مجھ سے میرا تعلق!

تبسم

محفلین
بحیثیت بیٹی بیوی اور ماں تو اپنے فرائض بہت اچھی طرح نبھانے کی کوشش کی۔ان فرائض کی ادائیگی میں اتنا ڈوب گئی کہ اپنا خیال ہی نہ رہا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ خود کو بھی وقت دینا چاہیئے۔
جب عورت صرف بہن یا بیٹی ہے تو بہت بےپرواہ اور غیر ذمہ دار ہوتی ہے مطلب یہ کہ اس پر ذمہ داریاں نہیں ہوتی ۔بس اپنی تعلیم اور اپنی ذات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جونہی ماں بنتی ہے تو ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں،جب تین چار بچے ہوجاتے ہیں تو خود کی پرواہ نہیں کرتی،شوہر ،بچے اور گھر کی دیکھ بھال کرتے کرتے خود کو بھول جاتی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ میرے بچے بھی میری کیئر کرتے ہیں۔ اللہ سے تعلق انسان کو بہت سکون دیتا ہے۔جو خوشی انسان کو کسی دوسرے انسان کے کام آکر ہوتی ہے، وہ اپنی ذات میں جم رہنے سے نہیں ملتی۔
اپنا،اپنے بچوں کا،اپنے گھر اور شوہر کا اور کسی اور دوسرے جس کا بھی خیال رکھیں ،تو نیت یہ رکھیں کہ یہ اللہ کیلیئے کر ہی ہوں۔تو سکینت بھی رہے گی اور اپنے لئے وقت بھی ضرور ملے گا۔
اپ کی اس بات سے میں اگری نہیں کر تی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماہی احمد بہنا۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے اتنا اچھا موضوع چُن کر ہمیں اِس پر سوچنے کا اور بات کرنے کا موقع دیا اور شمشاد بھائی کا بھی شکریہ کہ انہوں نے ہمیں اپنی رائے کے اظہار کی دعوت دی۔
میں یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے نزدیک تو رشتوں اور تعلقات کی دنیا میں کوئی بھی رشتہ یا تعلق الگ سے اپنا وجود اور معنی نہیں رکھتا۔ اس کی پہچان ہمیشہ دوسرے رشتوں سے ہوتی ہے۔ اس بنا پر میرے لیے فقط اپنی ذات کی بات کرنا شایدممکن نہ ہو۔
خود کا خیال رکھنا۔ اپنے تعلق کومضبوط بنانا۔اور اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا۔ اس سےاچھی بات بھلا کیا ہوگی۔ کیونکہ ہمارے وجود کے یقیناً ہم پر کچھ حقوق ہیں جو ہمیں لازماً پورے کرنے چاہییں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ میں ذاتی طور پراس بات کا بھی قائل ہوں کہ جب ہم اپنا وقت دوسروں کے لیےوقف کرتے ہیں تو درحقیقت اس میں بھی ہماری اپنی ہی ذات کا بھلا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں یا دوسروں میں خوشی بانٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں تو اس کے بدلے میں ہماری ذات کو بھی سکون اور راحت ملتی ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ مثبت عمل ہمیشہ مثبت ردعمل پیدا کرتا ہے اور منفی رویے یا منفی سوچیں انسان کے لیے تکلیف اور بے سکونی کا پیغام لاتی ہیں۔ جب کبھی ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کرپورے خلوص کیساتھ کسی دوسرے کو اہمیت دیتے ہیں تو جواب میں وہ بھی اس قرض کو چکانے میں دیر نہیں کرتا بشرطیکہ آپ کا ہر عمل اپنے رب کی خوشنودی پانے کے لیے ہو۔(بے شک ہمارا رب کسی کا قرض نہیں رکھتا۔ )پھر دوسرے بھی پہلے سے زیادہ ہماراخیال رکھنے لگتے ہیں اور اصل خیال تو وہی ہے جو دوسرےآپکی محبت میں آپکا رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چاہنے سے چاہے جانے کا احساس زیادہ دلکش ہوتا ہے۔
مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا دین ہر معاملے میں ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے۔ اسی طرح ہمیں تعلقات اور معاملات میں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہم جس راستے پر چلتے ہیں اس کی ایک طرف شیطانوں کی بستی ہے تو دوسری طرف فرشتوں کی۔ جو لوگ فقط اپنی ذات کو ہی اپنامحور بنا لیتے ہیں۔ وہ فرعون کی مانند خودپسندی، تکبر اور انا کے اسیر بن کر ہمیشہ اپنی ذات کے زنداں میں قید رہتے ہیں۔ دوسری طرف حد درجہ بڑھا ہوا ایثار اور قربانی کا جذبہ اگرچہ بڑی اعلیٰ اور معتبرچیز ہے مگرانسانی فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ بعض اوقات اپنی ذات کو یکسر فراموش کر دینے سے اپنی ذات کے اندر محرومیاں جنم لینے لگتی ہیں کیونکہ انسان کی منزل نہ تو شیطانوں کی بستی ہے اور نہ ہی فرشتوں کی۔ اس کے امتحان میں تواس کے بیچوں بیچ اس صراط مستقیم پر، اس راستے پر چلنا لکھا ہے جو اسے اس بستی تک لے جاتا ہے جہاں انسان بستے ہیں۔اشرف المخلوقات۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی احمد بہنا۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے اتنا اچھا موضوع چُن کر ہمیں اِس پر سوچنے کا اور بات کرنے کا موقع دیا اور شمشاد بھائی کا بھی شکریہ کہ انہوں نے ہمیں اپنی رائے کے اظہار کی دعوت دی۔
