مجھ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟4

تفسیر

محفلین
نا ہوتا میں تو کیا ہوتا

حالی کہتے ہیں غالب نے نئی طرح سے نیسی کو ہستی پر ترجیح دی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اس مصرعےمیں عدم کو وجود سے حدو درجہ افضل و برتر کہا گیا ہے۔ دوسرے کہتے ہیں جس طرح سوال اُٹھایا گیا ہے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ میں “ خدا ہوتا“ ۔

میرے خیال میں غالب کہہ رہے ہیں کہ خوشی کی تلاش کرنا سود مند نہیں کیونکہ کے خوشی“ نا “ ہونےمیں ہے ۔

میں نے بیسوں دفعہ ایسا محسوس کیا ہے کہ جب میں خوشی کی تلاش میں نہیں ہوتا، وہ آموجود ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسکو میری تلاش کرنےدیتا ہوں۔ ایسا لگتا کہ جتنا میں اس کی طرف توجہ نہیں دیتا اتنا ہی وہ میری طرف مائل ہوتی ہے۔

سوامی سیتچیداندا نے ایسے اسطرح بیان کیا ہے۔ “ اگر تم چیزوں کے پیچھے بھاگو گے تو وہ تم سےدور جائیں گی۔ تم ان کو تمہارا پیچھا کرنےدو۔ سمندر کبھی دریاوں کو مدعو نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وہ سمندر کی طرف بھاگتے ہیں۔ سمندر قناعت پسند ہے اسے دریا سے کچھ نہیں چاہیے اور یہ زندگی کا راز ہے“۔

ایک چائنیز فلاسفر چوانگ زو نے یہی خیال اسطرح پیش کیا ہے۔ “ خوشی کوتلاش نا کرنا خوشی کا باعث ہے“

فرانس کافکا بیسویں صدی کا رائٹر کہتا ہے۔ " یہ ضروری نہیں کہ تم گھر سے باہرجاؤ، تم ڈیسک پر بھی بیٹھ کرسن سکتے ہو۔ سننا بھی ضروری نہیں تم صرف انتظار کرو۔ تمہیں انتظار کرنا بھی ضروری نہیں، خاموش اور ساکت رہو، دنیا کا نقاب اٹھ جائےگا۔ “غایت انبساط آنند۔ “

مجھ اس وقت سب سےذیادہ آنند ہوتی ہے۔ جب کوئی مجھ سے بغیر کسی شرط کہتا ہے“ آپ کتنے اچھے ہیں“۔ اور میں اس کو بغیر کسی شرط کے قبول کرلیتا ہوں۔

بغیر کسی شرط کے محبت کوقبول کرنا میرے لیے ہمیشہ مشکل رہا۔ اس میں اپنے سےاتنی محبت کی ضرورت ہوتی ہے جتنی کے کوئی اور آپ سے کرتا ہے۔ اور یہی میرے لیے آسان نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کے میری تمام خامیاں جو مجھ سے چھپی ہیں وہ دوسروں پرظاہر ہیں۔

پھر بھی جب میں کسی سےمحبت کرتا ہوں اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں چاہتا اور بغیرشبہ کے اس کی محبت قبول کرتا ہوں ۔ مجھےخوشی حاصل ہوتی ہے۔

ایسا کرنےمیں ، مجھے خوشی کی تلاش میں نہیں جانا پڑتا، میں خود خوشی بن جاتا ہوں۔

مجھ کو تو ایسا لگتا ہے ۔۔۔
 
Top