مجھ سے کبھی تو پیار سے الفت کی بات کر

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔------------
مجھ سے کبھی تو پیار سے الفت کی بات کر
ذہنی سکون دے مجھے راحت کی بات کر
-------
بھولا نہیں ہے پیار ترا آج بھی مجھے
تجھ کو اگر ہے یاد تو چاہت کی با کر
-------
لوگوں کے دل کو جیت لے اپنے تُو پیار
ہرگز نہ ان کے ساتھ تُو نفرت کی بات کر
----------
مجھ کو ڈرا رہا ہے تُو دوزخ کی آگ سے
میرا خدا رحیم ہے رحمت کی بات کر
----------
قربان میری جان بھی رب کے حبیب پر
ان کی عطا سے مل گئی نسبت کی بات کر
-----------
رہبر مرا دلیر ہے ڈرتا نہیں کبھی
لوگوں سے اس کی یار شجاعت کی بات کر
------------
رب کا کرو گے شکر تو ملتا ہے اور بھی
پنہاں ہے رب کی یاد میں برکت کی بات کر
----------
ارشد ترے خلوص میں کوئی کمی تو ہے
گر ہے نہیں خراب تو نیّت کی بات کر
----------
 
مجھ سے کبھی تو پیار سے الفت کی بات کر
ذہنی سکون دے مجھے راحت کی بات کر
عرض ہے پیار سے بات کرنا ہی الفت و چاہت کا مظہر اور محبت و مودت کا عکاس ہوتا ہے پیار کے بعد الفت کا الگ سے مطالبہ ٹھیک نہیں ۔اِسی بات کا اُردُو روزمرہ یہ ہوسکتا ہے: ’’مجھ سے کبھی تُو پیار محبت کی بات کر‘‘دوسرے مصرعے میں محبوب سے ذہنی سکون کی درخواست کو شاعرلوگ شرمندۂ الفاظ تھوڑی کرتے ہیں اشارتاً اور کنایتاً مراد لیتے اور غلاف میں لپیٹ کر مدعا بیان کرتے ہیں جیسے’’ مجھ سے اے میرے یار تُو جنت کی بات کر‘‘یعنی : مجھ سے کبھی تو پیار محبت کی بات کر۔میرے لیے تو حُور ہے جنت کی بات کر
بھولا نہیں ہے پیار ترا آج بھی مجھےیہ لب ولہجہ اورطرزو انداز بات کا اُردُو والے نہیں اپناتے ،مدعا اور مافی الضمیر بیان کرنا مقصود ہوتو کوئی بھی کیسے بھی بولے ،مخلوط معاشرت میں روا ہے۔لیکن اردُو زبان و بیان کا لحاظ رکھا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔’’بھولا نہیں ہے پیار ترا ٓج بھی مجھے ‘‘ شائستگی اور شستگی سے کہیں پرے بلکہ کوسوں پرے ہے۔۔۔۔۔’’بھولا نہیں ہے پیار ترا دل یہ آج تک‘‘
تجھ کو اگر ہے یاد تو چاہت کی با ت کر ’’تجھ کو اگر ہویاد تو چاہت کی بات کر‘‘/’’ ۔گریاد ہو تو پھر وہی چاہت کی بات کر‘‘
لوگوں کے دل کو جیت لے اپنے تُو پیار’’لوگوں کے دل تو جیت لے میٹھی زبان سے‘‘ یہاں بھی میٹھی زبان میں رہسان رہسان بولنے کا اشارہ اور کنایہ ہے اور رہسان/رسان کا مطلب نرم،ملائم اور دھیماپن اور ہلکا
ہرگز نہ ان کے ساتھ تُو نفرت کی بات کر
مجھ کو ڈرا رہا ہے تُو دوزخ کی آگ سے
میرا خدا رحیم ہے رحمت کی بات کر’’اُس ربِ دوجہان کی رحمت کی بات کر ‘‘یا کچھ اور تاکہ شعردولخت نہ رہے
قربان میری جان بھی رب کے حبیب پر
ان کی عطا سے مل گئی نسبت کی بات کر
رہبر مرا دلیر ہے ڈرتا نہیں کبھی
لوگوں سے اس کی یار شجاعت کی بات کر
رب کا کرو گے شکر تو ملتا ہے اور بھی
پنہاں ہے رب کی یاد میں برکت کی بات کر
ارشد ترے خلوص میں کوئی کمی تو ہے
گر ہے نہیں خراب تو نیّت کی بات کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی اشعار ان شاء اللہ آیندہ
 
آخری تدوین:
قربان میری جان بھی رب کے حبیب پر
ان کی عطا سے مل گئی نسبت کی بات کر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا ،مومن کے لیے یہ فخر ربِ کریم کا انعامِ عظیم ہے مگر یہ بات شعر میں آپ سے ہو نہیں پارہی ۔ اساتذہ نے ایسی مشکلات کاحل یہ نکالا کہ دوسرا مصرع پہلے کہہ لیا جائے اور پھر اُس کی مناسبت سے پہلا مصرع لائیں:
1۔۔۔۔۔کہتا ہوں دِل سے تُو اِسی نسبت کی بات کر
2۔۔۔۔اے دل تُو اُن کی ذات سے نسبت کی بات کر
3۔۔۔۔اِس ربط و ضبط اور تُو نسبت کی بات کر
4۔۔۔اُن کے ہی دم سے جو ملی ، نسبت کی بات کر
اور آپ کا مصرع جس میں کا تعلق پہلے مصرعے سے کچھ کمزورمعلوم ہورہا ہے
4۔۔اُن کی عطا سے مل گئی نسبت کی بات کریہاں ’’جو ہے ملی نسبت کی بات کر ‘‘ کہیں تو شعر مکمل ہوجاتا ہے تب یہ مصرع یوں ہو گا’’ اُن کی عطا سے جو ہے ملی ، نسبت کی بات کر‘‘مگر مصرع بحر سے خارج ہوجائے گا
اُن ؐسے جو ہم کو مل گئی ، نسبت کی بات کر اب مصرع دُرست ہے اور باقی تجویز کردہ مشوروں کی ضرورت نہیں رہی۔

قربان میر ی جان بھی رب کے حبیبؐ پر
اُن سے جو ہم کو مل گئی ، نسبت کی بات کراِس میں تقابلِ ردیفین اور شترگربہ کے عیوب در آئے
قدرے دُرست شعر:
رب کے حبیبؐ پر ہے مری جان بھی نثار
اُن سے جو مجھ کو مل گئی ، نسبت کی بات کر/اُن ؐ سے عطاہوئی اِسی نسبت کی بات کر
قربان میری جان بھی رب کے حبیب پر
اُن کی عطا ہے جو۔ اُسی نسبت کی بات کر
 
آخری تدوین:
Top