میں یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے نزدیک تو رشتوں اور تعلقات کی دنیا میں کوئی بھی رشتہ یا تعلق الگ سے اپنا وجود اور معنی نہیں رکھتا۔ اس کی پہچان ہمیشہ دوسرے رشتوں سے ہوتی ہے۔ اس بنا پر میرے لیے فقط اپنی ذات کی بات کرنا شایدممکن نہ ہو۔
خود کا خیال رکھنا۔ اپنے تعلق کومضبوط بنانا۔اور اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا۔ اس سےاچھی بات بھلا کیا ہوگی۔ کیونکہ ہمارے وجود کے یقیناً ہم پر کچھ حقوق ہیں جو ہمیں لازماً پورے کرنے چاہییں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ میں ذاتی طور پراس بات کا بھی قائل ہوں کہ جب ہم اپنا وقت دوسروں کے لیےوقف کرتے ہیں تو درحقیقت اس میں بھی ہماری اپنی ہی ذات کا بھلا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں یا دوسروں میں خوشی بانٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں تو اس کے بدلے میں ہماری ذات کو بھی سکون اور راحت ملتی ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ مثبت عمل ہمیشہ مثبت ردعمل پیدا کرتا ہے اور منفی رویے یا منفی سوچیں انسان کے لیے تکلیف اور بے سکونی کا پیغام لاتی ہیں۔ جب کبھی ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کرپورے خلوص کیساتھ کسی دوسرے کو اہمیت دیتے ہیں تو جواب میں وہ بھی اس قرض کو چکانے میں دیر نہیں کرتا بشرطیکہ آپ کا ہر عمل اپنے رب کی خوشنودی پانے کے لیے ہو۔(بے شک ہمارا رب کسی کا قرض نہیں رکھتا۔ )پھر دوسرے بھی پہلے سے زیادہ ہماراخیال رکھنے لگتے ہیں اور اصل خیال تو وہی ہے جو دوسرےآپکی محبت میں آپکا رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چاہنے سے چاہے جانے کا احساس زیادہ دلکش ہوتا ہے۔
مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا دین ہر معاملے میں ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے۔ اسی طرح ہمیں تعلقات اور معاملات میں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہم جس راستے پر چلتے ہیں اس کی ایک طرف شیطانوں کی بستی ہے تو دوسری طرف فرشتوں کی۔ جو لوگ فقط اپنی ذات کو ہی اپنامحور بنا لیتے ہیں۔ وہ فرعون کی مانند خودپسندی، تکبر اور انا کے اسیر بن کر ہمیشہ اپنی ذات کے زنداں میں قید رہتے ہیں۔ دوسری طرف حد درجہ بڑھا ہوا ایثار اور قربانی کا جذبہ اگرچہ بڑی اعلیٰ اور معتبرچیز ہے مگرانسانی فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ بعض اوقات اپنی ذات کو یکسر فراموش کر دینے سے اپنی ذات کے اندر محرومیاں جنم لینے لگتی ہیں کیونکہ انسان کی منزل نہ تو شیطانوں کی بستی ہے اور نہ ہی فرشتوں کی۔ اس کے امتحان میں تواس کے بیچوں بیچ اس صراط مستقیم پر، اس راستے پر چلنا لکھا ہے جو اسے اس بستی تک لے جاتا ہے جہاں انسان بستے ہیں۔اشرف المخلوقات۔
آپ نے دونوں اطراف کی بات کہہ دی:)
اور میں آپکی بات سے متفق ہوں۔۔۔ اعتدال اور توازن سے ہی زندگی کا حسن قائم رہتا ہے۔۔۔۔
اب اسی اعتدال میں جہاں ایک طرف ہم اپنے پیارے رشتوں اور لوگوں کا خلوصِ نیت سے خیال رکھتے وہیں اپنا بھی رکھنا نہایت ضروری ہے۔۔۔۔ میرا سوال اس بات کے آخری حصے پر لاگو ہوتا ہے کہ کیسے؟؟ آپ احباب اپنی ذات کے ساتھ دوستی کیسے نبھاتے ہیں؟ اپنا خیال خود کیسے رکھتے ہیں؟
(آپ جانتے ہوں گے، بعض اوقات انسان ایسے نکتے پر پہنچ جاتا ہے جہاں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا۔۔۔۔۔ کہتے ہیں دل کی بات سنو یا دماغ سے سوچو، مگر اندر اتنا شور اتنی بے چینی ہوتی ہے کہ آپ اندر کی طرف کان لگائیں تو کان پڑی آواز نہ سنائی دے۔۔۔۔۔ اب اس کا تعلق آپ کے دوسرے رشتوں سے نہیں (شاید) کہ آلریڈی آپ سب کچھ احسن انداز میں نبھا رہے، اس کا تعلق آپ کے اپنے تعلق سے نکلتا ہے (شاید) کیونکہ ایک بہت لمبے عرصے سے آپ نے خود میں جھانکا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ آپ کو پتا ہی نہیں چلا کہ وہ شور کب اور کیسے آپ میں بیدار ہو گیا اور اب اس کا خاتمہ کیسے ہو۔۔۔۔۔۔)
 

