فرخ منظور
لائبریرین
مجھ سے منہہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو
اُس نے یہ چھیڑ نکالی مجھے ترسانے کو
کیا جلے خاک کہ آنے نہیں دیتا کوئی
شعلہ شمع کے نزدیک بھی پروانے کو
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو
عشقِ مجنوں سے یہ افسانہ نہیں کم لیکن
کون سنتا ہے مرے درد کے افسانے کو
جو گزرتا ہے مرے جی پہ جدائی میں تری
آگہی اس سے نہ اپنے کو، نہ بیگانے کو
واں ہی اٹھ چلتے ہو اِک بات کے کہتے صاحب
کتنے چالاک ہو تم غیر کے گھر جانے کو
مصحفی کعبے میں اب دل نہیں لگتا اپنا
ہم بھی اُٹھ جاویں گے یاں سے کسی بت خانے کو
***** غلام ہمدانی مصحفی
اُس نے یہ چھیڑ نکالی مجھے ترسانے کو
کیا جلے خاک کہ آنے نہیں دیتا کوئی
شعلہ شمع کے نزدیک بھی پروانے کو
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو
عشقِ مجنوں سے یہ افسانہ نہیں کم لیکن
کون سنتا ہے مرے درد کے افسانے کو
جو گزرتا ہے مرے جی پہ جدائی میں تری
آگہی اس سے نہ اپنے کو، نہ بیگانے کو
واں ہی اٹھ چلتے ہو اِک بات کے کہتے صاحب
کتنے چالاک ہو تم غیر کے گھر جانے کو
مصحفی کعبے میں اب دل نہیں لگتا اپنا
ہم بھی اُٹھ جاویں گے یاں سے کسی بت خانے کو
***** غلام ہمدانی مصحفی