مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔غزل ایک چارمثلث کی چوٹی ہے
محبت انسانیت کا سب سے پڑا جذبہ ہے۔غزل اس جذبہ کا اظہار ایک خوبصورتی سی کرتی ہے۔ The culture Grammar of Urdu Ghazal میں ڈاکٹر شیما رضوی لکھتی ہیں غزل ایک چارمثلث کی چوٹی ہے جس کی پیندی کے مثلث کے تین زاویہ معشوق، عاشق اور رقیب ہیں۔ اسی لئے جگر نے کہا۔
کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانہ کی
سنتا جارہا ہے جس کو جتنا یاد ہو
محبت کے بغیرر زندگی کی حقیقت مبہم ہے۔یہ درد کی دوا ہے لیکن اس کے درد کی کوئی دوا نہیں۔ غالب کہتے ہیں۔
عشق سے طبیت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا
معشوق کا تصورکی وجہ حُسن اوراس کی نمائش پر مبنی ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے۔
حُسن ہر رنگ میں مخصوص کشش رکھتا ہے
اور جہاں کہیں بھی حُسن و محبت ہوتی ہے وہاں رقیب کی بھی موجودگی ہوتی ہے۔ شاعر اپنے جذبات اور سوچ سے اس چار مثلث میں محبت کی تصویر بناتا ہے کہ غزل کے الفاظ ایک سہ گا نا کی طرح سریلے ہو تے ہیں۔ ایک شاعر اپنی دل کی گہرائیوں سے اپنی خواہشات اور احساسات کا بغیررکاوٹ کے اظہار کرتا ہے۔ اسکو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی تخلیق کو پسند کرے گا یا نہیں۔ وہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کردیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ غالب نے کہا۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
یہ غزل کی بصیرت ہے جو پنہاں اشارے کنائے اور استعاری علامت کھنچتی ہے۔ دلیل دینا دماغ کی زبان ہے جہاں استعارہ ، الہامِ ربانی ہے۔
زلف سا پیچدار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھنگ کا
شاعر کی بصیرت باطنی ہے جب وہ معمولی سی بھی چیزیوں کو دیکھتا ہے تو وہ انکو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔
مثال کے طور پرعَندَلیپ (بلبل) کو پھولوں سے محبت ہے چنا چہ جب ایک شاعر جب بلبل اور پھول کو دیکھتا ہے تو ایک عاشق اور معشوق کا تصور کرتا ہے۔
اسکا تصو ر اسے اس خیال کی طرف لاتا ہے۔پھول کو مالی(گل چین۔ پھول توڑنے والا) سے خوف ہے اور بلبل کو شکاری (صیّاد) سے۔
اسی طرح رقیب عاشقوں کا دشمن ہے۔اس لئے وہ ان کا ملاپ پسند نہیں کرتا۔چناچہ رقیب ،گل چین اور صیّّادکے درمیان ایک لڑی بن جاتی ہے۔ عاشق کا مخالف صیّاد اور معشوق کا مخالف گل چین۔
اسطرح ان سے مطالق الفظ پروبال، بے پروبال، اَسیری (قیدی) ، پامالی(اجاڑنا)، تیر، باغ،طاقتِ پرواز ، رہائی، اور قفس شعروں میں خود بخود نازل ہوتے ہیں۔ جلیل منک پوری کہتے ہیں۔
اڑا کر بال ہ پر کیوں ہاتھ کھینچا ہم اسےروں سے
بھی تو حسر ت پرواز اے صیّاد باقی ہے
مجھے کو ایسا کیوں لگتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔ آپ اس محفل کو لٹا کر مجھے شرمندہ بھی کریں گے؟
جون میلٹن ( ١٦٧٤۔١٦٠٨ )انگریزی زبان کا ایک بہت بڑا شاعر اورعقلمند انسان تھا۔ ١٦٥١ میں وہ اندھا ہوگیا۔ اسکی مشہور نظم رزم( epic) ١ Paradise Lost اور Paradise gained ہیں۔ہندی میں اس کی مثال شاید ما بھارت ہو اور اردو میں شاید اقبال کے شکوہ جواب کو اس سے مشاہبت ہو۔