لاریب مرزا

محفلین
ہمارا ہم سے تعلق ویسا ہی ہے جیسا کسی بھی فردِ واحد کا خود سے ہونا چاہیے. :)

ہمارے خیال میں جو انسان خود اپنا حق ادا نہیں کر سکتا وہ کسی کا بھی حق ادا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا. اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ غلط کرتے ہیں. :)

ابھی تک تو ہمارا نظریہء خودی کچھ یوں ہے.
I'm mine before I'm anyone else's
:) :)

مستقبل قریب اور بعید میں بھی ان شاء اللہ تبدیلی نظریہ کا کوئی ارادہ نہیں. :)
 

سیما علی

لائبریرین
ارے واہ آنی! بے شک اللہ پاک کرم ہے کہ وہ سمجھ بوجھ عطا کرے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق بھی:)
مجھے ایک بات نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔۔ یہاں بار بار ایک ہی نکتہ سامنے آ رہا کہ دیگر رشتوں کی ذمہ داریاں ہمیں خود سے لاپرواہ کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ یہ کہ ایک عمومی رویہ ہے۔۔۔۔ اس میں کسی کا قصور بھی نہیں کیونکہ بیرونی دنیا کے ہر معاملہ میں آپ سے فوراً جواب طلبی ہوتی سو انہیں اگنور نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا حل کیا ہو۔۔۔۔ کیونکہ یہ اچھی بات نہیں۔۔۔۔ آپ بیرونی دنیا کے معاملات میں جب اندر کی دنیا کو نیگلیکٹ کرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے جب ڈیپریشن اور سٹریس جیسی بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں۔۔۔ دل اداس اور پریشان رہنے لگتا ہے اور پھر زندگی مشکل لگنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں کہ یہ ایک بنیادی بات تربیت میں شامل ہونی چاہیے۔۔۔۔ یعنی اس سب کو مینیج کرنا؟ تو کیا پھر اب خود اپنی تربیت کی ضرورت ہے؟ مطلب اٹس کنفیوزنگ!!!!
ماہی بٹیا ایک بات تو بتائی ہی نہیں کہ ہم بالکل اکیلے بھی سڑیس کا شکار نہیں ہوتے کیو نکہ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ اُسوقت صرف آپ اور اُس کی ذات ہوتی وہ لطف ہی الگ ہے اُس تعلق لطف دینے لگے تو دنیا کا ہر تعلق بے معنی لگتا ہے ؀
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
 
