ایک نفسیات کا ماہر کہتا ہے “ وضع یا ڈھنگ حقیقت سےذیادہ ضروری ہیں“ شاید ۔۔۔
یقیناً ہم میں سے بہت سے سارا زندگی اپنی وضع کو بہتر بنانے میں گزارتے ہیں، ادل بدل کرنا، سدھارنا، تبدیل کرنا۔ مگر ہماری کوششیں صرف اتنا کرتی ہیں کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول میں بس جاتے ہیں ۔
اس ناختم ہونی والی کوشش میں لچک اور ملائمت، کامیابی کی کنجی ہیں ۔۔۔ یا پھر عجز اور انکساری ۔۔۔ شاید۔
بے لوچ انسان (ایک ادیب ) شاید کبھی نئ وضع میں نہیں ڈھل سکتا ہے، نئی عادت ڈال سکتا اور یا نیا فلسفہ اور اطوارِ زندگی کو اپنا سکتا ہے۔
وہ لوگ جوخود سے راضی، مطمئن اور خوش ہوتے ہیں ان کو اپنے اطراف تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
لیکن ہم ادیب ہمیشہ دوسروں کوبدلنا چاہتے ہیں، ہم ان کی زندگیوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں تاکہ ان کی ترتیب بدل دیں۔ ہم سمجھتے ہیں کے ہم پتہ ہے کےسچ کیا ہے؟ جھوٹ کیاہے؟ پیار کسے کہتے ہیں اور محبت کیوں ہوتی ہے؟ پرواہ کیا ہے؟ بھروسہ کیا ہے؟ اور اعتماد کیا ہوتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کے زمین لامحدود ہے، آسمان کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے ، سمندر کی گہرائی ناپی نہیں جاسکتی۔ اور رشتے ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں۔
لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم ادیب اپنےآپ سے ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔
مجھ کو ایسا کیوں لگتا ہے ۔۔۔