مقدمہ شعرو شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔ میلٹن کایہ کہنا ہے۔
شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ ہو- جوش سے بھرا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ساد گی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاھئیں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کے شارع پر چلنا، بےتکلفی کے سیدھے راستہ سے ادھر ادھر نہ ہو نا اور فکر کو جولانیوں (گھوڑے کی دوڑ۔ تیز بازی) سے باز رکھنا ، اسی کا نام سادگی ہے۔
میلٹن نے یہ بھی کہا کہ وزن کیضرورت نظم میں معتبر ہونی چائیے۔ لیکن شعر کا وزن پرانحصا ر نہیں ہے۔ البتہ وزن سےبلا شبہ شعر کی خوبی اور اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے ۔قافیہ بھی نظم کے لئے ضروری ہے شعر کے لئے نہیں وزن کیطرح قافیہ بھی شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوش گوار ہوتا ہے۔اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لزت پاتی ہے۔
کہنا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ بھی اسطرح شعر بنانے کی کوشش کریں ۔ اس محفل میں ہم بصارت والے اندھے(آپ) شاعری کریں گے۔ باقی پڑھنے والے دوست اندھے ان شعروں کو جانچیں گے۔ بھی جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔
شاعری کے لئے تین شرطیں ہیں۔
- تخیل
کائنات کا مطالحہ
تفحص (تلاش) الفاظ
فیض کا یہ شعر ان تین شرطوں کو پورا کرتاہے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔
فیض نے گُل، بادِنوبہار ، کےالفاظ استعمال کرکےگلشن کا کاروبار چلایا ہے۔
ان الفاطوں کے اور بھی معنی ہیں۔
گل ۔ پھول ، جسم کو داغنے کا نشان ، چراغ کی بتی کا جلا ہو سرا ، معشوق ، داغ، دھبہ ،پھانسی، حقے کا جلا ہوا تمباکو ،دہ سفید دھبہ جو انکھو ن میں پڑ جاتا ہے ، آگ سے جلنے کا نشان
باد نو بہار۔ موسم بہار کا شروع ، موسم بہار ، وہ چیز جس پر نئی رونق ہو
گلشن ۔ باغ ، پھلواڑی، چمن ،گلزار
کاروبار - کام کاج، دھندا ، شغل ،لین دین ، بنج بیوپار
آپ بھی گلشن کا کروبار چلا سکتے ہیں۔
بھئی کیوں نہیں چلاتے؟
ضروری نہیں کہ آپ بھی فیض کی طرح اپنےگلشن کا کاروبار باد نو بہار سے چلائیں ۔مگر چلائیں ضرور۔
دوسری چیزیں بھی تو گلشن کا کاروبار چلا سکتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ آپ فیض کا خیال اپنائیں۔ گلشن کو کسی اور چیز سے تشبع دی جا سکتی ہے۔
غالب نے کہا تھا
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غا لب کا اندازِ بیاں اور
دورِ مغل سے دورِ مشرف (آپ کے بادشاہ) تک اردوشاعر نے ہر عنوان اور خیال پر شعر لکھا۔ آپ ان خیالات کا اپنی زبانی اظہار کریں - اب کوئی نیا موضوع نہیں رہا - ان ہی موضوعوں کو آپ نے بار بارنکہار نا ہے۔
ہم لوگ اس مقابلہ کو شاعری کے اصولوں پر نہیں جانچیں گے، یہاں تو صرف پسند کا سوال ہے۔ آپ کے دوستوں کو کس کا شعر سب سے زیادہ پسند آیا۔ اصلاح سخن اور علمِ عروض کے لئے دوسرے سیکشن موجود ہیں۔
