رکھ دو اور یہ پتہ نہ ہو کے وہ اس دل سےمحبت سے پیش آئیں گے یا اس کو کچل دیں گے۔ اسلئے شاید یہ آسان ہے کہ دوسروں سے دور رہو۔
لیکن جو لوگ ایسا خطرہ مول لیتے ہیں۔ ان پراس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ جتنی تم کسی کی پرواہ کرو ، جتنی شدت سے کرو، اتنے ہی زندہ تم ہو۔
یہ پرواہ کرنے کی مقدار کسی بھی رشتہ میں چمک سکتی ہے۔ شادی، خاندان، دوستی۔ یہاں تک کے یہی بنیادی پرواہ انسان اور حیوان میں بھی پیار کا باعث ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اس کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ لیکن کیا ہم اس کو ایک پھول کی طرح کھول دیں یا ایک کلی کی طرح ہمیشہ بند رکھیں!۔ یہ ہم پر ہے۔
پراوہ کرنے میں تم اپنی بےتوجھی کے غلاف کو اتار دیتے ہو۔ تم عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہو۔ تم پہلا قدم اٹھاتے ہو۔
ایک شام میں اور میرا ننھا بیٹا سمندر کے کنارے ایک چھوٹےسے ریت کے ٹیلے پر بیٹھے ہوئےسورج غروب ہونے کانظارہ کررہے تھے۔ مدو جزر آرہی تھی۔ یہ ایک بہت پیاری شام تھی۔ سورج کا رنگ نارنگی ہوچکا تھا۔ سمندر ایک پتلی سنہری طےسوکھی ریت پر لا رہا تھا۔
قریب اور قریب ۔۔۔ اب وہ ہمارے ننھے ٹیلے کے چاروں طرف تھا۔
ننھےمنے نے کہا۔ “ یہ کتنا پیارا ہے نا ڈیڈی ۔ سمندر زمین کی اتنی پرواہ کرتا ہے“۔
وہ صحیح تھا۔ ایک بچے کے اتنی بڑی سوچ۔
یہ محبت اور پرواہ کا سبق تھا۔ زمین سست تھی وہ انتظار کرتی رہی۔ مگرسمندر کو پراوہ تھی۔ اسلئے وہ آیا۔ اس میں محبت کی تمام خصوصیات ہیں۔ سامنا کرنے کی ہمت، نزدیک آنا، جذب ہونا اور اور جاذب ہونے میں حصول کا پانا۔
مجھے کو ایسا کیوں لگتا ہے ۔۔۔