حمید
محفلین
احباب کی نذر-
اک پھول بھی اگر وہ مسلتا دکھائی دے
مجھ کو تو ایسا شخص درندہ دکھائی دے
لہریں سکون میں ہیں،مسافر مزےمیں ہیں
طوفان جل کی کوکھ میں پلتا دکھائی دے
شرم و حیا درست مگر مجھ کو دیکھ کر
شانوں سے کیوں دُپٹؔہ سرکتادکھائی دے
دیمک زدہ ملا تھا سلیماں کو بھی عصا
دل مانتا نہیں جو سہارا دکھائی دے
کاٹو کوئی درخت، جلا دو یہ گھاس تم
تاریک جنگلوں میں بھی ر ستہ دکھائی دے
ہتھیار گر حمید نہ ڈالیں تو کیا کریں
دشمن کی صف میں جب وہ شناسا دکھائی دے