اب تک 482 لوگ آئے صرف محمد شمیل قریشی اور وہب اعجاز خان نےشعر لکھے اور میری عزت رکھ لی - لیکن مجھے یہ پتہ چلا کہ مجھ سے غلطی ہو رہی ہے یہ تو پڑھنے والوں کی محفل ہے۔ لکھنے والوں کی نہیں۔
482 لوگوں نے شعرنہ لکھ کر مجھے افسردہ کیا ہے۔ جب کے شعر لکھنے پر کوئی شاعرانہ پابندی نہیں۔
کیا آپ اس محفل کو لٹا کر مجھے شرمندہ بھی کریں گے؟
مجھ کوایسا کیوں لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کیا کوئ مجھے سننے گا؟
اپنے آپ کو چھپانے کی لیے دعوت ایک اچھی جگہ ہے۔ ہر شخص اس طرح بات کرتا ہے جیسے ایک ہاتھ میں تلوار ہو اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال ۔ گفتگواس طرح ہوتی ہے جیسےالماری میں سے موسم سرما کے لیے تہہ کئے ہوئے کپڑے اس موقع کے لیےنکالے گئے ہیں ۔ گفتگوایک گِھسے ہوے ریکارڈ کی طرح ہوتی ہے۔ جس کو ایک دعوت سےدوسری دعوت میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔
“ ُآپ نے کل کیا کھایا تھا“۔
“ کل کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے“۔
“ سنا ہے حامد نے شادی کرلی“۔
“ آپ ماشہ اللہ اچھی لگ رہی ہیں “۔
“ کوی نیا لطیفہ سناؤ“
یہ ایک ایسا کھیل ہے۔ ہر شخص بولتا ہے۔ مگر کوئ سنتا نہیں۔ جب تک کہ تم ذاتیات کواستعمال نہ کرو، تم ہار نہیں سکتے۔ شرآط آسان ہیں۔ کمرے میں داخل ہواور کبھی کبھی کچھ کہہ کر یہ محسوس ہونےدو کہ تم گفتگو میں موجود ہو ۔ تعجب نہیں کہ لوگ اِن کمروں کو چھوڑتے وقت ایسا محسوس کرتے جیسے وہ کہیں گے نہیں۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلےتھے۔ دوسرے انسانوں سےمل کرانکی زندگی میں کوتبدیلی نہیں آئی۔ اُن کی روح افزا نہیں ہوئ ۔
اس سے بھی زیادہ افسردہ بات یہ ہے کہ یہ نا سننے والےخود سے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ “ میں خود کو بھی سننا پسند نہیں کرتا“۔ اگرچہ فخر اور خود داری اس زمانہ میں گناہ سمجھے جاتے ہیں لیکن خدخُو ، خود آرائی اور خود نمائ اس سے بھی بڑے گناہ ہیں ۔ ہم سب لوگ یہ کہہ رہے ہیں ۔“ کیا اس شور و غل میں وہ مجھےدیکھ سکتے ہیں؟ کیا وہ میری اچھائیت ، صبر پسندی ، احساس پسندی اور اخلاقیات کی خوبصوریت کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اور کیا اگران کو پتہ چل جائے تو وہ مجھ کو پسند کریں گے؟“
نفی کا جواب پاکر وہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں ۔دنیا اُن کا وہ چہرہ دیکھتی ہے جوبہادر جنگ جو کا ہوتا ہے جو مردہ کی لاش پر کھڑا ہو کرسینہ پیٹتا ہے اُس سپاہی کا نہیں جو ایک مارے انسان کا سراپنی گود میں رکھ کر روتا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ یکتای ختم ہوگئ ہے اوراس کی جگہ یک فروی نے لے لی ہے۔ اگر میں اپنے آپ کو ایک جگہ منجمد کرلوں تو میرے چھجے کی دراڑوں سے باہر جانے والی روشنی لوگوں نظرنہیں آئےگی اور میرے گھٹنوں کے کانپنے کی آواز بلند نہ ہوگی۔
وہ نہیں جو ہم سب کو بتاتے ہیں بلکہ وہ جو ہم سب سے چھپاتے ہیں ہماری کہانی سناتا ہے۔
مجھ کوایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