آخری تدوین:

زوجہ اظہر

محفلین
اس تعلق کی اہمیت یہ ہے کہ اپنی ذات سے تعلق ایک بہتر زندگی گزارنے میں معاون ہوتا ہے

جیسے کمتری یا برتری کے احساس کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ کرتے ہیں ...
اسی طرح نرگسیت یا خودترسی کے ساتھ کیسے معاملات ٹھیک ہوں گے-

باقی بہتری کےلئے خوداحتسابی اچھی چیز ہے پھر جہاں اصلاح اور درستی کی ضرورت ہو ، کی جائے-

یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی ذات کا تحفظ اور خیال رکھنا حضرت انسان کی سرشت میں شامل ہے

مندرجہ بالا باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےذاتی طور پر بھی ایک مثبت و متوازن تعلق رکھنے کی سعی رہتی ہے -
 

ماہی احمد

لائبریرین
ہمارا ہم سے تعلق ویسا ہی ہے جیسا کسی بھی فردِ واحد کا خود سے ہونا چاہیے. :)

ہمارے خیال میں جو انسان خود اپنا حق ادا نہیں کر سکتا وہ کسی کا بھی حق ادا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا. اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ غلط کرتے ہیں. :)

ابھی تک تو ہمارا نظریہء خودی کچھ یوں ہے.
I'm mine before I'm anyone else's
:) :)

مستقبل قریب اور بعید میں بھی ان شاء اللہ تبدیلی نظریہ کا کوئی ارادہ نہیں. :)
زہے نصیب!!! کون آیا!!! :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی بٹیا ایک بات تو بتائی ہی نہیں کہ ہم بالکل اکیلے بھی سڑیس کا شکار نہیں ہوتے کیو نکہ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ اُسوقت صرف آپ اور اُس کی ذات ہوتی وہ لطف ہی الگ ہے اُس تعلق لطف دینے لگے تو دنیا کا ہر تعلق بے معنی لگتا ہے ؀
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
بے شک!!!
اللہ پاک ایک بار کسی کو اپنے ہونے کا فہم عطا کر دیں تو پھر زندگی کا رنگ ہی الگ ہو جاتا ہے :)
اللہ پاک آپ سے اپنا تعلق اور مضبوط کرلیں،آپ سے رحمت اور کرم کا معاملہ رکھیں۔۔۔ آمین :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
اس تعلق کی اہمیت یہ ہے کہ اپنی ذات سے تعلق ایک بہتر زندگی گزارنے میں معاون ہوتا ہے

جیسے کمتری یا برتری کے احساس کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ کرتے ہیں ...
اسی طرح نرگسیت یا خودترسی کے ساتھ کیسے معاملات ٹھیک ہوں گے-

باقی بہتری کےلئے خوداحتسابی اچھی چیز ہے پھر جہاں اصلاح اور درستی کی ضرورت ہو ، کی جائے-

یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی ذات کا تحفظ اور خیال رکھنا حضرت انسان کی سرشت میں شامل ہے

مندرجہ بالا باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےذاتی طور پر بھی ایک مثبت و متوازن تعلق رکھنے کی سعی رہتی ہے -
:)
ویسے میں چاہ رہی تھی کہ ہماری پروفیشنل خاتون اس موضوع پر مفصل رائے اور tips دیں کیونکہ مجھے لگتا ہے یہ نفسیاتی اور جذباتی صحت پر اثر انداز ہونے والا تجربہ ہے۔۔۔۔ اور اس سب کو آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے بھلا۔۔۔
 
Top