مجھے کچھ درد دے دو (برائے اصلاح)

السلام علیکم،

میں اپنے خیالات اور جذبات کواک مدت سے الفاظ میں ڈھالتا رہا، احباب نے پسند تو بہت کیا پر کبھی اصلاح نہ ہو سکی۔ یہاں اساتذہ دیکھے تو سوچا اپنے جذبات اور خیالات شئیر کرتا ہوں، پتہ چل جائے گا کتنے پانی میں ہوں۔ اور اصلاح بھی ہو جائے گی۔

مجھے کچھ درد دے دو
خوشیاں بھی غموں سی لگتی ہیں
اب سانسیں میری جلتی ہیں
شاید یوں دل کو قرار دے
تڑپا کر مجھے جو مار دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
یوں ہو کہ جیسے غم تیرا ہے
حیات جیسے جاں لیوا ہے
نَس نَس میں ایسا زہر بھر دے
مجھے ہوش سے بیگانہ کردے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
باتیں ساری گُھل جائیں بس
یادیں ساری دُھل جائیں بس
مٹا دے مجھے، بے نشاں کر دے
بہار کو جو خزاں کر دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
امجد میانداد 31، اکتوبر 2003
 

الف عین

لائبریرین
خیالات تو اچھے ہیں، لیکن موزونیت کی کمی ہے۔ ذرا بحر و عروض سے شد بد حاصل کریں، اور خوب اساتذہ کا کلام پڑھیں۔
اس نظم کو فعلن فعلن فعلن فعلن کی بحر میں ڈھالا جا سکتا ہے، جس میں فعل فعولن کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ذرا اوزان کی کوشش کر لیں تو بعد میں اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ خود ہی کوشش کریں۔
 
خیالات تو اچھے ہیں، لیکن موزونیت کی کمی ہے۔ ذرا بحر و عروض سے شد بد حاصل کریں، اور خوب اساتذہ کا کلام پڑھیں۔
اس نظم کو فعلن فعلن فعلن فعلن کی بحر میں ڈھالا جا سکتا ہے، جس میں فعل فعولن کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ذرا اوزان کی کوشش کر لیں تو بعد میں اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ خود ہی کوشش کریں۔
بہت شکریہ جناب، لیکن فعلن فعلن فعلن فعلن کی بحر کو تھوڑا سا سمجھا دیں اگر مجھ ایسے ناسمجھ کو تو، میں بہت مشکور ہوں گا۔
 
امجد میانداد بھائی فعلن فعلن فعلن فعلن کی بحر سیکھنے کے سلسلے میں یوں تو محمد یعقوب آسی بھائی کی کتاب کا لنک محفل پر ہی دستیاب ہے، پھر بھی ہم اپنے مضمون کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قابل ذکر نہ سہی ، قابل توجہ شاید ہے۔ملا حظہ کیجیے ’’ شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ‘‘
بہت شکریہ جناب۔ میں پڑھتا ہوں دونوں لنکس۔
 

عزیز آبادی

محفلین
السلام علیکم،
بہت شکریہ جناب۔ میں پڑھتا ہوں دونوں لنکس۔

میں اپنے خیالات اور جذبات کواک مدت سے الفاظ میں ڈھالتا رہا، احباب نے پسند تو بہت کیا پر کبھی اصلاح نہ ہو سکی۔ یہاں اساتذہ دیکھے تو سوچا اپنے جذبات اور خیالات شئیر کرتا ہوں، پتہ چل جائے گا کتنے پانی میں ہوں۔ اور اصلاح بھی ہو جائے گی۔

مجھے کچھ درد دے دو
خوشیاں بھی غموں سی لگتی ہیں
اب سانسیں میری جلتی ہیں
شاید یوں دل کو قرار دے
تڑپا کر مجھے جو مار دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
یوں ہو کہ جیسے غم تیرا ہے
حیات جیسے جاں لیوا ہے
نَس نَس میں ایسا زہر بھر دے
مجھے ہوش سے بیگانہ کردے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
باتیں ساری گُھل جائیں بس
یادیں ساری دُھل جائیں بس
مٹا دے مجھے، بے نشاں کر دے
بہار کو جو خزاں کر دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
امجد میانداد 31، اکتوبر 2003
جزبہ ِ بسیار
 
Top