ماہی احمد بہنا۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے اتنا اچھا موضوع چُن کر ہمیں اِس پر سوچنے کا اور بات کرنے کا موقع دیا اور
شمشاد بھائی کا بھی شکریہ کہ انہوں نے ہمیں اپنی رائے کے اظہار کی دعوت دی۔
میں یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے نزدیک تو رشتوں اور تعلقات کی دنیا میں کوئی بھی رشتہ یا تعلق الگ سے اپنا وجود اور معنی نہیں رکھتا۔ اس کی پہچان ہمیشہ دوسرے رشتوں سے ہوتی ہے۔ اس بنا پر میرے لیے فقط اپنی ذات کی بات کرنا شایدممکن نہ ہو۔
خود کا خیال رکھنا۔ اپنے تعلق کومضبوط بنانا۔اور اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا۔ اس سےاچھی بات بھلا کیا ہوگی۔ کیونکہ ہمارے وجود کے یقیناً ہم پر کچھ حقوق ہیں جو ہمیں لازماً پورے کرنے چاہییں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ میں ذاتی طور پراس بات کا بھی قائل ہوں کہ جب ہم اپنا وقت دوسروں کے لیےوقف کرتے ہیں تو درحقیقت اس میں بھی ہماری اپنی ہی ذات کا بھلا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں یا دوسروں میں خوشی بانٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں تو اس کے بدلے میں ہماری ذات کو بھی سکون اور راحت ملتی ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ مثبت عمل ہمیشہ مثبت ردعمل پیدا کرتا ہے اور منفی رویے یا منفی سوچیں انسان کے لیے تکلیف اور بے سکونی کا پیغام لاتی ہیں۔ جب کبھی ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کرپورے خلوص کیساتھ کسی دوسرے کو اہمیت دیتے ہیں تو جواب میں وہ بھی اس قرض کو چکانے میں دیر نہیں کرتا بشرطیکہ آپ کا ہر عمل اپنے رب کی خوشنودی پانے کے لیے ہو۔(بے شک ہمارا رب کسی کا قرض نہیں رکھتا۔ )پھر دوسرے بھی پہلے سے زیادہ ہماراخیال رکھنے لگتے ہیں اور اصل خیال تو وہی ہے جو دوسرےآپکی محبت میں آپکا رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چاہنے سے چاہے جانے کا احساس زیادہ دلکش ہوتا ہے۔
مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا دین ہر معاملے میں ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے۔ اسی طرح ہمیں تعلقات اور معاملات میں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہم جس راستے پر چلتے ہیں اس کی ایک طرف شیطانوں کی بستی ہے تو دوسری طرف فرشتوں کی۔ جو لوگ فقط اپنی ذات کو ہی اپنامحور بنا لیتے ہیں۔ وہ فرعون کی مانند خودپسندی، تکبر اور انا کے اسیر بن کر ہمیشہ اپنی ذات کے زنداں میں قید رہتے ہیں۔ دوسری طرف حد درجہ بڑھا ہوا ایثار اور قربانی کا جذبہ اگرچہ بڑی اعلیٰ اور معتبرچیز ہے مگرانسانی فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ بعض اوقات اپنی ذات کو یکسر فراموش کر دینے سے اپنی ذات کے اندر محرومیاں جنم لینے لگتی ہیں کیونکہ انسان کی منزل نہ تو شیطانوں کی بستی ہے اور نہ ہی فرشتوں کی۔ اس کے امتحان میں تواس کے بیچوں بیچ اس صراط مستقیم پر، اس راستے پر چلنا لکھا ہے جو اسے اس بستی تک لے جاتا ہے جہاں انسان بستے ہیں۔اشرف المخلوقات۔